اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم (قسط1)

بقلم: مفتی محمداشرف قاسمی
دارالافتاء:مہدپور،اُجین،ایم.پی
مقالہ برائے سیمیناراسلامک فقہہ اکیڈمی دہلی۔ بمقام:دارالعلوم علامہ عبدالحی حسنی ندویؒ بھوپال(ایم پی)
مورخہ17/و18
ستمبر2021ء
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے،وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانۂ دینِ مصطفوی ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
*لفظ ‘پرستی’غیر اللہ کےلیے استعمال کرناغلط*
مقالہ کے مقررہ عنوان میں لفظ”پرستی“ کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اسلام میں پرستش اور پرستش کا نمائندہ کوئی بھی لفظ یا عمل غیر اللہ کے لیے استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ایسے الفاظ جو اپنی ذات میں بہتر معنی رکھتے ہوں لیکن ان میں غلط معنی ومفہوم کی بھی گنجائش ہو تو شریعت اس تعبیر، بیان اور الفاظ کو تبدیل کرنے کا حکم دیتی ہے۔
یٰاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَ قُولُوا انظُرنَا… (104) البقرۃ
”اے ایمان والو!’راعنا‘ نہ کہو،’اُنظرنا‘ کہاکرو، 1؎“ (104) البقرۃ
”1’؎ راعنا‘ کے معنی ہیں، ’ہمار ی رعایت کیجئے!‘ اس معنی کے اعتبار سے یہ کوئی گستاخا نہ لفظ نہیں؛ لیکن یہود اس لفظ کو ایک خراب معنی میں بھی استعمال کرتے تھے…. اس سے معلوم ہوا کہ خدا ورسول اور دین وشریعت کے ذکر میں ایسے الفاظ سے بھی احتیاط برتنی چاہئے، جس کے گو درست معنی بھی ہوں اور نیت بھی بولنے والے کی بُری نہ ہو؛ لیکن اس میں خلافِ ادب معنی کی بھی گنجائش نکلتی ہو۔…..“
(آسان تفسیر ج1ص 145،مولاناخالدسیف اللہ رحمانی، مکتبہ نعیمیہ، دیوبند1436ھ-جنوری2015ء)
*شرک ناقابل معافی جرم واپرادھ*
اس لیے غیر اللہ کے لیے لفظ پرستی یا پرستش کو استعمال کرنے سے بچنا چاہئے۔پرستش پر مشتمل عمل، فکراور اکٹیوٹی(Activity) اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے اختیار کرنا شرک ہے، جو انتہا ئی درجہ بڑا بھاری گناہ ہے:
اِنَّ الشِّرکَ لَظُلمٌ عَظِیمٌ(13) لقمان
”یقیناًشرک کر نا بڑی ہی نا انصافی کی با ت ہے“(13) لقمان
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعبُدُوا اِلَّا اِیَّاہُ(23) بنی اسرائیل
”اور آپ کے پرور گار نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو۔“(23) بنی اسرائیل
قُل لَّوکَانَ مَعَہٗ اٰلِھَۃٌ کَمَا یَقُولُونَ اِذًا لَّابتَغَوا اِلٰی ذِی العَرشِ سَبِیلًا(42) بنی اسرائیل
”آ پ فرمادیجئے: اگر اللہ کے سا تھ کچھ اور معبود بھی ہوتے، جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں، تو ان لوگوں نے عر ش والے کی طرف ضرور کوئی راستہ ڈھونڈ لیا ہوتا۔“(42) بنی اسرائیل
اَنِ اعبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوہُ وَ اَطِیعُونِ (3)نوح
”کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو اور میرا کہنا مانو“(3)نوح
ایک اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو معبود بنا کر یا کئی ایک خدا مان کر بندہ اتنے بڑے جرم اور اَپرادھ کا مرتکب ہوتا ہے کہ آخرت میں اس کی کسی صورت میں بھی بخشش نہیں ہوگی۔ دوتین خدا ماننے والا ہمیشہ ہمیش کے لیے دوزخ کی آگ میں جلے گا۔
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدِ افْتَرٰٓی اِثْمًا عَظِیْمًا(48)النساء
”بے شک اللہ اپنے ساتھ شرک کو معاف نہیں کریں گے، اور اس کے سوا جس گناہ کو چاہیں معاف کردیں گے۔ اور جس شخص نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا، اُس نے بڑا بہتان باندھا۔“(48)النساء
اِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِاٰیٰتِنَا سَوفَ نُصلِیھِم نَارًا کُلَّمَا نَضِجَت جُلُودُھُم بَدَّلنٰھُم جُلُودًا غَیرَھَا لِیَذُوقُوا العَذَابَ اِنَّ اللہ کَانَ عَزِیزًا حَکِیمًا(56)النساء
”جن لوگوں نے ہماری آ یتوں کا انکار کیا، عنقریب ہم ان کو (دوزخ کی)آ گ میں ڈال دیں گے،جب جب ان کے چمڑے گل جائیں گے، ہم اُن کے بدلہ اُن پر دوسرے چمڑے پیدا کریں گے۔ تازہ وہ عذاب چکھتے رہیں، بے شک اللہ زبردست اور حکمت والے ہیں۔“(56)النساء
*شرک وبت پرستی غلامی وتباہی کا ذریعہ*
شرک سے بیزاری ونفور؛ اللہ کی رضا وخوشنودی اوردنیاوآ خرت دونوں جہاں میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اعلان فرمایا:
فَقُلتُ استَغفِرُوا رَبَّکُم اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا(10)یُّرسِلِ السَّمَآءَ عَلَیکُم مِّدرَارًا (11)وَّ یُمدِدکُم بِاَموَالٍ وَّ بَنِینَ وَ یَجعَل لَّکُم جَنّٰتٍ وَّ یَجعَل لَّکُم اَنہٰرًا (12)نوح
”میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو،وہ بڑے بخشنے والے ہیں (10)اللہ تم پر موسلا دھار بارش برسائیں گے(11)تمہارے مال واولاد کو بڑھائیں گے، تمہا رے لیے باغ لگادیں گے، اور نہریں جا ری فرما دیں گے۔“(12)نوح
توحید کے خلاف شرک وبت پرستی یاغیر اللہ کی پرستش سے مرادیہی نہیں کہ مذہبی لحاظ سے اللہ کے متوازی باطل معبود کا اقرار کرکے بندہ آخرت میں عذاب الہیٰ کا لازمی مستحق ہوجاتا ہے،بلکہ صنم پرستی یا مشرکانہ فکر اس مادی دنیا میں بھی انتہائی درجہ تباہی وبربادی اور عام انسانوں کو چند شاطرافراد کا غلام بنانے کا قوی ذریعہ ہے۔
قَالَ نُوحٌ رَّبِّ اِنَّھُم عَصَونِی وَ اتَّبَعُوا مَن لَّم یَزِدہُ مَالُہٗ وَ وَلَدُہٗ اِلَّا خَسَارًا (21) وَ مَکَرُوا مَکرًا کُبَّارًا (22)وَ قَد اَضَلُّوا کَثِیرًا وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِینَ اِلَّا ضَلٰلًا (23)نوح
”نوح(علیہ السلام) نے(یہ) کہا اے میرے پروردگار ان لوگوں نے میرا کہنا نہیں مانا اور ایسے شخصوں کی پیروی کی کہ جن کے مال اور اولاد نے ان کو نقصان ہی زیادہ پہونچایا(مراد اُن شخصوں سے روؤساء ہیں جن کاعوام اتباع کیا کرتے ہیں، اور مال واولاد کا ان روساء کونقصان پہونچانا بایں معنی ہے کہ مال واولاد سرکشی کا سبب بن گئے)(21)اور (انھوں نے جن کا اتباع کیا ہے وہ ایسے ہیں) جنھوں نے(حق کے مٹانے میں) بڑی بڑی تدبیریں کیں (22)اور جنھوں نے (اپنے تابعین سے یہ) کہا کہ تم اپنے معبودوں کوہرگز نہ چھوڑنا اورنہ (بالخصوص) ودّ کو اور سواع کو اور یغوث کو اور یعوق کو اورنسر کو چھوڑ نا(خصوصیت ان کے ذکر کی اس لیے ہے کہ یہ بت زیادہ مشہور تھے) اور ان (رئیس) لوگوں نے بہتوں کو(بہکابہکا کر) گمراہ کردیا(وہ مکر کُبّار یہی گمراہ کرنا ہے)۔“(23)نوح
(ترجمہ از:معارف القرآن ج 8ص562/و563/ حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
لَا تَجعَل مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتَقعُدَ مَذمُومًا مَّخذُولًا(22)بنی اسرائیل
”اللہ کے سا تھ کوئی اورمعبود نہ بنالو، ورنہ بدحال اور بے یار ومدد گار ہوکر بیٹھے رہ جاؤ گے“(22)بنی اسرائیل
ادنی غوروتامل سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ کی پرستش کا جذبہ دنیاوی لحاظ سے بھی انتہائی تباہ کن ہے؟کہ ایک طرف ایک ایک مجسمے(Statue) پر اربوں رو پیہ پھونکنا معمولی بات ہے،ایک ایک صنم خانے کی دیواروں اور کا ل کوٹھریوں میں دولت کا اتنا ذخیرہ جمع ہے کہ اس سے پوراملک چلایا جاسکتا ہے۔اس تعلق سے اپنے ملک کے بجائے برما جیسے اقتصادی واخلاقی لحاظ سے مفلس ملک کے2600سالہ قدیم ایک صنم کدہ (Shwe Dadgon Pagoda)کی مثال پیش کرنامناسب سمجھتا ہوں:
”شیودگون پگوڈا کی بنیاد اینٹوں کی ہے،جسے اصل سونے کی کئی سو پلیٹوں سے ڈھانپا گیا ہے۔ اوپر کی عمارت میں بھی22000 سونے کی سلاخیں لگائی گئی ہیں، اور اس کے سب سے اوپر والے حصے کوDiamond Bud کہتے ہیں،جس میں 5448 ہیرے،2317 نیلم(Sapphire)،اور کثیر تعداد میں سرخ یاقوت(Ruby)اور پکھراج پتھ(Topaz) جڑے گئے ہیں۔ان میں سے ایک ہیرا تو76 کیرٹ(15گرام) کا ہے۔ اس کے علاوہ اس پگوڈا میں 1485 گھنٹیاں لگی ہوئی ہیں، جن میں سے 420/چاندی کی اور باقی سب خالص سونے کی ہیں“
(اسیر برما]حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی مدظلہ کا سفرنا مہ برما[ تالیف: فقیر سیف اللہ احمد نقشبندی مجددی،ص40/،مکتبہ الفقیر،فیصل آباد،فروری 2017ء)
اس طرح باطل عبادت خانوں کی بنیادوں ودیواروں میں ٹنوں کے حساب سے سونا چاندی دفن ہیں۔ اور جوخوراک، گھی،دودھ،ناریل، ودیگر اشیاء ندی نالوں میں ڈالدی جاتی ہیں، ان کا کوئی حساب ہی نہیں ہے۔ اربابِ سیاست؛صنم پرستوں کی اس کمزوری کو محسوس کرکے ملک کے اصل تعمیری مدعوں سے اُن کی توجہ ہٹا ئے رکھنے کے لیے اِنھیں کاموں میں اُنھیں الجھائے رہتے ہیں۔اور پھر صحت،تعلیم، خوراک، ذرائع آ مد ورفت،زندگی کی بنیادی سہولیات اورناگہانی مواقع پر کام آ نے والی لازمی اشیاء کے انتظام جیسے اہم امور پر انھیں توجہ دینے کی ضرورت نہیں باقی رہتی ہے۔ کرخانے، کاروباراورروزگار ختم ہوتے جارہے ہیں،عوام کو ہرطرف مشکلا ت کا سامنا ہے، لیکن نکھوں پرپڑے صنم پرستی کے پیلے چشمے کی بنا پراکابر مجرمیھا کی انتظامی نا اہلی پر سوال سوچنے کی صلاحیت سے بھی صنم پرست عوام محروم ہوچکی ہے۔
ترتیب:محمد فاروق قاسمی،
مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی، ضلع:شاجاپور،ایم پی۔
3جمادی الاوّل 1443ھ،
8دسمبر2021ء
جاری۔۔۔۔۔
Comments are closed.