وقت کا تقاضہ اور ہماری غفلت

✍ کلیم احمد نانوتوی
سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ دعوت و اصلاح کی غرض سے شہر شہر پھرے، قریہ قریہ گئے، گاؤں گاؤں کا سفر کیا، آبادیوں کو کھنگالا، ویرانوں کو آباد کیا، "گم کردہ راہ” لوگوں کو صراطِ مستقیم پر لگایا، بدعات و خرافات اور شرکِ جلی و خفی کا قلع قمع کیا، دیوبند گئے اور مبتدعین کو سمجھا کر توبہ کرائی، رامپور کا رخ کیا اور وعظ و نصیحت کے ذریعے بدعات میں الجھے مردہ دلوں کو تازگی بخشی، نانوتہ پہنچے تو وہاں کے مسلم باشندوں کو شیعی اثرات سے بچانے کی تگ و دو کی، بنارس تشریف لائے تو سادھوؤں کے دھیان میں اپنی باطنی توجہات سے خلل انداز ہوئے اور کفر و شرک کی تاریکیوں میں ایمان کا دیپ جلایا۔ خلاصہ یہ کہ مختصر سے وقفے میں ہزاروں کو "اسلام کی صحیح صورت” سے روشناس کرایا اور کفر و شرک؛ نیز یہودیت و نصرانیت کے اثرات کو اذہان سے محو کیا۔ سلوک و تبلیغ کی ان قابلِ قدر کوششوں کے دوران استغنا اور توکل کا یہ عالم تھا کہ نواب معتمد الدولہ کی دھمکی آمیز باتوں کو بھی خاطر میں نہیں لائے اور مرعوب ہوئے بغیر ٹکا سا جواب دیا کہ: لوگوں کو "کلمۃ الخیر” کی تعلیم تو ہر حال میں کی جائے گی۔ آخرکار نواب کو غلطی کا احساس ہوا اور معذرت طلب کی، مردم آزاری جیسے ظلم و ستم سے باز رہنے کا وعدہ بھی کیا۔ یہ سب کیا اور اس وجہ سے کیا کہ اس زمانے میں "وقت کا تقاضا” یہی تھا۔
سید شہید کی زندگی کا ایک رخ اور ہے اور اِسی رخ سے وہ زیادہ جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے وقت اور اس کے تقاضے کے پیش نظر اپنی سرگرمیاں تبدیل کر دی اور "ج ہ ا د” میں مشغول ہو گئے، خود بھی بارود لگاتے اور رُفَقا کو بھی ترغیب دیتے، تن دُرستوں کو اپنا رفیقِ کار بناتے اور تعیش پسند پیرزادوں سے ہاتھ کھینچ لیتے۔ جد و جہد کی اِس راہ میں سید شہید کی مصروفیات اس قدر بڑھیں کہ "سلوک” کے کاموں پر پہلی سی توجہ نہ رہی اور اُن اصلاحی کاموں میں کمی واقع ہو گئی۔ ساتھیوں نے اس بابت عرض کیا تو فرمایا کہ: اس وقت ہمیں سلوک سے افضل کام درپیش ہے، ج ہ ا د فی سبیل اللہ میں ہمارا دل مشغول ہے اور اِس کے سامنے سلوک کی حیثیت "تابع” کی ہے۔ مزید باتیں بھی اسی قبیل سے تھیں جو ارشاد فرمائی، ان میں سے کچھ سید صاحب کی زبانی ہی نقل کرتا ہوں:
"اگر کوئی تمام دن روزہ رکھے، تمام رات عبادت و ریاضت میں گزارے، نوافل پڑھتے پڑھتے پیروں میں ورم آ جائے اور دوسرا شخص ج ہ ا د کی نیت سے ایک گھڑی بھی بارود اڑائے ؛ تاکہ کفار کے مقابلے میں بندوق لگاتے وقت آنکھ نہ جھپکے تو وہ عابد اِس مجاہد کے مرتبے کو ہر گز نہیں پہنچ سکتا۔ اور وہ کام (تصوف و سلوک) اس وقت کا ہے جب اِس کام (تیارئ ج ہ ا د) سے فارغ البال ہو”۔
ایک وقت تقاضا تھا راہِ سلوک کی جانب، خلق کی توجہ مبذول کرانا اور باطنی اصلاح پر کمر بستہ ہو جانا، تو اپنی جملہ مساعی اِسی کام کے لیے وقف فرما دیں اور جب جد و جہد کا وقت آن پڑا تو بنا کسی تاویل و تاخیر کے، مردِ میدان بن کر خود کو استعمال میں لے آئے۔ ایک "وہ” ہمارے آبا تھے اور ایک "ہم” ہیں، جن کے بارے میں یہ کہنا مناسبِ حال ہے
یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا
Comments are closed.