اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم (قسط 3)

بقلم: مفتی محمداشرف قاسمی
دارالافتاء:مہدپور،اُجین،ایم.پی
وطن یاجا ئے رہائش اور شریعت کی تعلیما ت
مادَّہ’وطن‘، ’دار‘اور’بلد‘ وغیرہ کے الفاظ قرآن واحادیث میں مختلف موقعوں پر آئے ہیں۔
لقَد نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِی مَوَاطِنَ کَثِیرَۃٍ(25) التوبۃ
”اور اللہ نے تم لوگوں کی بہت سے موقعوں پرمدد کی ہے۔“ٍ(25) التوبۃ
انسان کی جائے پیدائش اور وہ جگہ جہاں وہ مستقل سکونت اختیارکرتاہے۔ اسی کے مقابل میں وطن اقامت آتا ہے، جہاں عارضی طور پر پندرہ یااس سے زائد دنوں تک اقامت کی نیت کرکے ٹھہراجائے۔ جس کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔
(ردالمحتار ج1ص525، بحرالرائق ج 2ص128، مختارات النوازل، ج 1ص373/ ایفا)
وطن لفظ مصدر ہے موطن کے معنی میں۔یہ باب مفاعلۃ سے ہے۔ جس میں مشارکت کامعنی ہے۔ جسے مزارعت، مزارع اور صاحب الارض کے اشتراک کوبتلاتاہے۔ مضاربۃ میں مضارب اورصاحب المال کے درمیان اشتراک کو بتاتا ہے۔ اسی طرح وطن باب مفاعلۃ سے مواطِن اور موطَن یا وطن کے درمیان اشتراک کو ظاہر کرکے لغوی طور پر یہ بتلاتا ہے کہ وطن سے مراد:”انسان کی رہائش اختیار کرنے کی جگہ یا مکان“۔
اسلام میں گھر کے جملہ مکینوں کو اپنی ذات اور اپنے گھر کے جملہ افراد کی خیرخواہی وبھلائی کی فکر اوراپنی ذات کے علاوہ گھروالوں کی حفاظت کی تاکیدی تعلیم کے ذریعہ اسلام ایک مثالی وطن، گھر انہ یامعاشرہ تشکیل دیتا ہے:
یَاأَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیکُمْ نَارًا(6) التحریم
”اے ایمان والو! اپنے آ پ کو اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ۔“(6) التحریم
گھر میں اپنی بیوی کی اگرکوئی بات ناپسندیدہ ہو،تو بھی اسلام اس کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے۔
وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ، فَاِنْ کَرِھُتُمُوْھُنَّ شَےْئاً فَعَسَیٰ أَنْ تَکْرَھُوْا شَےْئاً وَیَجْعَل اللّٰہُ فِیْہِ خَیْراً کَثِیْراً(19) النساء
”اوراُن(بیویوں) کے ساتھ اچھی طرح گذربسر کرو،اگر وہ تم کو نہیں بھاتی ہیں،تو ہوسکتا ہے کہ تم کو ایک چیز ناپسندیدہ ہو اور اللہ نے اسی میں بہت سی خوبیاں رکھی ہوں“(19) النساء
لڑکوں و لڑکیوں کی تعلیم وتربیت پر دوزخ سے حفاظت (بخاری برقم الحدیث1418)اور جنت کی بشارت سنائی گئی۔(ابوداود برقم الحدیث5146) اسی طرح عورتوں کو گھر میں شوہر اور اس کے بال بچوں، اور اموال کا نگہبان بنایا گیا۔(بخاری برقم الحدیث1161و مشکوۃ برقم الحدیث3254)
والدین کی خدمات اور ان کی دیکھ بھال کرنے اوران کے نامناسب الفاظ وکلمات پر انھیں اُف تک کہنے کی مما نعت پر قرآن مجیدکی آ یات گذشتہ سطور میں نقل کی جاچکی ہیں۔ یہاں ذیل میں دواحادیث نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:الْجَنَّۃُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّھاتِ(مستدرک حاکم ، ج 4ص151)
”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: جنت ماؤوں کے قدموں کے نیچے ہے۔“ِ(مستدرک حاکم ج 4ص151)
عن عبد اللہ بن عمرو -رضی اللہ عنہما- عن النبی -ﷺ- قال:رضا اللہ فی رضا الوالدین، وسَخَطُ اللہ فی سَخَطِ الوالدین(لترمذی1900)
”حضرت عبدا للہ بن عَمر ورضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی خوشی ماں وباپ کی خوشی میں ہے،اور اللہ کی ناراضگی ماں وباپ کی ناراضگی میں ہے۔(ترمذی 1900)
، قال ابوالدرداء: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ” الوالد اوسط ابواب الجنۃ فإن شئت فاضع ذلک الباب او احفظہ ”، قال ابن ابی عمر، وربما قال سفیان: إن امی، وربما قال ابی، وھذا حدیث صحیح۔ (ترمذی1999)
”ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:’باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو۔“(ترمذی 1999،ابن ماجہ 2989)
غریب رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، بھیک مانگنے والوں کی امداد،اور قیدیوں کی رہائی کے لیے روپیہ خرچ کرنے والے مسلمان کو اسلام معاشرے کاسچااور متقی انسان قراردیتا ہے۔
وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَالسَّاءِلِینَ وَفِی الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَالْمُوفُونَ بِعَہْدِہِمْ إِذَا عَاہَدُوا وَالصَّابِرِینَ فِی الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِینَ الْبَأْسِ أُولَءِکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَأُولَءِکَ ہُمُ الْمُتَّقُونَ(177) االبقرۃ
”(وہ جو)اپنا محبوب مال،قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اورمانگنے والوں پر، نیز غلاموں کے آزاد کرانے میں خرچ کرے،نماز قائم کرے اور زکوۃ ادا کرے جب وعدہ کرے توپوراکرے، تنگدستی، بیماری اور جنگ کے موقع پر صبر سے کام لے، یہی لوگ اپنے ایمان میں سچے ہیں اور یہی تقوی والے ہیں (177) البقرۃ
وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(8) الدھر
”اور خود چاہت رکھنے کے باوجود محتاج، یتیم اور قیدیوں کو کھانا کھلا تے ہیں (8) الدھر
وَیُؤْثِرُونَ عَلَیٰ أَنْفُسِہھمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولَٰءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ(9) الحشر
”اور وہ اگر چہ خود فاقہ سے دوچار ہوں، اپنے اوپر اُن کو ترجیح دیتے ہیں، اور جو شخص اپنی طبیعت کو حرص سے محفوظ رکھتا ہو تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں (9) الحشر
وَ اٰتِ ذَاالقُربٰی حَقَّہٗ وَ المِسکِینَ وَ ابنَ السَّبِیلِ وَلَا تُبَذِّر تَبذِیرًا(26) بنی اسرائیل
”اور رشتہ داروں کو ان کا حق اداکرتے رہو، اور محتاجوں اور مسافروں کوان کا حق، اور بے جا خرچ نہ کیاکرو(26) بنی اسرائیل
وَ اِمَّا تُعرِضَنَّ عَنھُمُ ابتِغَآءَ رَحمَۃٍ مِّن رَّبِّکَ تَرجُوھَا فَقُل لَّہُم قَولًا مَّیسُورًا (28)وَ لَا تَجعَل یَدَکَ مَغلُولَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبسُطھا کُلَّ البَسطِ فَتَقعُدَ مَلُومًا مَّحسُورًا(29) بنی اسرائیل
”اور اگر تم کو اپنے پروردگار کی طرف سے روزی کے انتظار میں – جس کی تم کو اُمید ہے-ان (محتاجوں۔اشرف)سے پہلو تہی کرنی پڑے تو ان سے نرم بات کہہ دیا کرو،(28)نہ تو اپنے ہاتھ گردن ہی سے باندھ لو اور نہ اسے بالکل کھلا چھوڑ دو کہ تم ملا مت کا نشانہ بنے ہو ئے خالی ہاتھ بیٹھے رہ جاؤ(29) بنی اسرائیل
وَ لَا تَقرَبُوا مَالَ الیَتِیمِ اِلَّا بِالَّتِی ھِیَ اَحسَنُ حَتّٰی یَبلُغَ اَشُدَّہٗ وَ اَوفُوا بِالعَھدِ اِنَّ العَھدَ کَانَ مَسءُولًا (44) بنی اسرائیل
”اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ؛سوا ئے اس طریقے کے جوبہتر ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہونچ جائیں، اور وعدہ پورا کیا کرو، بے شک وعدہ کے بارے میں پوچھ ہوگی“ (44) بنی اسرائیل
پڑوسیوں کی خبر گیری اور امدادکی سخت تاکید کی گئی ہے۔
عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْھَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا زَالَ یُوصِینِی جِبْرِیلُ بِالْجَارِحَتَّی ظَنَنْتُ أَنَّہُ سَیُوَرِّثُہُ۔(بخاری6014)
”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’جبرائیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے بارے میں بارباراس طرح وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال گزرا کہ شاید پڑوسی کو وراثت میں شریک کر دیں گے۔“ (بخاری6014)
عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْھَا، قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنَّ لِی جَارَیْنِ، فَإِلَی أَیِّھمَا أُھْدِی؟ قَالَ: إِلَی أَقْرَبِھِمَا مِنْکِ بَابًا.(بخاری 2595)
”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ:میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میری دو پڑوسی ہیں، تو مجھے کس کے گھر ہدیہ بھیجنا چاہئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس کا دروازہ تم سے قریب ہو۔“ بخاری 2595
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلَا یُؤْذِ جَارَہُ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ۔
(بخاری برقم الحدیث، 6018و6016)
”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ے ارشاد فرمایاکہ: جو کوئی اللہ اورآ خرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ ہر گز اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہونچائے، اور جو کوئی اللہ اورآ خرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمانوں کا اکرام کرے،اور جوکوئی اللہ اورآ خرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ بھلی بات بولے یا چپ رہے۔“
(بخاری برقم الحدیث، 6018و6016)
اس طرح اسلام مکانات کے مکینوں ں کو ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے، پڑوسیوں کے ساتھ بھی گہرے مراسم
ومعاونت کا مضبوط راستہ بتلا تا ہے اور یہی نہیں بلکہ مسافروپڑوسی کو انسان کی فطری دلجمعی کا ذریعہ قراردیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ھاجرہ واسمعیل علیھما السلام (جوکہ مسلم معاشرہ کے لیے آ ئیڈل ہیں)کے بارے میں ایک طویل راویت ہے، جس میں مسافروں کو اپنے پڑوس میں آ با دکرکے معاشرے کی تعمیر اور دلجمعی کی خبر دی گئی ہے۔
…قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فَأَلْفَی ذَلِکَ أُمَّ إِسْمَاعِیلَ وَھِیَ تُحِبُّ الْإِنْسَ فَنَزَلُوا وَأَرْسَلُوا إِلَی أَھْلِیھمْ فَنَزَلُوا مَعَھمْ حَتَّی إِذَا کَانَ بِھَا أَھْلُ أَبْیَاتٍ مِنْہُمْ.. (بخاری برقم الحدیث، 3364)
”…نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب ام اسماعیل(علیھما السلام) کو پڑوسی مل گئے۔ انسانوں کی موجودگی ان کے لیے دلجمعی کا باعث ہوئی۔ ان لوگوں نے خود بھی یہاں قیام کیا اور اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلوا لیا اور وہ سب لوگ بھی یہیں آ کرٹھہر گئے۔ اس طرح یہاں ان کے کئی گھرانے آ کر آباد ہو گئے…۔“ (بخاری برقم الحدیث، 3364)
اسلامی ہدا یات کی پابندی کرنے والوں کے گھر وں میں جوسکون وراحت دیکھنے کو ملتی ہے، وہ دوسرے نظریات کے حامل افراد کے یہاں نہیں ملے گی۔ اوراسلامی تعلیمات کی وجہ سے مسلمانوں میں پڑوسیوں، مسافروں، مجبوروں وحاجتمندوں کی نصرت و مدد کا جورواج پایاجاتا ہے اس کی تازہ وزندہ مثال لاک ڈاون کے موقع پر دیکھنے کو ملی۔ مسلمانوں نے ہر قسم کے نا مساعد حالات کے باجود ممبئی سے کلکتہ وبنگال اور مدراس وکیرالہ سے ہمالیہ کے ترائی تک سڑکوں پر پیدل چلنے والے مزدوروں،بیماروں، مجبوروں، فاقہ کشوں کی جس طرح مدد کی ہے – گودی میڈیا کی شرارت اور مسلمانوں کے خلاف اس کی منفی رپورٹنگ کے باجود-پورے ملک بلکہ عالم میں اُس کی بازگشت سنی گئی۔ مہاراشٹرا کے وزیراعلی نے 2021ء مارچ کے آواخر میں مسلمانوں کی اس موقع پر خدمات کی سراہنہ کی۔یہ سب فرد وجماعت کے توطن اور توطن کے ساتھ اپنے گھر، بستی، علاقہ اور آ بادی میں رہنے یاآبادی سے گزرنے والے حاجتمندوں کی امداد ونصرت کے بارے میں اسلام کی تعلیمات کا اثر ہے۔جس سے معاشرے میں جوڑ،مرافقت، معاونت کی فضاپیدا ہو تی ہے۔
ترتیب:محمد فاروق قاسمی،
مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی، ضلع:شاجاپور،ایم پی۔
7جمادی الاوّل 1443ھ،
12دسمبر2021ء
جاری۔۔۔۔۔
Comments are closed.