Baseerat Online News Portal

"ہندوستانی معیشت” ایک ہاتھ میں جھولا دوسرے میں تھالی!!

 

نور اللہ نور

 

انسانی زندگی کا انحصار خورد و نوش پر ہے اور اس کے لئے لوگ انفرادی، اجتماعی، ملکی طور پر سعی کرتے ہیں ، ملکی استحکام اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ وہ معاشی اعتبار سے بھی خوب مستحکم ہو ، ملک کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیکہ کسب معاش کے مواقع زیادہ سے زیادہ فراہم کیے جائیں ، اور ایک طاقتور ملک کے لئے ضروری ہیکہ اس کے بیشتر افراد روزگار سے منسلک ہوں.

 

ایک نگاہ ترقی یافتہ ممالک پر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ان کی فراخی ، خوشحالی، ترقی کا راز یہ ہیکہ وہ معاشی اعتبار سے دیگر ممالک پر فوقیت رکھتے ہیں اور اپنے یہاں کی اشیاء اور اپنے افراد کو زیادہ موقع فراہم کرتے ہیں معاشی استحکام کے معاملے میں امریکہ سر فہرست ہے اس کے بعد چائنا اور جرمنی، فرانس ہے یہ سارے ممالک معاشی اعتبار سے کافی مستحکم ہیں اس کی وجہ یہ ہیکہ وہاں کے لوگ روزگار زیادہ پاتے ہیں اور اپنی خود ساختہ چیزوں کو عالمی بازار میں فروخت کرکے اربوں کا منافع کماتے ہیں اور معاشی اعتبار سے کافی مستحکم ہیں.

اس کے مقابل میں ہم اپنے ملک کا معاشی کا جائزہ لیں تو ہمیں مایوسی ہی آتی ہے ہم جس طرح دیگر شعبہ حیات میں پیچھے ہیں اسی طرح ہماری معاشی حالت بھی باعث تشویش ہے 2021 کے سروے کے مطابق پچہتر لاکھ لوگ ہمارے ملک میں بے روزگار بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے ، اسی طرح "ہنگر انڈیکس” میں بھی ہم تنزلی کا شکار ہیں اور ایک 116 ممالک کی فہرست میں 96پر ہیں جس کا مطلب یہ ہیکہ بھکمری کی شرح ہمارے ملک میں دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اور غذائیت کے فقدان کا تناسب روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے.

جب ملک ان مسائل سے دوچار ہے تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ زیادہ زیادہ ذریعہ معاش پیدا کیا جائے ، کسب معاش کے مواقع دیے جائیں ، ہماری نوجوان صلاحیتیں جو یا تو ملک میں بیٹھ کر ضائع ہورہی ہیں یا پھر خطیر رقم کی لالچ میں دوسرے ممالک میں نوکری کر رہی ہیں ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک طاقتور معاشی نظام پیدا کیا جاتا اور معاشی اعتبار سے ملک کو استحکام بخشا جاتا بجائے یہ کام کرنے کے ہماری سرکار تمام کمپنیاں فروخت کرنے میں لگی ہے ، ایل آئی سی ، ایر انڈیا ، ریلوے ،اب بینک کو پرائیویٹ کیا جا رہا ہے.

ریلوے کے پرائیویٹ کرنے سے چودہ لاکھ لوگ اپنی نوکری سے بے دخل ہوگئے اور ذی استعداد ہونے کے باوجود پکوڑے فروخت کر رہے ہیں ، ایر انڈیا کو ساٹھ ہزار کروڑ میں فروخت کردیا اور اب بینکوں کو بھی داؤ پر لگانے کا ارادہ ہے جب اتنی نوکریاں خطرے میں ہوں جب نوجوان لاکھوں کی تعداد میں بے روزگار سڑکوں پر گھوم رہے ہوں تو ہم کس طرح اس بلا سے نجات پا سکتے ہیں؟

اب جب بینک کو بھی پرائیویٹ کردیا جائے گا تو اس سے بھی سینکٹروں لوگ سڑک پر آجائیں گے اور فاقہ کشی اور قلاشی کے ریس میں ہم سب سے آگے بڑھ جائیں گے ، بھکمری اور بھی ہمارے لیے درد سر بن جائے گی.

اگر ان مسئلے کو حل کرنے کے بجائے ہماری حکومت اسی طرح سارے اثاثے کو بیچتی رہی ، سرکاری کمپنیوں کو پرائیویٹ کرتی رہی اور سرمایہ داروں کو معمولی قیمت میں عنایت کرتی رہی تو یقینا ایک دن ایسا آئے گا کہ نہ صرف ان کے ہاتھ میں جھولا ہوگا بلکہ پورے ملک کے ایک ہاتھ میں جھولا اور دوسرے میں تھالی نظر آئے گی.

 

مگر ان سب سے ان کو کیا فرق پڑتا ہے ان کو تو بس راج کرنا ہے ملک کس حالت میں ہے عوام کن حالات سے نبرد آزما ہیں ان سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہے خدا کرم کرے ورنہ اس سے بھی برے دن آنے والے ہیں..

Comments are closed.