رشتے کے انتخاب میں راہ نما اصول

 اسجد عقابی 

استاذ دارالعلوم وقف دیوبند

چند مہینوں قبل ایک خاتون نے جہیز کے مطالبہ سے تنگ آگر اپنی جان دے دی تھی۔ خودکشی سے قبل ریکارڈ کی ہوئی اس کی ویڈیو نے ہر حساس دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ ایک معصوم سی زندگی ایک ناجائز مطالبہ کی بھینٹ چڑھ گئی تھی۔ ایک ایسے مطالبہ کی بھینٹ، جو اس کے اختیار میں ہی نہیں تھا۔ معاشرہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دو چار دنوں قبل علی گڈھ کا واقعہ سوشل میڈیا پر چھایا رہا کہ مسجد کے امام کی بیوی شادی کے بعد سے ہی اس سے داڑھی کٹوانے کا مطالبہ کررہی تھی، اور اس بات پر مصر تھی کہ وہ مہذب، تعلیم یافتہ ماڈرن لڑکی ہے اس لئے اس کے شوہر نامدار کو بھی ماڈرن بننا ہوگا، جس کے لئے داڑھی کٹوانا ضروری ہے۔ مطالبہ مکمل نہ کئے جانے پر لڑکی اپنے مائیکہ چلی گئی اور شوہر کے بقول ان کے گھر والوں کے خلاف جھوٹے مقدمات دائر کردیئے ہیں۔ ایک جانب تو یہ مسئلہ ہے کہ مطالبہ جہیز سے تنگ آکر ایک معصوم نے اپنی زندگی گنوادی اور دوسری جانب لڑکی کے غیر شرعی فرمائش کو مکمل نہ کرنے کی وجہ سے شوہر جھوٹے مقدمات میں پھنسنے لگا ہے ۔ جب اس طرح کے معاملات سرخیوں میں ہوتے ہیں تو معاشرہ کی بُرائی کا ذکر آتا ہے۔ معاشرہ کی بُرائی کو اس کا الزام دیا جاتا ہے۔ لیکن معاشرہ کی بُرائی کو معاشرہ کے باہمی تعاون سے کیسے ختم کیا جاسکتا ہے اس سلسلہ میں کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی ہے۔ معاشرہ کی اس بُرائی کے ظاہری پہلوؤں پر بات چیت ہوتی ہے لیکن حقیقی پہلو کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔شادی بیاہ کے موقع پر رشتہ کے انتخاب کے راہنما اصول کیا ہونے چاہئے، کن بنیادوں پر رشتوں کا انتخاب کرنا چاہئے، یہ ایک اہم اور حساس معاشرتی مسئلہ ہےجس کے تعلق سے بیداری پیدا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

شیخ علی طنطاوی کا واقعہ

ہمارے معاشرہ میں نکاح کا طریقہ کیا ہے؟کن اسباب و عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے رشتے طے کئے جاتے ہیں؟ احادیث مبارکہ میں نکاح کی کامیابی اور بہتر زندگی کو دین کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ برکت کا تعلق آسان نکاح کے ساتھ متعین ہے۔ برکت والا نکاح اسے قرار دیا گیا ہے جو آسان او ر سہل ہو۔ جبکہ کامیاب نکاح اسے قرار دیا گیا ہے جو دین کی بنیاد پر کیا گیا ہو، جہاں دین کے فوائد کو پیش نظر رکھا جائے۔ احادیث کے ان مفاہیم کو ذہن میں رکھتے ہوئے، موجودہ دور میں رشتوں کے معاملات کیسے طے کئے جاتے ہیں اس کا اندازہ مشہور عالم شیخ علی طنطاوی ؒ کے واقعہ سے ہوتا ہے۔ علی طنطاوی اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں "مولوی” شباہت کا حامل شخص تھا، اسلامی علوم کا اثر میرے ظاہر پر بھی تھا۔ جب میری شادی کا معاملہ پیش آیا تو کئی جگہوں سے میرا رشتہ واپس کردیا گیا کیونکہ میں "مولوی” شباہت کا حامل شخص تھا۔ ایک گھر میں میرا رشتہ طے ہوگیا، تقریبا ساری باتیں مکمل ہوگئیں تھیں، صرف نکاح خوانی کا عمل باقی رہ گیا تھا۔ لیکن اسی درمیان میری متوقع بیوی نے مجھے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس کی خواہش کی تکمیل کی گئی لیکن ملاقات کے بعد اس نے مجھے یہ کہہ کر "رد” کردیا کہ میں "مولوی” سے شادی نہیں کرسکتی ہے۔ علی طنطاوی آگر چل کر لکھتے ہیں کہ ہمارا رشتہ نہیں ہوسکا ۔ زمانہ کی رفتار کے ساتھ ساتھ علی طنطاوی کی شخصیت ابھرتی چلی گئی اور پھر وہ زمانہ بھی آیا جب وہ "قاضی” کے معزز عہدہ کے لئے نامزد کئے گئے۔ علی طنطاوی کہتے ہیں کہ جس وقت میں قضاء کے عہدہ پر تھا، میرے کورٹ میں "طلاق” کا ایک معاملہ آیا، جس میں بیوی نے اپنے شوہر کے خلاف مار پیٹ اور زیادتی کا الزام لگایا تھا۔ جب فریقین حاضر ہوئے تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ بیوی وہی عورت تھی جس نے مجھے "مولوی” کی شباہت کی بنا پر "رد” کردیا تھا۔ ہمارے معاشرہ میں ایک علی طنطاوی نہیں بلکہ ہزاروں علی طنطاوی موجود ہیں، جنہیں صرف اس لئے "رد” کردیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ظاہر میں بھی اسلام رکھتے ہیں۔ ان کی وضع قطع "مولویانہ” ہوتی ہے۔ ان کے متعلق یہ عام تصور ہوتا ہے کہ یہ لوگ موجودہ زمانہ کی رفتار کے ساتھ چلنے سے عاجز و قاصر ہیں کیونکہ ان میں "جدت پسندی” نہیں ہوتی ہے۔ یہ لوگ 1400 سو سال پرانے طرز عمل کو ترجیح دیتے ہیں ۔ یہ معاشرہ کی بُرائی ہے یا خوبی یہ تو اہل فکر و نظر طے کریں گے لیکن یہ ہمارے معاشرہ اور سماج کی حقیقت اور سچائی ہے۔

 

رشتے کے انتخاب میں مسلمانوں کا طرز عمل

ہمارے معاشرہ میں شادی بیاہ کے موقع پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ "لڑکا” کس پیشہ سے منسلک ہے۔ اس کی ماہانہ آمدنی کتنی ہے۔ اس کا خاندانی مقام و مرتبہ کیا ہے۔ لیکن یہ دیکھنے اور پوچھنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا ہے کہ دین اسلام سے کس حد تک واقفیت ہے۔ عملی طور پر زندگی میں اسلام کس حد تک داخل ہے۔ اخلاق و عادات اور اطوار سنت نبی کے مطابق ہیں یا پھر اس کی زندگی سنت نبوی سے کوسوں دور ہے۔ بعینہ یہی صورتحال "لڑکی” کے انتخاب کے وقت دیکھنے میں آتی ہے۔ کتنی پڑھی ہوئی ہے۔ کون سا کام کاج جانتی ہے۔ کھانا کیسا پکاتی ہے۔ سلائی کڑھائی کے ہنر سے واقف ہے یا نہیں۔ ماں باپ کس حیثیت کے ہیں۔ کتنا جہیز دینے پر قادر ہیں۔ غرضیکہ دونوں جانب سے دنیاوی معاملات طے کئے جاتے ہیں، ظاہری نمود و نمائش کا بھر پور خیال رکھا جاتا ہے، لیکن افسوس ! امت مسلمہ جس کی زندگی کا ہر عمل سنت نبی کے مطابق ہونا چاہئے وہ شادی جیسے اہم معاملہ میں سنت نبی سے رو گردانی کرلیتی ہے۔ نماز، روزہ اور دیگر دینی معاملات کے متعلق کوئی نہیں پوچھتا ہے۔ اسلامی احکامات سے واقفیت ہے یا نہیں، اس کی جانب کسی کی توجہ نہیں ہوتی ہے۔ میاں بیوی کے حقوق کیا ہیں، اس سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا ہے۔ شادی بیاہ کے معاملات میں اسلامی تعلیمات کا دور تک کوئی ذکر نہیں ہوتا ہے۔ رشتہ کے انتخاب کے راہ نما اصول ہماری نظر میں دنیاوی معاملات کو طے کرنا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ معاشرتی اور سماجی سطح پر ہمارا ہونے والا رشتہ دار کس مرتبہ کا ہے، اس سے قطع نظر کہ دینی امور اور احکامات اسلام کے معاملہ میں کس حد تک سنجیدہ ہے۔

 

سنت نبوی سے انحراف غیر اطمینانی کا سبب ہے

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو سنت نبوی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں، معاشرہ کی بُرائی کو معاشرتی تعاون سے ختم کرنے کی سبیل پیدا کریں۔ عوام کے درمیان بیداری پیدا کریں۔ قرآنی احکامات اور سنت نبوی کے مطابق نکاح وغیرہ کو انجام دینے کے لئے ابھاریں۔ معاشرہ کی بُرائی کسی مخصوص طبقہ پر تھوپنا یا خود اس سے راہ فرار اختیار کرنا مناسب نہیں ہے۔ گفتار کے غازی بننے کے بجائے کردار کا غازی بننا ہوگا۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے، باہم بیٹھ کر معاشرہ کی اس بُرائی کو ختم کرنے کے لئے مستقل لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ دنیاوی سکون و اطمینان کے لئے مذہب اسلام کی آغوش میں آنا ہوگا۔ دامن اسلام سے وابستہ ہوکر ہی کامیابی مل سکتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی کا وعدہ ہے "من عمل صالحا من ذکر او انثی وھو مؤمن فلنحیینہ حیاۃ طیبۃ” جو مومن مرد و عورت عمل صالح کرے گا ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: "اَلا بذکر اللہ تطمئن القلوب” خوب یاد رکھو! دل کا قرار اس کے ذکر (اطاعت) میں ہی ہے۔ ایک جگہ ہے” ومن یعش عن ذکر الرحمن نقیض لہ شیطان فھو لہ قرین” جو اللہ کے ذکر (اطاعت) سے روگردانی کرے گا ہم اس پر شیطان کو مسلط کردیں گے جو اس کا دوست (مشیر ) ہوگا۔ ایک جگہ ارشاد ہے: "ومن اعرض عن ذکری فاِن لہ، معیشۃ ضنکا و نحشرہ یوم القیمۃ اعمی” جو میرے ذکر (اطاعت) سے روگردانی کرے گا تو زندگی ضرور اس کے لئے تنگ (اور جہنم) بن جائے گی اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا بناکر اٹھائینگے۔

 

شادی بیاہ میں وجہ ترجیح بدلنے کی ضرورت ہے، رشتہ کے انتخاب کے راہ نما اصول میں شرعی اصول و ضوابط کو زندگی میں اتارنے کی ضرورت ہے۔ وجہ فخر پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل کی زندگی پُرسکون رہے اور زندگی میں اطمینان رہے۔ شادی بیاہ سے قبل زوجین کو "میاں بیوی” کے حقوق سے واقف کرانا ضروری ہے۔ ازدواجی زندگی کے اسلامی اصول کو سکھانا ضروری ہے۔ جب زندگی سنت قرآن و حدیث کے مطابق گزرے گی تو زندگی پُرسکون رہے گی اور اللہ کی مدد شامل حال رہے گی۔ اللہ ہمیں اسلامی احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

عافیت چاہو تو آؤ تو دامن اسلام میں ۔۔۔یہ وہ دریا ہے کہ جس میں ڈوبتا کوئی نہیں

Comments are closed.