نفرت جیت گئی، فنکار ہار گیا!

احساس نایاب ( شیموگہ، کرناٹک )
ایڈیٹر گوشہ خواتین واطفال بصیرت آن لائن
نفرت جیت گئی ، فنکار ہار گیا
یہ مایوسی بھرے الفاظ اسٹینڈپ کامیڈین منور فاروقی کے ہیں ۔۔۔۔۔
ساری دنیا کو ہنسانے والا 29 سالہ ہنس مکھ ، خوش مزاج وہی منور فاروقی ہے جو اپنے سینہ میں درد کا طوفان دبائے زمانہ بھر میں مسکراہٹ بکھیر رہا تھا ۔۔۔۔۔
بیشک یہ نوجوان بظاہر خوش لگتا ہے اور دنیا کو خوشیان بانٹ رہا ہے لیکن اس کا ماضی اور حال اس کو اندر سے توڑنے کے لئے کافی ہے ۔۔۔۔۔
ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے وہ ہر بار فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے ۔ اس پر ستم ظریفی
"زندگی ہردن زخم دے کر پوچھتی ہے
آج تم کس بات پہ مجھے ہنساؤگے ” ۔۔۔۔۔۔۔
28 جنوری 1992 گجرات کے جوناگڑھ میں پیدا ہونے والے اس نوجوان نے محض دس سال کی عمر میں 2002 کا جلتا ہوا گجرات دیکھا اور گجرات کے اُس مسلم کش فساد مین اپنا گھر بار سب کچھ اپنی آنکھوں کے آگے تباہ ہوتے ہوئے دیکھا، اس کے بعد یہ اپنی فیملی کے ساتھ ممبئی چلا آیا ۔۔۔۔۔۔
بچپن ہی میں اس کے سر سے ماں کی ممتا بھرا آنچل چھین گیا تھا اور والد مرض میں مبتلا ہمیشہ بستر پہ رہے ان حالات کی وجہ سے گھر اور بیمار والد کی ساری ذمہ داریاں اس معصوم کے کاندھوں پر آگئی اور مجبورا اسے اسکول کی پڑھائی چھوڑنی پڑی لیکن اس نے ہار نہیں مانی اور ماہانہ محض 60 روپیہ کے لئے ایک شاپ میں 13 سے 14 گھنٹے پوری محنت و لگن سے کام کرتا رہا ، اسی دوران اس نے کچھ پیسہ جمع کرکے گرافک ڈیزائننگ کورس کیا ، ساتھ ہی ہندی انگلش سیکھا اور اسٹینڈ اپ کامیڈین کی شروعات کی، جس میں پروڈیوزرس کی جانب سے 3 دفعہ رجیکٹ کئے جانے کے بعد فائنلی ممبئ 2020 میں اس کا پہلا شو بلاک بسٹر ہوا ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن زندگی کو اسے مزید زخم دینے باقی تھے اپنے معصوم انداز اور بھولی صورت سے ساری دنیا کا دل جیت لینے والے اس منور کے سر سے والد کا دست شفقت بھی چھِن گیا اور بظاہر ہنستا نظر آنے والا نوجوان ایک بار پھر یتیم ہوگیا ۔۔۔۔۔۔
جی ہاں یہ وہی اسٹینڈ اپ کامیڈین منور فاروقی ہے جس کو ہربار صرف مسلمان ہونے کی سزا ملی ہے ۔۔۔۔۔۔
چند ماہ قبل اندور میں ایک شو کے دوران بی جے پی ایم ایل اے کا بیٹا ایکلویہ اور اسکے چند ساتھیوں نے مل کر اس پہ ہندو دیوی دیوتاؤن کی توہین کا جھوٹا الزام لگاتے ہوئے اس نوجوان کی خوب پٹائی کی اور اس کے خلاف پولس میں شکایت درج کرا کے تقریبا ایک مہینہ اسے گرفتار کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر بھی اس کا گناہ بس اتنا ہے کہ یہ مسلمان ہے، اس کا نام سنتوش یا رمیش نہیں بلکہ منور فاروقی ہے اور دنیا اسے چاہتی ہے اور یہ بھی ہمیشہ لوگون کے چہروں پہ ہنسی مسکراہٹ لانے کی کوشش کرتا ہے اپنے غم اپنے دکھ درد تکالیف کو چھُپا کر یہ اوروں کی زندگیاں خوشیوں سے بھردینا چاہتا ہے ایسے دور میں جہان لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں، کوئی روزمرہ کی پریشانیوں سے تھک ہار کر سوسائد (خودکشی) کررہا ہے، کسی کا نروس بریک داؤن ہورہا ہے تو کوئی ہارٹ اٹیک سے مررہا ہے ۔۔۔۔۔۔
یقین جانیں اس دور میں منور فاروقی جیسے کامیڈینس سماج و معاشرہ کے لئے وردان ہیں
اور ان فنکاروں کا کبھی کوئی مذہب دھرم نہیں ہوتا بلکہ فنکار محض فنکار ہے جس کا ایمان اُس کا فن ہے اُس کا کام اپنے آڈینس کو دکھوں کے دلدل سے نکال کر ہنسی قہقہوں کی سیر کرانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن لگتا ہے منور فاروقی کی زندگی کی آزمائشیں اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوں گی کیونکہ
نفرت کے سوداگروں نے منور فاروقی کو توڑنے کی قسم کھارکھی ہے ، چند شرپسند ہندوتنظیموں کی جانب سے پچھلے 2 ماہ مین تقریبا 12 شو کینسل کروائے گئے ہیں اور حال ہی میں بینگلور مین ہونے والا شو بھی پولس نے یہ کہہ کر منسوخ کروادیا کہ منور فاروقی متنازعہ شخصیت ہے اور اس کے شو کرنے سے امن و امان کو خطرہ ہے، جبکہ شو کے 700 ٹیکیٹس بک ( فروخت ) ہوچکے تھے، باوجود فرقہ پرستوں کی جانب سے دی جارہی دھمکیوں کے چلتے بنگلور پولس نے منور فاروقی اور اس کے شو کو پروٹیکشن دینے کے بجائے الٹا منتظمین کو دھمکاکر شو کینسل کروادیا، اس سے آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ آج پولس و اعلی افسران کے اوپر اقتدار پہ بیٹھے لیڈروں کا دباؤ کس حد تک ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال یہ لوگ نفرت ہی تو کرسکتے ہیں
اور اس سے زیادہ یہ کسی کا کیا بگاڑ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
لیکن ان تمام واقعات کے بیچ منور فاروقی نے ویڈیو کے ذریعہ عوام کو ایک پیغام دینے کی کوشش کی تھی جس میں کہا تھا کہ
فیمس ہونا ہوتا تو میں گاڑی مین بیٹھ کر کسی کو گالیان دے رہا ہوتا لیکن میں نے لوگون کو ہنسانا چنا ۔۔۔۔۔۔
اسٹینڈاپ کامیڈی میں اس لیے کررہا ہوں کہ اس سے خوشی ملتی ہے، جب لوگ خوش ہوتے ہین، لوگ ہنستے ہیں
میں جب مسیجس رسیو کرتا ہوں۔ اس طرح کے کہ ہمارا دن بہت بُرا جارہا تھا، ایگزیمس تھے، اسٹریس تھا ہم آج بہت پریشان تھے، ہمیں خوشی ہوئی، اچھا لگا آپ یہ جو کچھ کہتے کرتے ہیں اچھا لگتا ہے خوشی ملتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
میرا خواب جگے گا میری نیند بھری آنکھوں میں
آنکھ لگے تو کبھی تھام لینا ہاتھ میرا
تاج چڑھے گا سر محل بنے گا
کبھی لکھنا روکے تو کاٹ دینا ہاتھ میرے ۔۔۔۔۔۔
افسوس ہرحال میں حوصلہ بخش باتین کہنے والا نوجوان آج ٹوٹ چکا ہے ، جو لڑکا ہمیشہ نفرت کو چیلینچ کی طرح لے کر بدلے میں محبت اور خوشیان دے رہا تھا آج وہ خود مایوس ناامید ہوچکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
شاید یہی وجہ ہے بنگلور شو کے کینسل ہونے کے بعد منور فاروقی نے 28 نومبر کو سوشیل میڈیا پر ایک پوسٹ شئر کرکے اپنے فالورس کو الودع کہا اور لکھا کہ
"آج نفرت جیت گئی، فنکار ہار گیا ” ۔۔۔۔۔۔۔۔ الودع ۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.