خسرو فاؤنڈیشن ایک نئی پیش رفت اور ہم آ ہنگی کا پیغام ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
[email protected]
ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور یہاں کی رنگا رنگی کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں انہوں نے سماج میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ہندوستان ایک ایسی سرزمین ہے جس نے بھائی چارگی اور اشتراک واتفاق کی ضرورت واہمیت کا احساس ہر موڑ پر دلایا ہے۔ پیار محبت اور وفاداری، امن و سلامتی کے پیمبر اس ملک میں بے شمار پیدا ہوئے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی استعداد و صلاحیت کے مطابق انسانی حقوق اور سماجی رابطوں ورشتوں کی عظمت کو دوبالا کیا ہے اور وطن سے محبت والفت کی ان گنت مثالیں پیش کی ہیں۔ نفرت و بیزاری اور عداوت کا قلع قمع کیا ہے۔ انہی شخصیات میں ایک اہم شخصیات حضرت امیر خسرو کی ہے جنہوں نے اپنی مثنویوں میں ہندوستان کی آ ب و ہوا، فضیلت ورتبہ اور یہاں کی تہذیب و تمدن کی نہ صرف تعریف کی ہے بلکہ باقاعدہ اس کو آ گے بھی بڑھایا ہے۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت امیر خسرو گنگ وجمن تہذیب اور ہندوستانی کلچر کے نمائندہ اور دلدادہ دونوں تھے۔ خسرو فاؤنڈیشن کے سربراہ پروفیسر اختر الواسع نے اپنے ایک انٹرویو میں امیر خسرو کے افکار اور خسرو فاؤنڈیشن کیوں نام رکھا اس کو بڑی تفصیل سے بتایا ہے۔ ” حضرت امیر خسرو ہندوستان کے عہد وسطی کی وہ محبوب ، دلنواز اور ہمہ گیر شخصیت ہیں جنہیں صدیاں گزر جانے کے باوجود یاد رکھا گیا اور ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ بیک وقت صوفی بھی تھے اور سپاہی بھی، وہ شاعر بھی تھے اور ماہر موسیقی بھی، وہ مورخ بھی تھے اور تاریخ ساز بھی۔ غرض ان کی شخصیت کی عبقریت نے ان کو گونا گوں صفات کا حامل اور ہمہ جہت پہلوؤں سے اس طرح متصف کیا کہ عہد وسطی کی ہندوستانی تاریخ میں بڑے بڑے نامیوں کے نشانات مٹ گیے لیکن جب سے آ ج تک نہ صرف ہماری تاریخ کے جز بلکہ انسانی ذہنوں میں زندہ و تابندہ ہیں” انہوں نے یہ بھی کہا کہ حضرت امیر خسرو نے ” کس طرح حال و قال ، جنگ وجدل ، سوز وساز ، خانقاہ اور دربار کے درمیان توازن برقرار رکھا۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے بلکہ تاریخ شہادت دیتی ہے کہ انہوں نے یہ توازن اپنی شخصیت کے کھرے پن کے ساتھ قائم کیا تھا۔ ان کی ہر وابستگی اور ہر رول کھلی کتاب کی طرح عیاں تھا اور اس کھلے پن کے تعلقات کے باوجود زندگی بھر کامیاب رہے۔ اس ترک نژاد کی وطن دوستی نہ صرف مثالی ، بلکہ قابلِ رشک بھی ہے۔ خسرو کے نزدیک یہ سر زمیںن ہند ، عدن کی جنت، یہاں کے لوگ ہر رنگ میں انہیں عزیز ، یہاں کے درباروں کے آ گے ایران، توران، خراسان کے دربار ہیچ۔ یہاں کے لوگ ہر صنعت ، علم و ادب کی ہر شاخ ، فنون لطیفہ کے ہر میدان اور عسکری تربیت کے ہر انداز میں ” بے نظیر” اہل ہند کا توحیدی مسلک انہیں باوجود ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کے عزیز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر چہ وہ ( یعنی اہل ہند) ہمارے جیسا دین نہیں رکھتے ، مگر ان کے اکثر عقیدے ہمارے جیسے ہیں” گویا حضرت امیر خسرو نے ہندوستان سے اور اہل ہند سے محبت، رواداری اور توازن و اعتدال کی جو خوشگوار روایتیں قائم کی ہیں ان کو آ گے بڑھانے اور ملک میں امن وامان کا پیغام عام کرنے کی غرض سے خسرو فاؤنڈیشن کا جود عمل میں لایا گیا۔ ہندوستان کی قدروں اور بھارت کی روحانیت و تقدس کو اسی وقت جلا ملے گی جب کہ یہاں پر انسانی رشتوں کو مضبوط و مستحکم کیا جائے۔ حضرت امیر خسرو کی مثنویوں میں ہندوستان جیسے تکثیری سماج کے لیے جو روحانی غذا اور سماجی تقدس کا جو پیغام موجود ہے آ ج اس کو ہر شہری تک پہنچانے کی ضرورت ہے ۔ خسرو فاؤنڈیشن کے جو اہداف ومقاصد ہیں ان میں نمایاں ہدف یہ ہے کہ آ ج ہمارے درمیان یعنی ہندوستانی سماج کے اندر بہت ساری غلط فہمیاں رائج ہوچکی ہیں ، جس کی وجہ سے باہمی خلفشار اور نفرت ایک دوسرے کے لیے بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس گہما گہمی اور بدلتے سماجی رویوں کا خاتمہ کرنا اب وقت کی ضرورت ہے۔۔ خسرو فاؤنڈیشن کے سربراہ پدم شری پروفیسر اختر الواسع کے الفاظ میں اس کے قیام کا مقصد پیش کیا جائے تو درج ذیل ہے” ہندوستان میں ایک دوسرے کو جوڑنے والوں کا ذکر کیا جائے تو ان کے نام اور کام گنانے میں کوئی دیر نہ لگے گی لیکن اگر ایک دوسرے کو ایک دوسرے سے الگ کرنے والوں اور بانٹنے والوں کے نام کسی سے پوچھے جائیں تو اسے ان کے نام یاد کرنے اور بتانے میں بڑی مشکل پیش آ ئے گی۔ اس سب کے باوجود آ ج پھر یہ دوریاں، یہ ٹکراؤ اور یہ تشدد بار بار کیوں دیکھنے کو مل رہا ہے؟ اس کا سیدھا سادھا جواب یہی ہے کہ ہم نے انہیں بھلادیا ہے جنہیں ہمیں یاد رکھنا چاہیے ، دیوی دیوتاؤں ، پیغمبروں، پیروں اور رشیوں، منیوں کے تیاگ، تپسیا، سمرپن اور سیوا بھاؤ کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے سندیش اور اپدیش ایک دفعہ پھر لوگوں تک پہنچائے جائیں یہی وہ سوچ اور فکر مندی ہے جس کے تحت ” خسرو فاؤنڈیشن” کی بنیاد رکھی گئی” خسرو فاؤنڈیشن کے قیام کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے لیکن جو مشن اور منصوبہ ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مستقبل قریب میں ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کرے گا۔ بقائے باہم اور انسان دوستی کی اعلیٰ مثال قائم ہوگی۔ یاد رکھئے کوئی بھی تحریک اسی وقت زندہ اور دائمی ہوپاتی ہے جب کہ اس کے اندر انسانیت کا درد اور اس کو چلانے والے افراد متوازن ، سنجیدہ اور معتدل سوچ کے علمبردار ہوں۔ خسرو فاؤنڈیشن کے جو ممبران بورڈ آ ف ڈائریکٹرس ہیں وہ نہایت مثبت اور تعمیری فکر کے حامل ہیں۔ پروفیسر اختر الواسع، سراج الدین قریشی، روہت کھیڑا اور رنجن مکھرجی جیسی شخصیات کی اس ادارے کو سرپرستی حاصل ہے۔
حالانکہ ابھی اس ادارے کے قیام کو زیادہ وقت نہیں ہوا اس کے باجود فاؤنڈیشن نے جن تعمیری امور کی انجام دہی کا فریضہ انجام دیا ہے وہ غیر معمولی ہے ۔ مثلآ فاؤنڈیشن کی دعوت پر دو اہم موضوعات پر تصنیفات آ چکی ہیں۔ ایک” ہندوستان کی شرعی حیثیت "اور دوسرے "اردو کی ترویج و اشاعت میں غیر مسلموں کی خدمات” خوشی کی بات یہ ہے کہ فاؤنڈیشن نے یہ کتابیں ایسے وقت میں تیار کرائی ہیں جب مسلمانوں کی حب الوطنی کو مشکوک ٹھہرایا جارہا ہے اور اردو زبان کو ایک مخصوص طبقہ سے جوڑ کر دیکھا جارہاہے۔ اس نازک دور میں ایسی تعمیری اور مثبت پیش رفت کے جو نتائج ہندوستانی معاشرے پر مرتب ہوں گے وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ فاؤنڈیشن اپنے اہداف کی تکمیل کی طرف بحسن وخوبی گامزن ہے چنانچہ مولانا حسین احمد مدنی کی قابل قدر تصنیف ” نقش حیات ” کا ہندی ترجمہ کرارہا ہے۔ اسی طرح کئی نوجوان دانشور دیگر اہم گوشوں پر کام کررہے ہیں۔ ” ہندی کے فروغ میں مسلمانوں کی خدمات ” اور ہندو مت کے فروغ میں مسلمانوں کا حصہ ” جیسے اہم پروجیکٹ زیر تصنیف ہیں۔ سماجی رابطوں اور ہم آہنگی کے لیے خطبات ، سمپوزیم، سیمینار کرانا بھی فاؤنڈیشن کا حصہ ہے۔ مذکورہ بالا سطور کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ جب یہ پروجیکٹ منصہ شہود پر آ ئیں گے تو یقیناً معاشرے کے اندر یکجہتی، ہم آ ہنگی اور اتحاد و اتفاق کی فضا ہموار ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ ان بہت سارے اعتراضات کا بھی ازالہ ہوگا جو آ ئے دن مسلمانوں سے متعلق کیے جاتے رہتے ہیں۔
یاد رکھیے کائنات کا ہر فرد بہت قیمتی اور اہم ہے اسی طرح ہر فرد کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خصوصیتوں سے نوازا ہے، اس لیے انسانی رشتوں کی حرمت اور اس کے تقدس کو متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا نہایت ضروری ہے۔ تاکہ انسانی سماج پوری آ ب وتاب کے ساتھ پر امن اور پرسکون رہ سکے۔ پروفیسر اختر الواسع اور ان کے ہم مزاج افراد نے خسرو فاؤنڈیشن کی شکل میں جو خواب دیکھا ہےامید قوی ہے کہ وہ بہت جلد شرمندہ تعبیر ہوگا۔ پروفیسر اختر الواسع کا نظریہ یہ ہے کہ ” جب ملک آ گے بڑھے گاتبھی ہم بھی آ گے بڑھیں گے ” اس لیے ملک کی مقدس روایات اور اقدار کو زندہ کرنے کی جد وجہد ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ خسرو فاؤنڈیشن جہاں ایک نئی پیش رفت ہے تو وہیں اس کے مقاصد نہایت عظیم ہیں۔ ہم آ ہنگی، صالح افکار و نظریات اور انسان و وطن دوستی کی خوشبو اس کے نام سے بخوبی آ تی ہے۔
Comments are closed.