اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم( قسط4)

بقلم:مفتی محمد اشرف قاسمی

دارالافتاء:مہدپور،اجین ایم پی

جغرافیائی وسیاسی لحاظ سے وطن

شریعت نے سیاسی و جغرافیائی لحاظ سے وطن کو جان وزندگی کے متوازی قرار دیا:
وَلَوْأَنَّا کَتَبْنَا عَلَیْھِمْ أَنِ اقْتُلُواأَنْفُسَکُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِیَارِکُمْ مَا فَعَلُوہُ إِلَّا قَلِیلٌ مِنْھُمْ(66) النساء
”اگرہم نے ان پریہ فرض کی ہوتی کہ اپنے آپ کو قتل کرڈالو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ، تو ان میں سے کچھ ہی لوگ ایسا کرتے۔“(66) النساء

شریعت نے وطن سے بے دخل کیے جانے پر جنگ کی اجازت اورحکم فرمایاہے۔
أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُواْ وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِھمْ لَقَدِیر(39) الَّذِینَ أُخْرِجُواْ مِن دِیَارِھم بِغَیْرِ حَقٍّ إِلاَّ أَن یَقُولُواْ رَبُّنَا اللَّہ ُوَلَوْلاَ دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیھَا اسمُ اللَّہِ کَثِیراً وَلَیَنصُرَنَّ اللَّہُ مَن یَنصُرُہُ إِنَّ اللَّہَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ(40) الَّذِینَ إِنْ مَّکَّنَّاھُمْ فی الأرض أَقَامُواْ الصّلاۃَ وَآتَوُاْ الزَّکَاۃَ وَأَمَرُواْ بِالْمَعْرُوفِ وَنَھَوْاْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَۃُ الأمور(41)حج
”(اے مسلمانو!) ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دی جاتی ہے، جن سے جنگ کی جا رہی تھی، کیوں کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے، اور یقینا اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے(39) یہ وہ لوگ ہیں جن کو ناحق صرف اس وجہ سے ان کے گھروں سے نکالا گیا کہ وہ کہاکرتے تھے: اللہ ہی ہمارے رب ہیں، اگروہ اللہ تعالی ایک کے ذریعہ دوسرے کے زور کونہ گھٹواتے تو خانقاہیں، عبادت خانے اور مسجدیں ڈھادی جاتیں، جن میں کثرت سے اللہ کا نا م لیاجاتا ہے، اورجواللہ کی مدد کرے گا، اللہ بھی ضرور اس کی مدد فرمائیں گے، بے شک اللہ بڑی قوت والے اور بڑے غلبہ والے ہیں (40) یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں حکومت عطاکردیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوۃ ادا کریں گے، بھلائی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے“(41)حج

*اسلامی ریاست اور وہاں کے متوطن*

جدید سیاسی اصطلاح کے مطابق جائے رہائش کے ساتھ کسی ریاست کے زیرانتظام جملہ علاقے کو مواطن کا وطن کہاجاتا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے اسلامی ریاست کے لیے مزید دو اضافے کیے ہیں۔

*اول:اسلامی ریاست دنیاکے تمام مسلمانوں کا وطن*

مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی ملک و ریاست میں رہتا ہوں، مذہبی اشتراک کی بنیادی پر وہ مسلم ریاست کا مواطن ہے۔ الدکتور حسن السید خطاب(استاذ الدراسات الا سلامیۃ کلیۃ الآداب جامعۃ المنوفیۃ- مصر) لکھتے ہیں:
”جعل الاسلام حدود المواطنۃ فی الاسلام اوسع من الحدود الجغرافیۃ الا قلیمیۃ الضیقۃ للوطن الا سلامی، ویکون کل فر د مسلم او معاھد مواطناً،لانہ عضو من الا مۃ الا سلا میۃ، لہ کل الحقوق، وعلیہ کل الواجبات فالمسلم لیس لہ وطن مخصوص، وکل البلاد الاسلامیۃ ھی وطن المسلم وان حبہ للوطن بالمعنی الاقلیمی الضیق لا یمنع من حبہ للامۃ الا سلامیۃ بصفۃ عامۃ، فالموا طنون فی الوطن الضیق شرکاء فی المغانم والمغارم، وھی الدائرۃ الا ولی، ثم تتسع الدائرۃ من ا جل تحقیق وحدۃ المسلمین وقوتھم وصون عزتھم وکرامتھم لتشتمل جمیع الا مۃ الا سلامیۃ…،
”اسلام نے اسلامی وطن کو، جغرافیائی حکومتی دائرہ حدودمیں تنگ وطن کی بہ نسبت کافی وسیع وکشادہ بنایاہے۔ جہاں (رہائش اختیارکرکے)ہر مسلمان یا معاہد مواطن(بن سکتا) ہے۔ کیونکہ وہ امت اسلامیہ کا ایک حصہ ہے، اس کو تمام حقوق ومراعات حاصل ہوں گے، اور اس پر تمام واجبات لازم ہوں گے، تو(اسلام میں)ریاستی لحاظ سے مسلمانوں کا کو ئی مخصوص وطن نہیں ہے۔ بلکہ ہر اسلامی شہر مسلمانوں کاوطن ہے، عام حالا ت میں اس وسیع اسلامی وطن کی محبت حکومتی لحاظ سے جغرافیائی دائرے میں محدود تنگ وطن کی محبت کے منافی نہیں ہے۔ البتہ حکومتی لحاظ سے جغرافیائی دائرے میں محدود تنگ وطن کے باشندے(حکومتی، فوجی،انتظامی امور میں خدمات کی وجہ سے) غنائم اور تاوان (ٹیکس وغیرہ)میں شریک ہوں گے۔ یہ پہلا حلقہ ہے۔ پھر اس کے بعد مسلمانوں کی وحدت اوران کی قوت، اور ان کی عزتوں کی حفاظت اور ان کی شرافت کی وجہ سے یہ حلقہ وسیع وکشادہ ہوجاتا ہے۔ تاکہ تمام مسلمان اس میں شامل ہوجا ئیں۔“
(حقوق المواطنۃ وواجباتھا فی ضوء الکتباب والسنۃ،الدکتور حسن السید خطاب شریک الا شاعۃ:بحوث العلماء العرب،ص263/ایفا دلھی2014ء)

*اسلام تیرادیس ہے*

اسلام میں سیاسی وجغرافیائی حدود سے آ گے بڑھ کر ہراسلامی ملک مسلمانوں کا وطن ہے۔الدکتور رشیدکھوس(استاذ: بکلیۃ اصول الدین بتطوان، جامعۃ القرویین- المغرب، رئیس مرکز آ ل عمران للدراسات والبحوث فی فقہ الا سرۃ والتعبیرا ت المعاصرۃ، رئیس مجموعۃ البحث فی السنن الا لھیۃ فی القرآ ن والسنۃ والتاریخ بکلیۃ اصول الدین بتطوان، عضو لاتحاد العالمی لعلما المسلمین، وعضو الھیءۃ العامۃ لفعالیۃ محمد رسول اللہ ﷺ الدولیۃ) لکھتے ہیں:
”والا صل فی الاسلام ان دار الا سلام وطن واحد لکل المسلمین، فلا یجوز تقیید حق المسلم فی التنقل بین انحائھا المختلفۃ او اللجوء الیھا، وانما یجب علی کل وطن اسلامی ای یسمح بدخول کل مسلم یلجاء الیہ ویحتمی بہ، دون التقیید بحدود سیاسیۃ۔
”اصل یہ ہے کہ اسلام میں تمام مسلمانوں کے لیے دارالاسلام وطن ہے، تو کسی مسلم ریاست کو مختلف علاقوں میں منتقل ہونے یا وہاں مسلمانوں کو پناہ لینے کے لیے داخلے پر کوئی قید(پابندی) لگانا جائز نہیں ہے۔ اور یقینا ہراسلامی وطن(ریاست) پر واجب ہے کہ بغیر کسی سیاسی و جغرافیائی پابندی کے اپنے یہاں مسلمانوں کے داخلے اور مسلم ریاست میں پناہ لینے والے ہر مسلمان کو سہولیات فراہم کرے اوراپنی ریاست میں پناہ گزیں مسلمانوں کی حفاظت کرے۔“
(حقوق المواطنۃ واللجواء فی ضوء السیرۃ النبویۃ مقارنۃ بالقانون الدولی، شریک الا شاعۃ:بحوث العلماء العرب،ص247/ایفا دلھی2014ء)
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے، تو مصطفوی ہے

ترتیب:
*محمد فاروق قاسمی،*
*مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی،* ضلع:شاجاپور،ایم پی۔
15جمادی الاوّل 1443ھ
20دسمبر2021ء
جاری۔۔۔۔۔

Comments are closed.