خدمت انسانیت کا کام بھی مسئلہ کا ایک حل ہے

پروفیسر محسن عثمانی ندوی
ہر برائی کو بطریق احسن مٹانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اس مضمون میں جو قصہ ہے وہ اس قرآنی حکم کی عملی تفسیر ہے خدمت خلق اور فلاح انسانیت کے راستہ سے بھی نفرت اور عداوت کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔ یہ بالکل سچا قصہ ہے سہ روزہ دعوت کے مرحوم ایڈیٹر محمد مسلم صاحب کاقصہ ہے ۔ایک بصیرت افروز فکر انگیز واقعہ اور ہم سب لوگوں کے لئیُ نمونہ عمل اور تمام مسائل کا حل ۔ اہل بصیرت سے یہ بات مخفی نہیںکہ ہندوستان میں مسلمانوں کے تمام مسائل کا اصل حل اور ہر قفل کی شاہ کلید یہ ہے کہ برادران وطن کے ساتھ ان کے تعلقات بہتر ہوں اور باہمی منافرت کی جو دیوارکھڑی ہوگئی ہے اس کو گرادیا جائے ، تعلقات کے چمن میں نئے پھول کھلائے جائیں ،’’ آ ملیںپھر سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک ‘‘اسلام اور مسلمانوں سے یہاں کے باشندگان کو مانوس کیا جائے اخلاق اور روحانیت اور شرافت کی فضا بنائی جائے یہ کام صرف آج کے حالات میں ضروری نہیں ہے بلکہ دو تین سوسال پہلے اس کام کو شروع ہونا چاہئے تھا ۔ہندوستان میں اس سمت میں سب سے اہم اور منظم کوشش پیام انسانیت کی تحریک تھی جسے عبقری شخصیت مولانا ابو الحسن علی ندوی نے شروع کیا تھا اور جس کی کوئی مثال گذشتہ صدیوں میں نہیں ملتی ہے بہت سے مصلحین گذرے مجددین گذرے کسی نے اس اہم کام کی طرف توجہ نہیں دی نتیجہ یہ ہوا کہ دشواریاں بڑھتی گئیں نفرتیں پروان چرھتی گئیں ۔ البتہ انفرادی طور پر بہت سے صاحب فکر مسلمانوںنے اور روحانیت کے پیشواوں نے یہ کام انجام دیا ہے، اس عظیم کام کوانجام دینے والوں میں جناب محمد مسلم مرحوم تھے جو سہ روزہ دعوت دہلی کے ایڈیٹر تھے ،وہ مسلم مجلس مشاورت کے قیام میں ڈاکٹر سید محمود اور مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے دست راست تھے ، بھوپال کے رہنے والے تھے ۔کشادہ دل، نرم خو ، وسیع الظرف ،مسیحا نفس ،سب کے ہمدرد، سب پر مہربان ، سب پر دست شفقت رکھنے والے ، جہاں بھی رہتے سب سے اور ہر مذہب کے لوگوں سے تعلقات رکھتے اور سب کے کام آتے، جب اپنے وطن بھوپال جاتے تو اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کے لئے بھی تحفے اور مٹھائیاں لے کر جاتے ۔ایک بار اپنے وطن گئے تو عادت کے مطابق اپنے ان غیر مسلم پڑوسی سے بھی ملے جو محلہ میں رہتے تھے وہ آر اس اس کے لیڈر تھے اوروہ بھوپال کے رہنے والے تو نہ تھے لیکن اپنی تنظیم کے ذمہ دارکی حیثیت سے ان کا بھوپال میں قیام تھا ، وہ اتفاق سے بیمار تھے۔ہندووں کی تنظیم آر اس اس کا بڑا پروگرام ناگپور میں تھا اور اس تنظیم کے سب چھوٹے بڑے ذمہ دار اور عہدہ دار ناگپور چلے گئے تھے اور دو سنچالک کو ان کی خدمت اور دیکھ بھال کے لئے چھوڑدیا گیا تھا۔محمد مسلم صاحب آر اس اس کے ذمہ دار کی تیمار داری کرتے رہے ۔ایک دن ان کو معلوم ہوا کہ بیمار کی حالت نازک ہے اور ان کواسپتال لے جایا گیاہے وہ بیمار کودیکھنے کے لئے اسپتال جاتے رہے اور جب جاتے پھل وغیرہ لے کر جاتے پھر ایک دن ان کو معلوم ہوا کہ بیمار کی حالت نازک ہے پھرخبر ملی کہ بیمار کا انتقال ہوگیا ہے وہ اسپتال پہونچے، دونوں خدمت گذار تیماردارآر اس اس کے سنچالک نے پریشانی بتائی کہ وہ دونوں شہر کے لئے اجنبی ہیں اور ارتھی اٹھانے کے لئے کوئی تیار نہیںہے اور ہمارے آدمی سب ناگپور گئے ہوئے ہیں محمد مسلم صاحب نے ان دونوں کواطمنان دلایا کہ آپ پریشان نہ ہوں یہ انتظام ہم کردیں گے ۔مسلم صاحب نے اینے لوگوں کو بلا لیا اور اسپتال سے آراس اس کے لیڈر کی ارتھی اس طرح اٹھی کہ دونوں سنچالک کے علاوہ ارتھی کو کاندھا دینے والے مسلمان صورت ٹوپی پہنے ہوئیٍ تھے’’ رام نام ست ہے ’’کی آواز بھی فضا میںبلند ہورہی تھی ۔
ارتھی کو شمشان گھاٹ لے جایا جارہا تھا جلوس میں زیادہ تر مسلمان تھے ۔بہت سے ہندو مانتے ہیں کہ مر ے ہوئے شخص کی آتما بھوت بن کر دو بارہ آتی ہیں اسلئے جنازہ کے ساتھ خدمت کا وہ جذبہ ان میں نہیں ہوتا ہے جو مسلمانوں میں پایا جاتا ہے ۔دن کے ایک بجے محمد مسلم صاحب نے ہندو ساتھیوں سے کہا کہآج جمعہ کا دن ہے اور جمعہ کی نماز ہم لوگ مسجد ہی میں پڑھتے ہیںاس لئے آدھا گھنٹے کا وقت دیجیے جب تک ہم لوگ مسجد سے نماز پڑھکر واپسٍ آجاتے ہیں ۔دونوں سنچالک تیارہوگئیُ اب چند ہندو جمع ہوگئے تھے جو ارتھی کو شمشان گھاٹ لے جانا چاہتے لیکن دونوں سنچالک اس کے لئے تیار نہیں ہوئے کہ یہ مسلمان اسیپتال سے ارتھی لے کر آئے ہیں اب تو ہم لوگ ان کا انتظار کریں گے ۔
شمشان گھاٹ پر آخر ی رسوم ادا کردی گئی ۔ اس قصہ کا ڈراپ سین بہت نصیحت آمیز اور سبق آموزاور عبرت افروزہے ۔ وہ سردیوں کی شدت کا زمانہ تھا، دسمبر کا مہینہ ،یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھیں مسلم صاحب کے گھر پر رات کے دس بجے دستک ہوتی ہے ،مسلم صاحب دروازہ کھولتے ہیں ،وہی آراس اس کے دونوں سنچالک موجود تھے ،مسلم صاحب نے دونوں کو کافی پلائی ۔دونوں نوجوانوں نے نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر سامنے رکھی اور کہا کہ آپ نے جو مدد ہم لوگوں کی کی ہے ہم لوگ اسے فراموش نہیں کرسکتے یہ رقم ہماری عقیدت کا نذرانہ ہے ۔ مسلم صاحب نے معذرت کی اور رقم قبول کرنے سے انکار کیا ۔تین چار دنوں کے بعد وہی رات کے دس بجے کاسخت سردی کا وقت تھا مسلم صاحب کے مکان پر دستک ہوئی ۔دروازہ کھولا گیا تو وہی دونوں نوجوان کھڑے تھے ۔ بیٹھنے کے بعد انہوں نے کہا ہم لوگوں کو ٹریننگ کے دوران ہمیشہ یہ بتایا گیا کہ مسلمان بہت ظالم اور خونخوار ہوتا ہے وہ ہندو کی جان کا دشمن ہوتا ہے، آپ سے مل کر ہمیں معلوم ہوا کہ جو کچھ ہمیں بتایا اور پڑھایا گیا تھا وہ غلط تھا۔ اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ہم اپنااستعفا آر اس اس کے ہڈکوارٹر کوبھیج رہے ہیں، ہمیں اب یقبن ہوگیا ہے کہ آر اس اس کا نفرت آمیزپروپگنڈا مسلمانوں کے بارے میں درست نہیں ہے۔
حسن اخلاق، خدمت خلق اور شیریں سخنی اور شرافت کے ذریعہ بھی مسئلہ کا حل نکل سکتا ہے ستم کے جواب میں کرم کرکے ،نفرت کا جواب محبت سے دے کرکانٹوں کے بدلہ پھول دے کر ہوا کا رخ بدلا جاسکتا ہے ،اس ملک میں کرنے کا ایک کام یہ بھی ہے یہ دلوں کے جیتنے کا کام ہے،قرآن میں نفرت کا حل یہی بتایا گیا ہے ’’ جیسے کو تیسا ‘‘ مسئلہ کا حل نہیں ہے لیکن ہماری قیادت کی برادران وطن سے تعلقات کی ضرورت کی طرف توجہ نہیں ہے نہ وہ مسلمانوںکو اس کی تلقین کرتے ہیں نہ مسلمانوں کو اس کام کی ضرورت کا احساس دلاتے ہیں اورمسلمان اس قدر بے حس ہیں کہ تمام شہروں میں سیرت کا جلسہ بھی منعقد کرتے ہیں اس میں بھی غیر مسلموں کو بلانے کا اہتمام نہیں کرتے ہیں ۔کچھ لوگ سیرت کے جلسے منعقد کرنے کو بدعت قرار دیتے ہیں انہیں معلوم نہیں سیرت کے جلسوں سے اسلام کی نشرو اشاعت کا بڑا کام لیا جاسکتا ہے اس سے مسلم دشمنی کی فضا بدلی جاسکتی ہے اور برادران وطن کی ذہنی تطہیر کا اس سے کام لیا جاسکتا ہے غیر مسلم کسی دوسرے عنوان کے بجائے سیرت کے نام پر زیادہ آسانی سے جلسوں میں آسکتے ہیں شرط یہ ہے کہ سیرت کے جلسے نئے پیبٹرن سے منعقد کئے جائیں ۔سیرت کے جلسوں سے غیر مسلموں کے دلوں کو فتح کیاجاسکتا ہے ۔’’جو دلوںکو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ ہوتا ہے‘‘۔ اکبر الہ بادی کاشعر حرز جان بنائے جانے کے لائق ہے
بنو گے خسروئے اقلیم دل شیریں زباں ہوکر
جہاں گیری کرے گی یہ ادا نور جہاں ہوکر

Comments are closed.