ہیلی کاپٹر حادثے میں فوج کے سربراہ وافسران کا دردناک انتقال!افسوس کا مقام اور مانوتا کا پیغام!!

از:ڈاکٹر آصف لئیق ندوی
عربی لیکچرار، عربی ڈپارٹمنٹ،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
8 ۔دسمبر 2021ء، ملک کی تینوں مسلح افواج کے سربراہ اعلی جنرل بپن راؤت کاانکی اہلیہ مدھو لیکاراؤت سمیت دیگر متعدد فوجی افسران کے ایم آئی ہیلی کاپٹر حادثہ میں انتقال ہوگیا، یہ حادثہ پورے ملک کی جمیع عوام اورتمام ارباب اقتدار کیلئے جہاں بہت تشویشناک ہے وہیں انکی افسوسناک موت وہلاکت بھی ہم سبھوں کو جھنجھوڑ کراور متفکرکر دینے کے لئے کافی ہے کہ آخراتنا بڑاہیلی کاپٹر حادثہ کیسے واقع ہوگیا، جس میں ملک صرف ایک فوجی شعبہ کے اعلی افسر نہیں بلکہ تینوں فوجی شعبوں کے وہ واحد چیف آف ڈیفنس اسٹاف تھے، انکے ساتھ ایک درجن مزید سینئرفوجی افسران بھی شامل تھے، سربراہ اعلی کی اہلیہ محترمہ بھی انکے ہمراہ تھیں، دنیا کے جدیدترین ٹکنالوجی سے مزین عمدہ کوالٹی کا محفوظ ہیلی کاپٹر تھا جس سے وہ لوگ سفر کررہے تھے جو کسی بھی بحران اورحادثے سے نمٹنے کی اس ہیلی کاپٹر میں بھر صلاحیت تھی،جنرل راؤت اپنے احباب ورفقاء کیساتھ وی وی آئی پی دورے پر تھے، تامل ناڈو کے سلور ایرپورٹ سے کسی اہم پروگرام میں شرکت کیلئے وہ ویلنٹین جارہے تھے، اچانک اسی صوبہ کے کنور علاقہ میں اپنے مقام موعود پر پہونچنے سے چند منٹ قبل ہی یہ المناک حادثہ رونما ہوگیا، جوکسی گھنے جنگلات اور بڑے بڑے درختوں سے گھرا ہواعلاقہ نظر آتاہے۔
اس بھیانک اور اندوہناک حادثہ کو سن کر اور دیکھ کر انسانی ضمیر کانپ اٹھتا ہے، انسانیت کے ناطے جو دکھ اور درد ہو سکتا ہے؟ملک کے ہرعقل منداور باشعورانسان کو محسوس ہورہاہے۔اسکا زبان و قلم سے اظہار ہو رہا ہے،یہی ہماری انسانیت بھی ہے کہ ہم دوسروں کے دکھ درد میں برابر کا شریک بنے رہیں اور انکے غم و افسوس کو اپنا غم وافسوس سمجھیں،انسانی ہمدردی وخیرخواہی کا بھر پورمظاہرہ کریں، کیونکہ اصل دوست،بہترین لیڈر،بے مثال سپاہی اور سچا محب وطن وہی ہے جوایکدوسرے کی مصیبت وتکلیف کے وقت خوب کام آئے، مصیبت زدہ، مظلوموں،بے سہاروں اور بے زبانوں کی داد رسی اور فریاد رسی کرے، مقتولین و مرحومین کے اہل خانہ کی تعزیت کرے،انکو تسلی دے اور ان کے پسماندگان، متعلقین اوراقرباء واعزہ کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھے۔۔ یہی ہماری بڑی انسانیت اور اسکے ساتھ مناسب ہمدردی ہوگی۔
چشم دید گواہوں کیمطابق ہیلی کاپٹر پہلے بڑے مضبوط درخت سے ٹکرایا پھر زور دار دھماکہ ہوا اور آگ کا شعلہ بن کر درختوں کے درمیان سے ہچکولے کھاتا ہوا زمین پر گر پڑا اورمنٹوں میں ا تنا مضبوط ہیلی کاپٹرٹکڑوں ٹکڑوں میں تبدیل ہوکر آگ کا شعلہ بن گیا۔آس پاس کے درختوں نے اسکے شعلوں کو مزید بھڑکانے میں الاؤ اور جلاون کا کام کیا۔گرتے ہوئے ہیلی کاپٹر کو بعض لوگوں نے دیکھا،جلتے ہوئے انسانوں کو آس پاس کے رہنے والوں نے جلتا ہوا دیکھا،مگر وہ سب مدد پہونچانے سے بالکل قاصر اوربے بس ثابت ہوئے، وہ اپنے ملک ہندوستان کے بری، بحری اور فضائی تینوں مسلح افواج کے سربراہ اعلی تھے جنکا نام نامی اسم گرامی سی ڈی ایس جنرل بپن راوت جی تھا، جو اپنی اہلیہ کے ساتھ تھے، انکے ساتھ بارہ اور بڑے بڑے فوجی افسران تھے جو ملک کی مہان ہستیوں میں میں شامل تھے، مگرموت نے انہیں کوئی موقع نہیں دیا، کوئی بھی انکو بچانہیں سکے اور اپنی آنکھوں کے سامنے ان بڑی بڑی ہستیوں کو منٹوں میں کھودئے۔۔۔۔جن پر آج ہم اور آپ ہی نہیں!! بلکہ پوری دنیا بشمول تمام مسلمان قوم سوگوار بنی ہے۔محسوس ہوتا ہے کہ انسان کتنا کمزور اوراپنی تدبیر و حکمت میں کتنا ضعیف وناتواں ہے کہ وہ چاہ کر بھی موت سے نہیں بچ سکتا اور نہ ہی کسی کو مرنے سے بچا سکتا ہے۔ضعف الطالب والمطلوب۔ موت وحیات کا معاملہ کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔اس کے سامنے ساری انسانی تدابیر ہیچ اور کمتر ہیں۔جس کو ایشور،اللہ اور خدا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
کیونکہ مضبوط ترین ٹکنالوجی اورہر بحران سے نمٹنے کی صلاحیت سے لیس ہیلی کاپٹرکتناتشویشناک ثابت ہوا کہ وہ اپنے ملک کے ہیروز کو ہلاک ہونے سے نہیں بچا سکا، خود بڑے بڑے بہادروں نے اس افسوسناک حادثہ سے نجات پانے کے لئے کوئی ممکنہ اسباب اوراس کی راہ نہیں نکال سکے اور نہ ہی انکو ایسا کوئی موقع ہی مل سکا، ماہراور تجربہ کار پائلٹ بھی اپنے کہنہ مشق مہارت و تجربات کے باوجودبالکل بے بس اور کمزور ثابت ہوئے، دہکتے اور بھڑکتے شعلوں نے بھی ملک کے جوانمرد اوربہادرسپاہیوں کو نہیں بخشا،موت وزیست کا نظارہ دیکھتے ہوئے کوئی طاقتور اور ہمت ور انسان نے بھی کچھ سہارا نہیں پہونچایا۔ کوششیں کرکے بھی سب لوگ عاجزوبے بس نظر آئے الغرض بری طرح جلتے اور خاکستر ہوتے ہوئے افراد کونہ کوئی تدبیربچا سکی اور نہ کوئی افراد بچا سکے، چیختے چلاتے، مدد کو پکارتے اپنے بہادروں اور ملک کے اعلی فوجی افسران کو وہ آگ اور موت کے منہ سے زندہ نہیں چھڑا سکے۔۔پتہ چلا کہ یہ انسانی بس سے باہر کی بات ہے جو اسکی طاقت وقوت سے خارج عمل ہے، موت سے بچا پانا جب کہ اسکا وقت آجائے کسی بھی انسان کے لئے ناممکن اور محال بات ہے، انسانی کنٹرول اور اسکے ذہن و دماغ سے ماوراء کام ہے۔ہائے افسوس! انسان کتنا کمزور اور بے بس ہے!! سچ بات یہی ہے کہ خداواحد ہی سب مارتا اور جلاتا ہے۔
بالآخر جب تک سرکاری مدد پہونچتی اور رسکیو کا کام وہاں شروع ہوتا، جلتی اور تڑپتی جانیں لاشوں میں تبدیل ہوکر رہ گئیں اور ہمارے جنرل اور بہادر جل کر ہلاک ہوگئے، ویڈیوز اور نیوز چینلوں میں قیامت صغری کا جو دردناک اور اندوہناک منظر دیکھنے کو مل رہا ہے، اسکا نظارہ دیکھتے ہوئے ہمارا دل بھی کانپ جا رہا ہے۔ جنرل بپن راؤت بڑے بہادر، بے مثال شخص اور مہان سپاہی تھے۔ جس کی موت پر ہم اپنے گہرے دکھ درد کا اظہار بھی کرتے ہیں، اس افسوسناک حادثے پر ہم بھی چند منٹ کی خاموشی اختیار کرتے ہیں، اور برادران وطن کے ساتھ ساتھ تینوں فوجیوں کے اولین درجے کے سربراہ اور اعلی عہدے پر فائز فوجی جنرل اور دیگر افسران پر اپنے افسوس وملال کے گہرے تاثرات پیش کرتے ہیں کہ ہمارا ملک ایک بڑے سپریم فوجی آفیسر، سربراہ اعلی اور سچا محب وطن سے محروم ہوگیا۔ جسکا نقصان ملک کا بڑا نقصان ہے۔۔۔۔جو سن 1958ء میں پیدا ہوا اور آج ہمارے درمیان نہیں رہا،جو ایم آئی ہیلی کاپٹر پر اڑتا ہوا حادثہ کا شکار ہوگیا۔
انسانیت کے ناطے ملک کے تمام مسلمان بشمول راقم الحروف کے اس دردناک حادثے اور دوانجن والے مضبوط اور مستحکم ہیلی کاپٹر کے ریزہ ریزہ ہوجانے اور آتشوں اور شعلوں کے دردناک، المناک، حیرتناک اور افسوسناک واقعے پر قوم وملک کیساتھ کھڑے ہیں اور تمام مہلوکین کے اہل خانہ اور متعلقین کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں اور اپنی تکلیف ودرد کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔۔انسانیت کا یہی سچا درس بھی ہے۔
اس واقعے سے ہمیں جو سبق ملتا ہے، وہ یہ ہے کہ انسانیت کے ناطے ہم سب بالکل برابر ہیں، سب لوگ آدم کی سنتان اور اسکی ہی اولاد ہیں، بھید بھاو، ذات پات اور نفرت وعداوت ہمارے درمیان ایک شیطانی دیوار ہے، جو ہماری ہی ناقص عقل ودماغ کی اپج اور اسکی پیداوار ہے، خود کی پیدا کردہ آپسی خلیج وخلش ہے جس کو اب بالکل منہدم کردینا چاھئے، ایسی حرکتوں سے ہمارا دین اور دھرم بھی روکتا ہے، ہمیں سب کا دکھ درد اورمصیبت و تکلیف میں ساتھ دینا سکھاتا ہے، آپس میں یکجہتی، یگانگت اور اخوت و مودت کی اونچی تعلیم وتربیت دینا اہم قرار دیتا ہے۔ مانوتا کا سمان کرنا ہر فرد و بشر کے اوپر لازم کرتا ہے بالخصوص ملک کے بڑے عہدیداروں اور ارباب اقتدار کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایکتا کی طاقت کے ساتھ آپس میں مل جل کر رہنا سہنا سیکھو۔اور اسی نظریے پر حکومت کرو اور مساوات و برابری کیساتھ قوم و ملک کی خدمت کرنا سیکھو۔ مظلوموں، بے سہاروں اور بے زبانوں کی آواز بنو۔خلاصہ یہ کہ ایک دوسرے کا آدرش اور سمان کرنا ہی انسانیت اور مانوتا کا حقیقی پیغام ہے۔ جس کے لئے ہمیں آج سے عزم مصمم کرنا ہے۔کیونکہ شاعر بھی کہتا ہے کہ۔۔ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا۔
کیونکہ یہ دنیا بالکل فانی دنیا ہے، یہاں کسی کو دوام حاصل نہیں ہے اورسوائے ایشور کے اس دنیا کی ساری چیزیں بشمول نئی ٹکنالوجی اور مضبوط ومستحکم انتظامات سب فنا ہوجانے والی ہیں، ایک ایک کرکے سارے انسانوں کو یہاں سے آج نہ کل جانا ہی جانا ہے، شاعر کہتا ہے۔۔ موت سے کس کو رستگاری ہے۔۔۔آج وہ کل ہماری باری ہے۔۔۔ بڑے بڑے لوگوں کو بھی موت کا مزہ چکھنا ہے (کل نفس ذائقۃ الموت) بلکہ ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور چھوٹے سے چھوٹے لوگوں کو بھی آخرت کا رخت سفر باندھنا ہے، زندگی چند دنوں کی رہائش کا نام ہے۔ آخرت ہمیشہ کی رہائش اور دائمی اقامت کا گھر ہے۔ ہم سب کا مالک ایک ہی ایشور ہے جنہوں نے ہمارے باپ آدم اور ہماری ماں حوا کو پیدا کیا، وہی سب کو پیدا کرتا ہے وہی سب کھلاتا پلاتا، مارتا اور جلاتا ہے۔کوئی اسکی قدرت اور طاقت سے خارج نہیں ہے، وہی پوری کائنات کا حقیقی پالنہار اور زبردست طاقت و قوت والا ہے۔
کوئی بڑا سا بڑا عہدیدار ہی کیوں نہ ہو اسکو اس فانی دنیا کو چھوڑ کرجانا طے ہے۔۔ اسلئے ہمارے بہادر اور جیالے مضبوط انتظامات کے باوجود بھی ہمارے درمیان سے چلے گئے،آج انکا جاناہم لوگوں کو کتنا رنجیدہ اور متفکر کردیا ہے، اسلئے ہم کو ایکدوسرے کے دکھ درد کو باٹتے ہوئے زندگی گزارنا چاھئے اور اپنے رب کو راضی کرتے ہوئے دنیامیں آخرت کی تیاری اور حساب وکتاب کے معاملے میں کامیابی حاصل کرنے میں لگ جانا چاھئے۔۔۔۔کیونکہ شاعر کہتا ہے۔۔۔نہ جانے کی کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے۔۔اس سے پہلے ہمیں اچھے کاموں اور کارناموں سے اپنے ایشور کو خوش اور راضی کرلینا چاہیے۔بھید بھاؤ اور نفرت و عداوت کو ایشور کا سندیش سمجھتے ہوئے ختم کردینا چاہیے،جسکا پالن کرناہم سب کے لئے بہت ضروری ہے۔۔۔ورنہ ہمارا معاملہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ میں المناک ثابت ہوگا۔ مل جل کر زندگی گزارناہی انسانیت کا سندیش ہے اور اس حادثے سے ہمیں یہی بڑا سبق اور پیغام بھی ملتا ہے۔۔جسکا خلاصہ پیش کرتے ہوئے ایک بڑاشاعر کہتا ہے۔
شودر برہمن مغل پٹھان نربل نردھن یا دھنوان
سب ہیں آدم کی سنتان سب کو سمجھو ایک سمان
Comments are closed.