روپوش مرکزی وزیرٹینی کب تک خیر منائیں گے ؟

ڈاکٹر سلیم خان
لکھیم پور کھیری معاملے میں ملزم آشیش مشرا کے باپ اور وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا ٹینی کا نام فی الحال ایوان کے سرمائی اجلاس میں خوب گونج رہا ہے مگر وہ گدھے کے سر سے سینگ کی مانند غائب ہیں ۔ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی با ر کوئی مرکزی وزیر اس طرح روپوش ہواہے اور اس سہرا وزیر اعظم مودی کے سر بندھتا ہے۔ حزب اختلاف ایوان سے سڑک تک موصوف کے استعفیٰ کا مطالبہ کررہا ہے اور وہ نہ جانے کسی غار میں منہ چھپاے بیٹھے ہیں ۔ کسی مرکزی وزیر کی اس سے پہلے یہ درگت نہیں ہوئی ہوگی ۔ کانگریس کا مطالبہ ہے کہ لکھیم پور کھیری میں ہلاک ہونے والے کسانوں کے اہل خانہ کو انصاف مہیا کرنے کے لیے وزیر اعظم اپنے چہیتے وزیر مملکت برائے داخلہ کو برطرف کریں ۔ حزب اختلاف نے ٹینی کے برخواستگی کی خاطر پارلیمنٹ میں گاندھی مجسمہ سے وجے چوک تک جلوس نکالا۔ پچھلے ہفتہ اس کا پتلا بھی جلایا گیا تھا اس کے باوجود بی جے پی تحقیقات کا بہانہ بنا کر انتظار کرنے کی دہائی دے رہی ہےلیکن کم ازکم وزیر اعظم مودی اور امیت شاہ نے اپنی سرکاری تقریبات سے ٹینی کو دور کردیا ہے۔
بی جے پی اور اجئے مشراکے ستارے فی الحال گردش میں ہیں۔ ویسے برا وقت تو ہر کسی کا آتا ہے مگراجئے مشرا کی شامت وزیر اعظم مودی کے لیے بہت برے وقت میں آئی۔ وزیر اعظم جس دن وارانسی میں دن بھرکیمرے کے سامنے پوجاپاٹ سے فارغ ہونے کے بعد وارانسی ہی میں وزرائے اعلیٰ کے ساتھ آئندہ صوبائی انتخاب کی حکمت عملی بنانے کے لیے براجمان ہوئے ہی تھے کہ ایس آئی کی رپورٹ نے ان کے سارے دھرم کرم پر پانی پھیر دیا۔ دنیا کے سارے شہریوں کو بشمول وزیر اعظم اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کا حق ہے۔ اس لیے اگر وزیر اعظم پوجا پاٹ کریں تو اس پر اعتراض کرنا درست نہیں ہے لیکن الیکشن سے پہلے ٹیلی ویژن کیمرے کے سامنے پاکھنڈ کرکے اس کا انتخابی فائدہ اٹھانے کی کوشش کسی رہنما کو زیب نہیں دیتی ۔ ایسا کرنے سے مذہب کا بھی استحصال ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نے چونکہ اسی غلطی کا ارتکاب کیا ہے اس لیے ہندو مذہب کے پیروکاروں کو چاہیے کہ وہ ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کرنے والوں کو الیکشن میں سبق سکھائیں ۔
لکھیم پور کھیری سانحہ کی جانچ کرنے والی ایس آئی ٹی نے اپنی تحقیقات میں پایا کہ کسانوں کو گاڑی سے کچلنے کا واقعہ کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک منصوبہ بند سازش کا حصہ تھا۔ اس انکشاف کے بعد مجبوراً ایس آئی ٹی کو ملزمان پر لگائی جانے والی دفعات کو بدلنا پڑا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرکزی وزیر کے بیٹے کو بچانے کی خاطر جو چور دروازہ رکھا گیا تھا اب وہ بند ہوگیا ہے۔ایس آئی ٹی کے مطابق آشیش مشرا سمیت 14 ملزمان پر اب غیر ارادتاً قتل کی جگہ عمداًقتل کا مقدمہ چلے گاکیونکہ اب ان پر دانستہ طور پر منصوبہ بنا کر جرم کرنے کا الزام عائد کردیا گیا ہے۔ لکھیم پور کا یہ قتل عام تین اکتوبر کو ہوا تھا اور اس میں مظاہرے سے لوٹتے والے چار کسانوں کو ایک ایس یو وی نے روند دیا تھا۔ اس واقعہ پانچ دن بعد سپریم کورٹ میں پہلی سماعت ہوئی اور اس کے اگلے دن 9؍ اکتوبر کو آشیش مشرا عرف مونو کی گرفتاری عمل میں آئی۔ عام طور بارسوخ لوگوں کے معاملے پہلے جو سخت دفعات لگائی جاتی ہیں انہیں آگے چل کر نرم کردیا جاتا ہے لیکن فی الحال الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ایس آئی ٹی کے افسر ودا رام دیواکر نےواضح کیا کہ وہ لاپروائی سے گاڑی چلانے کے سبب حادثاتی موت کا نہیں بلکہ سوچی سمجھی سازش کے تحت بھیڑ کو کچلنے، قتل کرنے، نیز شدید چوٹ پہنچانے کی سازش کا معاملہ ہے۔
ایس آئی ٹی کے ان انکشافات کے بعد لامحالہ پندرہ اکتوبر کو مرکزی وزیر مملکت برائے امورِ داخلہ اور مقامی رکن پارلیمان اجئے مشرا ٹینی کا اپنے بیٹے آشیش مشرا کے بچاو میں کیا جانے والا دعوی بے معنیٰ ہوگیا ہے کہ جس میں انہوں نے کہا تھا ان کا بیٹا موقع واردات پرموجود ہی نہیں تھا ۔اجئے مشرا نے کذب بیانی سے کام لیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ان کا بیٹا تو موقع واردات سے تین کلو میٹر دور دنگل کے پروگرام کی تیاریوں میں مصروف تھا اور اس کا اس جھڑپ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ ایس آئی ٹی کی تفتیش نےاجئے مشرا کے اس جھوٹ کی قلعی کھول دی ہے کہ مذکورہ واقعہ کی ویڈیوزمیں ان کے بیٹے کی موجودگی کاکوئی ثبوت نہیں ہے ۔ اب امیت شاہ کو اپنے نائب کی عینک کا نمبر بدلوا دینا چاہیے کیونکہ ایس آئی ٹی کو تو ثبوت مل گئے ہیں۔ مشرا جی نے قانون پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے بیٹے مونو کو سازش کے تحت پھنسایا جارہا ہے ۔ اس کے برعکس ایس آئی ٹی کا دعویٰ ہے کہ منصوبہ بند سازش کے تحت گاڑی چڑھائی گئی تھی۔
ایس آئی ٹی نے شواہد کی بنیاد پر جو رپورٹ پیش کی ہے اس کی روشنی میں مشرا جی کی یہ منطق بھی مسترد ہوگئی کہ ہزاروں کی بھیڑ میں کوئی چند کسانوں کو روند کر بچ نہیں سکتا اور اگر ان کا بیٹا کار میں ہوتا تو کسانوں کے ہتھے چڑھ جاتا۔ مرکزی وزیر کی کسانوں کو دی جانے والی دھمکی اور اس کے بعد اپنے بیٹے کو بچانے کی خاطر پہ درپہ کوشش یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ کہیں نہ کہیں اس سازش کا حصہ ہیں۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ خود انہوں نے کسانوں کو سبق سکھانے کے لیے اپنے بیٹے کو بھیجا یا اگر بیٹا از خود اپنے والد کی توہین کا انتقام لینے کے نکل کھڑا ہوا تو موصوف نے اپنے قاتل بیٹے کو بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ ان دونوں صورتوں میں انہیں فوراً استعفیٰ دے دینا چاہیے اور اگر نہیں دیتے تو نکال باہر کیا جانا چاہیے۔ اجئے مشرا نے کہا تھا کہ اصلی گنہگاروں کو ان کے کئے کی سزا دلانے کی خاطر وہ اور ان کا بیٹا تفتیشی اداروں کا ہر ممکن تعاون کرے گا۔ وزیر باپ اورہونہار بیٹے کے تعاون سے تیارکردہ رپورٹ سب کے سامنے ہے۔ اجئے مشرا کی وہ ڈینگ کہ اگر آشیش کی موجودگی ثابت ہوجائے تو وہ استعفی دے دیں گے تقاضہ کرتی ہے کہ اب اپنا راستہ ناپ لیں ورنہ ان پر بھی لوگ غالب کا بڑے بے آبرو ہوکر نکلنے والا شعر پڑھنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
اجئے مشرا اگر بھارتیہ جھوٹی پارٹی کے علاوہ کسی اور سیاسی جماعت میں ہوتے تو کب کا نکال باہر کیے جاتے۔ صحا فیوں کے ساتھ بدتمیزی کے بعد جب اجئے مشرا ٹینی کو دہلی بلایا گیا تو اس بات کا امکان روشن ہوگیا کہ ان کو باہر کا راستہ دکھا دیا جائے گا کیونکہ پچھلے دنوں بی جے پی نے کئی وزرائے اعلیٰ کی چھٹی کردی گئی تھی۔ اس کے بعد خبر آ ئی کہ بی جے پی والوں نےان کی سرزنش تو کی مگر یہ کہہ دیا کہ بیٹے کی سزا باپ کو نہیں دی جاسکتی ۔ اس ڈھٹائی پر ہنسی کے ساتھ رونا بھی آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ باپ اپنے بیٹے کو قصور وار مانتا ہے؟ وہ تو اب بھی اسے بی جے پی کا کارکن اور اپنا سیاسی وارث کہتاہے۔ اس کے خیال میں میڈیا نے ایک بے قصور آدمی کو بلاوجہ پھنسا دیا ہے۔ کوئی اگر اس کے بارے میں کچھ پوچھے تو گالیاں بکتا ہے اس کو مارنے دوڑتا ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کے بارے میں یہ جھوٹ کہا تھا کہ وہ جائے واردات پر موجود ہی نہیں تھا۔ قتل کے لیے اجئے ٹینی کی گاڑی کا استعمال ہوا۔ اس نے گرفتاری سے قبل آشیش کو اپنی پناہ میں رکھا اور جیل میں اس کی مزاج پرسی کے لیے پہنچ گیا۔ کیا ان سارے قصوروں کے بعد وہ اس معمولی سزا کا بھی مستحق نہیں ہے کہ اسے وزرات سے محروم کردیا جائے؟ مذکورہ غلطیاں آشیش نے نہیں بلکہ اجئے نے کی ہیں ۔
اتر پردیش میں اگر حزب اختلاف کی حکومت ہوتی تو یہ کہہ دیا جاتا کہ ریاستی سرکار کے تحت کام کرنے والی ایس آئی ٹی نے زبردستی بی جے پی کے مرکزی وزیر کو اسی طرح پھنسایا ہے جیسے کہ بی جے پی والے اپنے مخالفین کو ہراساں کرتے ہیں لیکن وہاں تو یوگی کا اقتدار ہے۔ اس کے باوجود یہ چمتکار کیسے ہوگیا ؟ یہ بہت بڑا سوال ہے؟ کیا یہ سپریم کورٹ کی نگرانی کے سبب ممکن ہوسکا یا مودی اور شاہ کی مہابھارت کا نتیجہ ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ویسے اس معاملے میں کہیں نہ کہیں یوگی اور شاہ کی خانہ جنگی کا عمل دخل ضرور ہے کیونکہ اجئے مشرا ٹینی وزیر داخلہ کے دست راست ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ مودی جی کے دو ولیعہد ایک دوسرے پر برتری ثابت کرنے کے لیے وزیر اعظم کی شبیہ خراب کرنے پر تل گئے ہیں ۔ مودی جی اس بار کاشی سےاپنا دامن پاک کر کے نہیں بلکہ اس پر بہت بڑا سیاہ دھبا ّ لگاکردہلی لوٹے۔
بی جے پی ا جئے مشرا کا بچاو کرنے پر کیوں مجبور ہے اس کی کئی سیاسی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے اجئے مشرا کو اگر اب ہٹایا گیا تو اس کا کریڈٹ راہل گاندھی اور کانگریس کو ملے گا ۔ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کسانوں کے بعد راہل نے بھی مودی کو جھکا دیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ امیت شاہ پر یوگی کی برتری ثابت ہوجائے اور پھر اتر پردیش پر مودی کی پکڑ کمزور ہوجائے گی ۔ اس کے علاوہ ایک اہم وجہ برہمن ووٹر کی ناراضی ہے۔ وکاس دوبے سے اےکے شرما تک یوگی نے برہمنوں کو خوب ناراض کیا ہے ۔ اس ناراضی کو کم کرنے کی خاطر پچھلی بار اجئے مشرا ٹینی کو وزیر بنایا گیا تھا ۔ اس کو ہٹا دیا جائے تو براہمن یا تو کانگریس کی جانب نکل جائیں گے یا سماجوادی میں چلے جائیں گے۔ ہر دو صورت میں بی جے پی کا نقصان ہوگا ۔ یہ سارے اسباب اجئے مشرا کی حفاظت کررہے ہیں لیکن بکرے کی اماں کب تک خیر منائے گی ۔ بی جے پی کو اپنی بھرپور رسوائی کراچکنے کے بعد ان کو استعفیٰ دینے کے لیے کہنا ہی پڑے ۔ یہ لاتوں کے بھوت بالآخر وہی کریں گے جو کسانوں کے معاملے میں کیا۔
Comments are closed.