کورونا وائرس کی نئی بلا ’حکومت جبر کے بجائے کوئی راہ نکالے ‘
یہ کیا ہاہا کار ہے!
شکیل رشید
کورونا کے وائرس کی نئی شکل نے ساری دنیا پر موت کا خوف طاری کردیا ہے۔ جنوبی افریقہ میں پائے جانے والے نئے کورونا وائرس کو اب تک کے تمام وائرسوں کے مقابلے زیادہ خطرناک قرار دیاجارہا ہے، اتنا خطرناک کہ دنیا کے بڑے بڑے ملکوں نے جنوبی افریقہ سے ’رشتہ‘ توڑنا شروع کردیا ہے، وہاں سے آنے والی پروازیں روک دی گئی ہیں۔ نئے وائرس نے دنیا کی معیشت پر بھی اثر ڈالا ہے۔ شیئر بازار میں زبردست گرائوٹ آئی ہے۔ دنیا جو ابھی بھی کورونا کی پہلی، دوسری اور کہیں کہیں تیسری لہر سے سنبھل نہ پائی تھی پھر سے لڑکھڑا گئی ہے۔ پہلی، دوسری اور تیسری لہر میں بھی غریب ہی کو سب سے زیادہ پریشانیاں جھیلنی پڑی تھیں اور اب یہ جو نئی بلا وارد ہوئی ہے یہ بھی غریبوں پر ہی سب سے زیادہ اثر انداز ہوگی۔ ممبئی کی مثال لے لیں: ممبئی میونسپل کارپوریشن نے نئی گائیڈ لائن جاری کی ہے جس کی رو سے اب بسوں، ٹیکسیوں اور آٹو رکشائوں سے بھی وہی سفر کرسکیں گے جن کے ویکسین کے دو ڈوز مکمل ہوچکے ہوں گے۔ اب تک یہ پابندی ٹرینوں تک محدود تھی لیکن اب اس کے دائرے کو وسیع کردیاگیا ہے۔ اگر کسی نے غلطی سے بھی ایسے شخص کو بس ٹیکسی اور آٹورکشا وغیرہ میں بٹھالیا جس کے ویکسین کے دونوں ڈوز پورے نہیں ہوئے ہوں گے تو ڈرائیور کو اور بس کے کنڈیکٹر کو ’جرمانہ‘ بھرنا ہوگا، وہ بھی پانچ سو روپیہ۔ ایسا نہیں کہ مسافر جرمانے سے محفوظ رہے گا، اس پر بھی علاحدہ سے جرمانہ ہوگا۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ جو کورونا کی مار پہلے سے جھیل رہے ہیں، جن کی روزی روٹی کے ذرائع اس وبا نے چھین لیے ہیں، وہ مزید تنگ دستی کا شکار ہوجائیں گے۔ کورونا کے ٹیکے جنہوں نے نہ لگوائے ہوں ان پر تو اس طرح کی سختی کو کسی حد تک جائز کہا جاسکتا ہے لیکن وہ جنہوں نے ایک ٹیکہ لگوایا ہے اور دوسرے ٹیکہ کےلیے ۸۴ دنوں کا انتظار کررہے ہیں، ان کی آمدورفت پر پابندی عائد کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ حکومت ، بات مہاراشٹر کی ہورہی ہے، یہ چاہتی ہے کہ لوگ گھروں میں بیٹھ جائیں اور فاقہ پر فاقہ کریں، اور اگر بھولے سے بھی گھر سے باہر قدم رکھیں تو جرمانہ بھریں؟ یہ عوام کے ساتھ جبر ہے، اسے ظلم بھی کہاجاسکتا ہے۔ ریاستی سرکار کو چاہئے کہ و ہ اس قدر سخت پابندیاں عائد نہ کرے کہ لوگ اس سے بیزار ہوجائیں اور ہرحالت میں اس کی مخالفت پر تل جائیں۔ ضرورت ہے کوئی راہ نکالنے کی۔ ایک راہ یہ ہے کہ ایک ویکسین کے بعد دوسرے ویکسین کےلیے جو لمبا فاصلہ رکھاگیا ہے اسے کم سے کم کر دیں تاکہ لوگ جلد از جلد دونوں ڈوز لے کر سکون کی سانس لیں اور اپنے اپنے کام میں، کاروبار میں اور روز مرہ کے معمولات میں جٹ سکیں۔ پابندی وہ بھی سخت ترین پابندی کورونا پر قابو پانے کا کوئی حتمی فارمولہ نہیں ہے۔ لوگوں نے کورونا پر قابو پانے کےلیے کیا کیا نہیں کیا، لیکن کورونا شکلیں بدل بدل کر اور ہر نئی شکل کے بعد مزید خطرناک ہوکر سامنے آرہا ہے۔کہاجارہا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ ویکسین بھی اس پر کارگر نہ ہو۔ اگر یہ واقعی سچ ہوا تو پھر ہماری اور دنیا بھر کی سرکاریں کیا کریں گی؟
Comments are closed.