خلافتِ عثمانیہ کوختم کرنے والےمسجداقصی اورحرمین کے لیے بڑاخطرہ

*
بقلم: مفتی محمداشرف قاسمی
دارالافتاء:مہد پور،اُجین،ایم۔پی
مسلمانوں اورعالم اسلام کوہمیشہ خطرات کا سامنا رہاہے،اسی لیے انتم علی ثغردائم فرمایا گیا ہے۔ لیکن مسجد اقصی کو جس قسم کے خطرات کاسامناہے وہ تمام خطرات واندیشوں سے قوی تروپُرفتن ہیں۔ مسجد اقصی، ارض قدس اور مسجد اقصی کی طرف منسوب ہوکراسلام اور مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والی تحریکیں وسازشیں پورے عالمِ اسلام پراثرانداز ہو رہی ہیں اورہوتی رہیں گی۔ اس لیے امت مسلمہ کے ہرفرد کو مسجد اقصی کو لاحق خطرات کے مواجہہ و مقابلہ کے لیے جدوجہد کرنا ضروری اوردنیا و آخرت میں سرخ روئی وسربلندی کا ذریعہ ہے۔ اختیار واقتدار کے باوجود مسجد اقصی کو لاحق خطرات کی روک تھام میں تساہل وتغافل اور سستی اختیارکرنا دینی ودنیا وی نقصان وخسارہ کی واضح علامت ہے۔ اس لیے ذیل میں مسجداقصی کولاحق خطرات کے اہم پہلوؤں پرروشنی ڈالی جارہی ہے؛تاکہ ہم حسبِ وسعت ان خطرات کو فرو کرنے کی جد وجہد میں شریک ہوکر سعادتِ دارین کے حقدار بن سکیں۔ اب ذیل میں ترتیب وار مسجد اقصی کے خطرات شمار کرائے جاتے ہیں۔
1.سلطان عبدالحمید ثانی ؒ نے سلطنت سنبھالنے کے بعد حکومت کو منظم کیا، عثمانی دستور بنایا، پارلیا منٹ کانظام تشکیل دیا،شوری قائم کی،عربوں کو حکومت میں شریک کیا، لیکن اصل کنٹرول ترکوں کے ہاتھ میں رہا، فلسطین کی جانب یہودیوں کی مسلسل ہجرت کوروکنے میں ان کا اہم رول رہاہے۔ کیوں کہ انھوں نے ایسا قانون بنایا جس کے مطابق عثمانی سرزمین کی جانب یہودیوں کی اجتماعی ہجرت ممنوع قراردی گئی تھی۔ ان میں سے زائر کی حیثیت سے آنے والے کو فلسطین مین تین ماہ سے زائد اقامت اختیار کرنے کو بھی ممنوع قراردیا تھا۔ یہ قانون انفرادی طور پر آ نے والوں کے لیے بھی تھا۔
جب عثمانی یونانی جنگ کا آغاز ہوا اورعثمانی حکومت کمزور پڑگئی اس وقت ہرزل نے یورپ کے لاکھوں یہودیوں کو متحرک کیا اور ”فیینا“میں عثمانی سفیرکے ذریعہ سلطان عبد الحمدثانیؒ(1258ھ،1842ء-1336ھ،1918ء) کو یہود کی جانب سے بہت رشوت کی پیش کش کی گئی، تاکہ یہودیوں کو فلسطین کی جانب ہجرت کی اجازت مل جائے۔”ایمانویل قرہ صو“ نامی ایک سرگرم اورعیار یہودی کوسلطان عبدالحمید ثانی کی خدمت میں بھیجا گیا۔جس نے انھیں یہودیوں کی طرف سے یہ پیش کش کی کہ:اگر عالی جاہ سلطان فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کی اجازت مرحمت فرمادیں توصہیونی تحریک، خلا فت عثمانیہ کو پچاس ہزار کروڑ پاونڈ اور بہ طو رخاص عا لی جاہ کے ذاتی خزانے کے لیے مزید پچاس لاکھ پاؤنڈ دینے کے لیے بہ سرو چشم تیار ہے۔ مالی مشکلا ت وبحران کے وباجود سلطان عبدالحمید کاجواب نہایت واضح اور دوٹوک تھا۔ انھوں نے ہرقسم کی پیشکش کو یہ کہتے ہو ئے ٹھکرا دیا:
”ڈاکٹرہرزل سے جاکے کہہ دو کہ اس سلسلے میں آج کے بعد کوئی سلسلہ جُنبانی نہ کرے؛کیونکہ میں ہرگز دوسروں کو دینے کے لیے ارضِ مقدس کے ایک بالشت سے بھی دست بردار نہیں ہو سکتا، ارض فلسطین میری ملکیت نہیں؛ بلکہ میری قوم ِمسلم کی ملکیت ہے، جس نے اپنے لہو سے اس کی خاک کو سینچا ہے،یہودی اپنی لاکھوں کی رقم اپنے پاس رکھیں۔“ (مولاناحذیفہ ابن مولانا غلام محمدصاحب وستانویؔ،اداریہ:رسالہ شاہراہ علم شمارہ3-2،جلد7جمادی الاولی والا خری 1439ھ، فروری،مارچ 2018ء،ص34بحوالہ:رسالہ التبیان، قاھرہ،شمارہ 38/ جلد4/ ص24/ کالم 3/ مضمون ریاست عثمانیہ، دور فاتحین، بہ قلم ڈاکٹررضا طیب)
یہودی رشوت کو ٹھوکرادینے کے پاداش میں یہودیوں نے خلیفہ عبد الحمیدکوسزادینے اورخلا فت کو ختم کرنے کے لیے محکم ودوررس منصوبہ بندی کی۔ فلسطین پرقبضہ کرکے اسرائلی یہودی ریاست کے قیام کے سلسلے میں ہرزل کے یہ الفاظ بہت ہی اہمیت رکھتے ہیں:
”فلسطین میں یہودیوں کے لیے، اہل مشرق کی طرف سے دروازوں کے واہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ خلا فت عثمانیہ کاخاتمہ ہو۔“(مولانا حذیفہ ابن مولاناغلام محمدصاحب وستانویؔ،اداریہ: رسالہ شاہراہ علم شمارہ3-2، جلد 7۔ جمادی الاولی والا خری1439ھ، فروری، مارچ 2018ء،ص33/بحوالہ:فتوی علماء المسلمین،ص10/)
چنانچہ سلطان عبدالحمید کے خلاف یہودیوں نے سازشوں کاجال بننے اور اس کوصفحۂ ہستی سے مٹانے کا منصوبہ بنانا شروع کردیا۔ جس کے نتیجہ میں ترکی کے اندر سے ہی ایک یہودی تحریک’’انجمن اتحاد وترقی“ کے ذیعہ کوشاں ہو گئے۔ (اس انجمن کے لیڈروں میں ”مصطفی کمال اتاترک“ بھی تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران یہ اولاً غازی کے لقب سے مشہور ہوا۔ اور اس پر مسلمانوں کا اعتماد کافی بڑ ھ گیا۔) ”انجمن“ ترکی کی پارلیامنٹ کے توسط سے عثمانی لیڈروں کی ایک تعدادکو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہوگئی، قلیل مدت کے بعد یہ انجمن اقتدار تک پہونچ گئی اور سلطان عبدالحمید ثانیؒ کو معزول کردیا۔
(ملخصاًمِن”بیت المقدس اورفلسطین،حقائق وسازشوں کےآئینہ میں“،صفحات81-82 عنایت اللہ وانی ندوی)
یہودیوں کی ہجرت کے بارے میں عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانیؒ کے موقف اوریہودیوں کی پیشکش کو ٹھکرادینے سے یہ بات مؤکد ہوگئی کہ عثمانی حکومت فلسطین پر کسی ناجائز قبضہ کی اجا زت دینے کے لیے تیار نہیں۔اس لیے اولاً انھوں نے خلافت عثما نیہ کو تاراج اور ختم کرنے کا جو منصوبہ بنایا اس میں عرب وعجم کی تفریق کے لیے عرب کو عجم پر فضیلت و برتری کاتصور عربوں میں عام کیا، اورعربوں سرداروں کے دماغ میں یہی نہیں کہ ان یہودیوں کی بات بیٹھ گئی بلکہ انھوں نے خلافتِ عثمانیہ کے قلمرو میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک خلافت سے آزادی اوراپنی حکومتوں کے قیام و استقلال کے لیے خونی تحریکیں شروع کردیں۔ اس سارے فساد وطوفان کو کھڑا کرنے کے لیے یہودیوں نے اسلامی چوغوں میں ملبوس ہوکر عربوں کی معاونت سے یہی نہیں کہ خلافتِ عثما نیہ کوختم کرنے میں کامیابی حاصل کی بلکہ عرب حکمرانوں سے مذہبی حمیت،دینی فکر اور اخوۃ اسلامی کو بھی کھرچنے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا۔
خلافت کے خاتمہ کی تحریک میں کلیدی ذمہ داری یہودیوں کی ماسونی تحریک اور ڈونمہ یہودیوں نے اداکی۔ اس نے ”انجمن اتحاد وترقی“ قائم کرکے ترکی میں انتشار وبگاڑ پیدا کیا اور آخرمصطفے کمال اتاترک کے ذریعہ خلا فت کے خا تمہ میں کامیا ب ہو گئی۔
دوسری طرف انگریزوں نے اس سلسلے میں بھرپور کردار ادا کیا؛جنہوں نے عرب کو عثمانی سلطنت کے خلاف یہ کہہ کر اُکسایا کہ عثمانی تمہاری زبان، تمہارے کلچر اور تمہاری تہذیب کے حوالے سے امتیازی برتاؤ کررہے ہیں جو کہ عثمانیوں کے خلاف سراسر بہتان تھا۔ اس سازش کا ایک اہم حصہ، اس مشن کے ایک انگریزی فوجی افسر اور صا حب قلم لو رینس((Lawwrensce(1888ء1935ء) نے بڑی محنت، ہوشیاری اور لگن سے انجام دیا۔ یہ شخص انگریزوں اور عربوں کے درمیان رابطہ افسرتھا۔ اورعربوں میں برطانیہ کا انٹلی جنس کمشنر تھا۔ جنگِ عظیم اول اور اس کے بعد امیر مکہ شریف حسین(1270ھ،1854ء-1350ھ،1931ء) کی اِمارت کے علاقوں میں بر سرعمل رہا۔ 1916ء تا1918ء تک بہ طور خاص اُ س نے عربوں کو ترکوں کے خلاف بھڑکانے کا فریضہ اِس شدومد کے ساتھ انجام دیا کہ عالمی صحافت میں اُس وقت اس کا نام ہی ”عربوں کا بے تاج باد شاہ“ پڑگیا تھا۔ اس نے واضح طو پر اعلان کیا تھا کہ:
”ہمارا بنیادی مقصد ہی، اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کرنا اور سلطنتِ عثما نیہ کی بٖیخ کَنی کرناہے“
نیزاس نے صاف صاف کہا تھا کہ:
”اگر ہم عربوں کوترکوں سے اپناحساب بہ یک وقت او رسختی کے ساتھ بے باق کرنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو ہم ہمیشہ کے لیے اسلام کے خطرے کا سدباب کرلیں گے۔ اِس طرح ہم مسلمانوں کو اپنے(آپس میں ایک دوسرے کے) خلاف لڑنے اور داخلی انتشار پر آمادہ کردیں گے۔ اوروہ خانہ جنگی کا شکار ہوجائیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ترکی میں مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہوگا اور اسلامی عربی دنیا میں دوسرا ہوگا۔ دونوں مذہبی خانہ جنگی میں مصروف رہیں گے۔ اس کے بعد ہمیں اسلام سے کوئی خوف کبھی نہ ستائے گا۔“
(مولاناحذیفہ ابن مولانا غلام محمدصاحب وستانویؔ،اداریہ: رسالہ شاہراہ علم،ص42/ شمارہ2-3، جلد7جمادی الاولی والاخری 1439ھ، فروری، مارچ 2018ء)
الغرض خلافتِ عثما نیہ کا خاتمہ یہودیوں کی بڑی فتح اورخلافت کے قیام سے غفلت مسلمانوں کی نکبت وپستی، شکست کی علامت اور مسجد اقصی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے میں اہم کردارادا کرنے والے ادارے اورحکمراں (خواہ وہ خادم الحرمین کے لقب سے ملقب ہوں یا کسی اورمقدس نام سے موسوم ہوں) آج بھی یہودیوں کے دست وبازو بن کر فلسطین اورمسجد اقصی کے لیے خطرہ ہیں۔۔۔
میری یہ تحریر "مسجد اقصی کو لاحق خطرات” کے تحت لکھے مقالہ کاحصہ ہے، جو قسط وار سوشل میڈیا پر سینڈ ہوچکی ہے۔اس کی آٹھویں قسط ہے۔
آج جب کہ جزیرۃ العرب میں
تبلیغی جماعت جیسی دین کی مخلص داعی غیر سیاسی،غیر عسکری تنظیم
پرپابندی لگانے کی نامسعود کوششیں کی جارہی ہیں،ایسے موقع پر دوبارہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پراس تحریرکوسینڈ کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ:
جنہوں نے اپنی عیاشی کے لیے خلافتِ عثمانیہ کو ختم کیا۔
جنہوں نے علاقہ ونسل کی بنیاد حدودحرم میں عثمانی مسلمانوں کوقتل کیا۔
جنہوں نے اپنوں کے مقابل یہودیوں کی معاونت ومرافقت اختیار کی۔
جنہوں نے جزیرۃ العرب کانام بدل کراپنے باپ دادا کے نام سے اسے موسوم کردیا۔
اورجنہوں نے حجاز اورارض حرم کے تقدس کو پامال کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا۔
آج اگرانہوں نے اپنے قلمرو میں اپنی عیاشی اور آزادروی کے لیے تبلیغی جماعت پر پابند لگائی تو یہ کوئی تعجب کہ بات نہیں ہے۔
ضرورت ہےکہ تبلیغی جماعت پر پابند لگانے والوں کا مکروہ چہرہ امت کے سامنے لایاجائے۔ خاص نوعمر اورہم جیسے افرادجو کسی ادارے سے نہیں مربوط ہیں وہ پوری قوت وشدت کے ساتھ بن سلمان اور دیگردجالوں کا تعاقب واحتساب کریں۔
اللھم ارنا الحق حقا وارزقانا اتباعہ، وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔ آمین ثم آمین
کتبہ:محمداشرف قاسمی۔
خادم الافتاء:شہرمہدپور، اجین،ایم پی۔
15/دسمبر2021ء
Comments are closed.