اپنی اصلاح کے لیےان تینوں باتوں کا اہتمام کیجئے

محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
انفرادی اور اجتماعی اصلاح اسی وقت ممکن ہے، جب ہم قرآن و حدیث کو اپنا منبع و مصدر بنائیں گے اور اس کی روشنی میں اور اس کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط، ہدایات اور گائڈ لائن کے مطابق اپنی زندگی گزاریں گے، کیونکہ یہ دونوں وہ سرچشمے اور رشد و ہدایت کے مصدر ہیں کہ اس کی اتباع اور پیروی اور پر عمل کئے بغیر ہم زندگی کے کسی شعبے اور شاہراہ حیات میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔۔۔ پیارے آقاﷺ نے امت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ جب تک قرآن و حدیث کو پکڑے رہوگے اور اس کے بتائے ہوئے اصول و ہدایات پر عمل کرتے رہو گے، کبھی ناکام و نامراد اور گمراہ نہیں ہوگے۔۔۔ قرآن مجید سراپا کتاب ہدایت ہے یہ نازل ہی ہوئی ہے، انسانوں کی رشد و ہدایت اور کامیابی و کامرانی کے لیے، قرآن مجید کے بعد حدیث کا درجہ ہے اور حدیث در اصل قرآن مجید ہی کی تفسیر و توضیح اور تسہیل و تشریح ہے، ایک (قرآن) وحی متلو ہے اور دوسرا (حدیث) وحی غیر متلو ہے۔۔۔
قرآن مجید کے بعد حدیث مصدر ثانی ہے، مشکوۃ نبوت یعنی حدیث سے فیض اٹھانا اور اس کی روشنی میں زندگی گزارنا ہر مومن کے لیے ضروری ہے ذیل میں ایک حدیث نبویﷺ کی تشریح کرتے ہیں، جس میں اصلاح کے لیے تین باتوں کے اہتمام کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔۔
نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا : جس نے اپنے غصہ کو دفع کیا، اللہ تعالی اس کو اپنے عذاب سے دور کریں گے، اور جس نے اپنی زبان کی حفاظت کی اللہ تعالی اس کی پردہ پوشی کریں گے، اور جس نے اللہ تعالی سے معافی مانگی اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دیں گے۔۔ (طبرانی)
مذکورہ بالا حدیث میں پیارے آقاﷺ نے ہماری اپنی اصلاح کے لیے تین اہم باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے۔۔ جو انتہائی اہم اور ضروری ہیں۔
پہلی بات ہے غصہ پر قابو پانا۔۔ یہ حقیقت ہے کہ غصہ میں حواس مختل ہوجاتے ہیں، انسان کو اس وقت اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا، اول فول بکنے لگتا ہے، ماتحتوں پر دست درازی کرنے لگتا ہے، شوہر ہے تو بیوی زد میں آجاتی ہے، باپ ہے تو اولاد تختہ مشق بنتی ہے، استاد ہے تو شاگرد کی درگت ہوجاتی ہے، اور حاکم ہے تو محکوم کی خیر نہیں رہتی، حدیث میں آیا ہے کہ غصہ کو پی جانا اصل بہادری ہے، اس کی ترکیب بھی بتای گئی کہ اس وقت پانی پی لے، کھڑا ہے تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہے تو لیٹ جائے، ایسا کرنے سے تعلق کے دائرے میں جو نقصان ہوسکتا ہے اس سے تو انسان بچتا ہی ہے، اصل کشش اللہ کے رسول ﷺ کا یہ وعدہ ہے کہ اللہ تعالی اس سے اپنے عذاب کو دفع کریں گے۔۔ غصہ پی جانے والے کو اس سے زیادہ بڑا اور قیمتی انعام اور کیا چاہیے۔۔۔
دوسری ہدایت ہے زبان کی حفاظت اور اس پر قابو پانا۔۔ زبان کی بے احتیاطی جو گل کھلاتی ہے اور کھلا سکتی ہے اس کا اندازہ سب کو ہے جبڑوں کے درمیان والی چیز کی حفاظت پر ایک دوسری حدیث میں جنت کی ضمانت دی گئی ہے،اپنے اعمال نامے سے انسان خود ہی سب سے زیادہ واقف ہے، اگر ہر انسان کا کیا دھرا سامنے آجائے تو وہ منھ چھپاتا پھرے گا۔۔ اسی لیے تو بندہ ستار العیوب سے درخواستیں کرتا ہے کہ اس کے عیوب کی پردہ پوشی کی جائے، یہاں اس کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ انسان اپنی زبان کی حفاظت کرے۔ یعنی اسے جھوٹ، غیبت، بدگمانی، بدگوئی، اور فحش گوئی و لعن طعن سے بچائے، گالم گلوچ، بہتان اور افترا سے بچائے اور اگر صاحب قلم و قرطاس ہے تو تو اپنے قلم کو ان برائیوں اور لعنتوں سے بچائے۔۔۔
تیسری بات ہے حدیث میں جو بتائی گئی ہے وہ ہے اللہ تعالی سے معافی مانگنا، جس نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لی اللہ تعالیٰ اسے پروانہ مغفرت عطاء کریں گے، یہ سودا بالکل نقد اور کھرا ہے، ہاں یہ یاد رہے رسمی معافی نہیں، واقعی معافی مانگنا چاہیے۔۔ زبان پر معافی کے الفاظ ہوں، اور اعضاء و جوارح، قلب و ذھن عین اسی وقت گناہوں میں مصروف ہوں تو یہ معافی نہیں ہے۔ نیک نیتی، صدق دلی اور دل کی گہرائی سے معافی کی طلب بآلاخر انسان کو گناہوں کے دلدل سے نکال دیتی ہے۔۔۔
مذکورہ بالا حدیث ﷺ میں جن تین باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور جن تین اہم چیزوں کی طرف ہمیں متوجہ کیا گیا ہے ، اگر ہم لوگ اس کا اہتمام کرلیں تو ہماری زندگی میں تبدیلی اور انقلاب آجائے گا اور بہت حد تک ہماری اصلاح ہوجائے گی۔۔۔
Comments are closed.