اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم.(قسط۔2)

بقلم: مفتی محمداشرف قاسمی
دارالافتاء:مہدپور،اُجین،ایم.پی
*ہم مسلمانوں کی ذمہ داری
ملک،سماج،فرد،جماعت،قوم و قبیلہ سب کو تباہ کرکے عام انسانوں کو چند افراد کاغلام بنانے کے لیے بہت سے ذرائع اور وسائل ہیں؛لیکن ان وسائل وذرائع میں سب سے قوی ذریعہ صنم ہیں۔ اصنام کے ساتھ عام لوگوں کی عقیدت قائم کرکے بآسانی اُن کو چند افراد کا غلام بنالیا جاتاہے۔ اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے قانون کو توڑنا اورعدلیہ کے اعلی ترین مسند پر بیٹھ کر ثبوت وشواہد کے باوجود دن کے اجالے میں انصاف و نِیائے کو شرمندہ و رسوا کرنااصنام کے نام پربہت آسان ہوجاتا ہے۔ حقداروں ومظلوموں کو ان کے حقوق سے محروم کردینا اورظالموں کے حق میں فیصلے صادر کرنا، انصاف کے کئی پیمانے تیار کرلینا،صنم پرستی کی عینک لگاکرمجرموں کو بے لگام چھوڑدینا مشرکانہ فکروصنم پرستی کا اَدنی کرشمہ ہے۔
یادرکھیں!چاند، سورج،ستارے، ندی، نالے، درخت،دریا،پہاڑ، زمین، آ سمان،چرندو پرند یہ سب انسانوں کے فائدے کے لیے اللہ کی پیدا کی ہوئی مخلوق ہیں،نہ کہ معبود ،اینٹ وپتھر اوردیگر اشیاء و دھاتوں سے بنائے جانے والے باطل معبود انسانوں کے ذریعے پکارے جانے والے ناموں سے زیادہ کچھ وقعت نہیں رکھتے ہیں۔
إِنْ ھِیَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّیْتُمُوھَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّہُ بِھَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَھوَی الْأَنْفُسُ وَلَقَدْ جَاءَھُمْ مِنْ رَبِّھِمُ الْھُدَی (23) النجم
”یہ تومحض کچھ نام ہیں جوتم اورتمہا رے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے اس کی کو ئی دلیل نہیں اتاری، یہ صر ف اٹکل اور اپنے نفس کی خوا ہشات پر چل رہے ہیں، حالاں کہ ان کے پاس ان کے پرور دگار کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔“ (23) النجم
ایک مسلمان ہونے کی بناپر ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ: پکے یقین اور دلیل وشواس کے مطابق اپنے ملنے جُلنے والے ہر شخص کو خدائے واحد کی بندگی کی دعوت دے کر انھیں دوزخ سے بچاکرجنت میں داخل کرنے اور دنیامیں چند اانسانوں کا غلام بننے وبنانے سے بچانے کی پوری کوشش کریں۔
کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللہ(110)آل عمران
”تم بہترین امت ہو، جو پوری انسانیت کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ بھلائی کاحکم دو اور برائی سے روکو، اور اللہ پر ایمان رکھو،(110)آل عمران
سب سے بڑی معروف وخیرکی بات اسلام، توحید ورسالت ہے۔جس کی طرف ایما ن کی لوگوں کو دعوت دینا ضروری ہے۔ سب سے بدترین برائی ومنکر صنم پرستی یا شرک ہے۔ جن سے عام لوگوں کو روکنا تمام مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے۔
*غیراللہ پرستش نہیں جائزوبہتر باتوں میں اطاعت، وفاداری*
کسی کے ساتھ وفا داری اور اس کی اطاعت وخدمت گذاری کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کی پوجا کی جائے۔بلکہ پرستش اور جذبہ پرستش کے بغیربھی بہتر سے بہتر انداز میں اطاعت وخدمت اور وفاداری وفدا کاری ہوسکتی ہے اور ہو تی رہی ہے۔ اسلامی تعلیم اور مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق کائنات میں سب سے عظیم ہستی حضرت محمد ﷺ کی ہے۔ قر آ ن مجید میں فرمایاگیا کہ:
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَمْرًا أَن یَکُونَ لَھمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِھِمْ وَمَن یَعْصِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً مُّبِینًا(36)الاحزاب
”جن اللہ اور اس کے رسول کسی بات کا فیصلہ کردیں توکسی مسلمان مردیا عورت کو اُن کے معاملے میں کو ئی اختیار نہیں رہتا اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی کی، وہ کھلے طورپر گمراہ ہو گیا۔“(36)الاحزاب
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ (بخاری برقم الحدیث15)
”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو
جائے۔“ (بخاری برقم الحدیث 15)
ان تعلیما ت کا نتیجہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی ذات وناموس کے لیے مسلمان ہردور میں ہر جگہ کفن بردوش ہوکر اپنا سر اپنی ہتھیلی پر لے کر کھڑے رہتے ہیں۔ ؎
سلام اس پر کہ جس کے نام لیوا ہرزمانے میں
بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سر فروشی کے فسانے میں
اور بقول اقبال : ؎
یہ فاقہ کش ڈرتا نہیں ہے موت سے ذرا
روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
اس کے باجود آ پ ﷺ کی پرستش یاسجدہ کی اجازت نہیں ہے۔
وَأَنَّ ا لْمَسجِدَ لِلَّہِ فَلَا تَدْعُواْ مَعَ اللَّہِ أَحَدًا(18) جن
”اوریہ کہ مسجدیں اللہ ہی کے لیے ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی اورکی عبادت نہ کرو۔“(18) جن
”لَوْ کُنْتُ آمُرُ اَحَداً اَنْ یَسْجُدَ لِاحَدٍ لَامَرْتُ الْمَرْاَۃَ انْ تَسْجُدَ لِزَوْجِھَا“
”حضرت سول اللہ ﷺ نے ارشاد فرما یا:اگرمیں کسی کے لیے کسی کو سجدہ کا حکم دیتا تومیں عورت کوحکم دیتاکہ وہ اپنے شوہرکو سجدہ کرے(لیکن غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے،اس لیے میں اپنے لیے یا کسی دوسرے کے لیے سجدہ کی اجازت نہیں دے سکتا۔)“
(ترمذی1159، وابن ماجہ 1852، و مسنداحمد 24515، وابن ابی شیبۃ ج3ص558)
دنیا سے آ پ ﷺ کی رحلت فرمانے کے بعدحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عشق رسالت مآب ﷺ میں آ پ کی وفات کا انکار کیا،تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک ایمان افروز تقریر فرمائی:
فَحَمِدَ اللَّہَ أَبُو بَکْرٍ وَأَثْنَی عَلَیْہِ، وَقَالَ: أَلَا مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ, وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللَّہَ فَإِنَّ اللَّہَ حَیٌّ لَا یَمُوتُ ، وَقَالَ: إِنَّکَ مَیِّتٌ وَإِنَّھمْ مَیِّتُونَ َ(30) الزمر)
وَقَالَ: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَنْقَلِبْ عَلَی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَضُرَّ اللَّہَ شَیْءًا وَسَیَجْزِی اللَّہُ الشَّاکِرِینَ (144)آل عمران، قَالَ: فَنَشَجَ النَّاسُ یَبْکُونَ۔ (بخاری برقم الحدیث، 3668)
”حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا: لوگو! دیکھو اگر کوئی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو پوجتاتھا (یعنی یہ سمجھتا تھا کہ وہ کبھی نہیں انتقال کریں گے) تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی ہے اور جو شخص اللہ کی پوجا کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے، اسے موت کبھی نہیں آئے گی۔ (پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سورۃ الزمر کی یہ آیت پڑھی)إِنَّکَ مَیِّتٌ وَإِنَّہُمْ مَیِّتُونَ(30) الزمر
’اس میں شک نہیں کہ آپ کو بھی مرنا ہے اوران لوگوں کو بھی موت آ نے والی ہے‘(30) الزمر،
اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ، أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ، وَمَنْ یَنْقَلِبْ عَلَی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَضُرَّ اللَّہَ شَیْءًا، وَسَیَجْزِی اللَّہُ الشَّاکِرِینَ(144)آل عمران
‘محمد(ﷺ) صرف رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گذر چکے ہیں،تو کیا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا وہ قتل کردیئے جائیں،تو تم اُلٹے پاؤں واپس ہوجاؤگے؟ اور جواُلٹے پاؤں واپس ہو جائے تو وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا،اورجلد ہی اللہ شکر گذار بندوں کو بدلہ عطافرما ئیں گے‘۔(144)آل عمران۔راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے“(بخاری 3668)
حدیث میں فرمایا گیاکہ:ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔(مستدرک حاکم ج 4ص151)۔باپ جنت کا درازہ
ہے(ترمذی1900)۔ اور باب کی خوشی میں اللہ کی خوشی ہے۔ (ترمذی 1999،ابن ماجہ 2989)
اس کے باوجود قرآن میں اللہ تعالی نے ایک اللہ کی عبادت کی تاکید کے بعد والدین کی بہترسے بہتر خدمت کرنے اور ان کی نامناسب باتوں کو برداشت کرنے کی تلقین وتاکید کے ساتھ مشرکانہ باتوں میں ان کی اطاعت سے منع فرمایا۔
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعبُدُوا اِلَّا اِیَّاہُ وَ بِالوَالِدَینِ اِحسَانًا اِمَّا یَبلُغَنَّ عِندَکَ الکِبَرَ اَحَدُھُمَا اَو کِلٰھُمَا فَلَا تَقُل لَّھُمَا اُفٍّ وَّ لَا تَنھَرھمَا وَ قُل لَّھُمَا قَولًا کَرِیمًا(23) وَ اخفِض لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحمَۃِ وَ قُل رَّبِّ ارحَمھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِی صَغِیرًا(24) بنی اسرائیل
”اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ فرمادیا ہے کہ تم لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو، ماں باپ کے ساتھ بہتر سلوک کرو، اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کوپہونچ جائیں تو ان کو اُف تک نہ کہو، اور نہ ان کو جھڑکو، ان کے ساتھ خوب ادب سے بات کرو(23)، ان کے سامنے نیاز مندی سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہو، اور دُعا کرتے رہو: اے میرے رب! جیسے ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی آ پ ان دونوں پراسی طرح رحم فرمایئے۔“(24) بنی اسرائیل
والدین جیسی محترم ومکرم ہستیاں اگر اپنے اولاد کوغیر اللہ کی پرستش کا حکم کریں تو اولاد کوان کی یہ بات ماننے کی قطعی اجازت نہیں ہے:
وَ اِنْ جَاھَدٰکَ عَلی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ-فَلَا تُطِعْہُمَا وَ صَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًاوَّ اتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(15) لقمان
”اور اگروہ تم پر زور ڈالیں کہ تم میرے سا تھ ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤجس کی تمہارے پاس کو ئی دلیل نہیں ہے، تو تم ان کا کہنا نہ مانو اور بہتر طو رپر دنیا میں ان کے سا تھ رہو، نیز اس شخص کے راستہ کی پیروی کرو جومیر ی طرف رجوع کرتا ہے، پھرمیری ہی طرف تم سب کو واپس آ نا ہے، تو تم کو تمہارے اعمال کے بارے میں بتادوں گا۔“(15) لقمان
اس لیے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے شخص، شیء، ہستی کی پرستش کی اسلام میں قطعی اجازت نہیں ہے۔بلکہ کسی شخص، شیء، ہستی کے لیے پرستش کا لفظ بھی نہیں استعمال کرنا چاہئے۔ فرد، جماعت،معاشرہ، ملک کو دینی ودنیاوی نقصان وخسارہ بچانے کے لیے مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کوغیراللہ کی پرستش اورشرک سے روکنے کی کوشش کریں۔
*حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی علیہ الرحمہ کی قصص النبین،اول ودوم کا ترجمہ خوب عام کیاجائے*
ہمارے معاشرے میں شرک کے خلاف منطقی اورانتہائی درجہ قابل فہم اسلوب میں حضرت مولانا ابوالحسن علی الندوی علیہ الرحمہ کی کتاب ”قصص النبیین‘‘حصہ اول ودوم کاہندی، انگریزی، مراٹھی، گجراتی وغیرہ مقامی زبانوں میں ترجمہ کرکے عام کردیاجا ئے تو اس ترجمہ سے بھی بت پرستی کی نامقبولیت ذہنوں میں راسخ ہوکرمشرکا نہ فکر کا دیومالائی محل مسمار ہو سکتا ہے۔
ترتیب:
*محمد فاروق قاسمی،*
*مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی،ضلع:شاجاپور،ایم پی۔*
5جمادی الاوّل 1443ھ،
10دسمبر2021ء
جاری۔۔۔۔۔
Comments are closed.