اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم ( قسط5)

بقلم:مفتی محمد اشرف قاسمی

دارالافتاء:مہدپور،اجین ایم پی

علاقہ، نسل،رنگ کی بنیاد پرکسی انسان کودوسرے پر فضلیت نہیں
علاقہ،نسل، خاندان یار نگ کی بنیاد پر کسی انسان کو کسی دو سرے انسان پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔بلکہ کردار کی خوبی وکمال انسان کی عزت وافتخار کا باعث ہے۔اللہ تعالی کا رشاد ہے:
یَا أَیُّھَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَیٰ وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ(13) الحجرات
”اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد وعورت سے پیداکیاہے اور مختلف خاندان اور کنبے بنادیئے؛ تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، یقیناً اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے، جو سب سے زیادہ تقوی والا ہو، یقیناًاللہ بہت جاننے والے اور باخبر ہیں۔“(13) الحجرات
یا أیُّھا الناسُ إنَّ ربَّکمْ واحِدٌ ألا لا فضلَ لِعربِیٍّ علی عجَمِیٍّ ولا لِعجَمِیٍّ علی عربیٍّ ولا لأحمرَ علی أسْودَ ولا لأسودَ علی أحمرَ إلَّا بالتَّقوَی إنَّ أکرَمکمْ عند اللہِ أتْقاکُمْ
(أبو نعیم فی ’حلیۃ الأولیاء‘ج3/ص100، والبیہقی فی ’شعب الإیمان‘برقم الحدیث5137،مسند احمد ج12/ص226)
”رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اے لوگو! یقینا تمہارا رب ایک ہے، اور سن لو کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پراور کسی گورے کوکسی کالے پر اورکسی کالے کو کسی گورے پرکو ئی فضیلت وبرتری نہیں حاصل ہے۔ مگرہاں تقوی کی بنیاد پر ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہوسکتی ہے۔ یقنیا اللہ کے نزدیک تم میں وہ شخص زیادہ عزت والاہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔“ (حلیۃ الأولیاء‘ج3/ص100، والبیہقی برقم الحدیث5137،مسند احمد ج12/ص226)

*مدینہ میں باہری طلباء کے لیے صفہ کا اقامتی مدرسہ*

رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرما نے کے بعد یہاں مسجد نبو ی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کے ایک گوشہ میں صفہ چپوترہ پر غیر مقامی یعنی مہاجرصحابہؓ کی تعلیم وتربیت کے لیے اقامتی مدرسہ(Residential School) قائم فرمایا:
”بلاذری نے لکھا ہے کہ مدینہ میں عہد نبوی ﷺ میں نو مساجد تھیں، رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنے محلے کی مسجدوں میں اپنے ہمسا یہ سے تعلیم حاصل کرو۔ سب کے سب مرکزی مسجد میں نہ آ یا کریں، کیوں کہ اس طرح طالب علموں کی تعداد بڑھ جانے کااندیشہ تھا، جس سے سب کی تعلیم متاثر ہو تی اور ناکافی اساتذہ کے باعث بچوں کو تعلیم پانے کا موقع نہ مل سکتا۔“
(تعمیر مساجد اور انسانیت کی رہنما ئی، ص101/ بندہ[مفتی]محمد اشرف قاسمی، مکتبہ شاہ وللہ، دہلی، 2017ء، بحوالہ: خطبات بھاولپور، ص314/ موضوع: عہد نبوی میں نظام تعلیم)
حضرت رسول اللہ ﷺ کی ہدایت ورہنمائی میں مقامی طلباء کے لیے مدینہ کی آ ٹھ مساجد میں غیر اقامتی مدارس (Day schools) قائم ہوئے اور غیر مقامی یعنی مہاجر صحابہ کرامؓ کے لیے آپ ﷺ نے مسجد نبوی میں صفہ مدرسہ قائم فرمایا، جس میں ہر علاقہ سے آ نے والے طلباء تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔ کسی بھی غیر مقامی طالب علم کے لیے مسجد نبوی یا صفہ کا دروازہ بند نہیں تھا۔

*نبوی ریاست مدینہ میں مہاجرمسلمانوں کا استقبال*

مدینہ میں دینی تعلیم حاصل کرنے اور پناہ لینے کے لیے باہر سے ہجرت کرکے آ نے والوں کا مدینہ کے مسلمانوں کی طرف سے بھرپور استقبال ہوتا تھا۔ان انصار ومہاجرین کی باہم معاونت اور مواخاۃ کو قرآن مجید اور احادیث رسولﷺ میں مختلف مواقع پر مثالی اندازمیں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
وَالَّذِینَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِیمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ھَاجَرَ إِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِی صُدُورِھِمْ حَاجَۃً مِمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَیٰ أَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولَٰءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ(9) الحشر
”نیز یہ ان لوگوں کا حق ہے، جوہجرت کرنے والوں (کی آمد) کے پہلے سے اسی جگہ(یعنی مدینہ) میں آباد ہوئے ہیں، ایمان لائے ہیں، اور وہ ان لوگوں سے محبت رکھتے ہیں، جوان کی طرف ہجرت کرکے آ ئے اور مہاجرین کوجو کچھ دیاجائے، اس سے اپنے دل میں کوئی خلش نہیں رکھتے اور وہ اگر چہ خود فاقہ سے دوچار ہوں، اپنے اوپر اُن (مہاجرین۔ اشرف)کو ترجیح دیتے ہیں، اور جو شخص اپنی طبیعت کو حرص سے محفوظ رکھتا ہو تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں (9) الحشر
دین وملت کے لیے ہجرت کرکے مدینہ میں پناہ لینے والوں کی فضیلت اورمہاجرین کو پناہ دینے والوں کے ایما ن،صداقت، مغفرت اور جنت کی بشارت سناتے ہوئے فرمایا۔
وَالَّذِینَ آمَنُوا وَھَاجَرُوا وَجَاھَدُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَالَّذِینَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰءِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا، لَّھُم مَّغْفِرَۃٌ وَرِزْقٌ کَرِیمٌ(74)الانفال
”اور جو لوگ ایمان لا ئے، ہجرت کی، اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا،نیز جن لوگوں نے پناہ دی اور مدد کی، وہی سچے مسلمان ہیں،ان کے لیے(آ خرت میں)بخشش اور بہترین رزق ہےٌ(74)الانفال

*مہاجرمسلمانوں سے کفارومنافقین کی عداوت*

مدینہ میں ایک طرف مہاجر وپردیسی مسلمانوں کا استقبال ہوتا تھا تو دوسری طرف باہر سے آ نے والے مہاجر مسلمانو ں کو اسلام دشمنوں اور منافقین کی سازشوں اور مخالفتوں کا سامنا رہتا تھا۔ بعض منافقین مالی امداد رٗوک کر مہاجر مسلمانوں کی دینی تعلیم وتعلم کا سلسلہ بند کرنے کے لیے باہم مشاورۃ کرتے تھے۔جسے قرآ ن مجید نے نقل فرمایا:
ھُمُ الَّذِینَ یَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَیٰ مَنْ عِندَ رَسُولِ اللَّہِ حَتَّیٰ یَنفَضُّوا، وَلِلَّہِ خَزَاءِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَٰکِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَایَفْقَھُونَ (7) یَقُولُونَ لَاِن رَّجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْھَا الْأَذَلَّ وَلِلَّہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُولِہِ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَلَٰکِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَا یَعْلَمُونَ (8)المنافقون
”یہی وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ: ’جو لوگ اللہ کے رسول کے پاس رہتے ہیں،ان پر خرچ نہ کیا کرو، یہاں تک کہ وہ(خود ہی) تِتَر بِتَر ہوجائیں‘، اور آسمان وزمین کے سارے خزانے اللہ ہی کے توہیں؛ لیکن منافقین سمجھتے نہیں ہیں (7) وہ کہتے ہیں:’اگر ہم لوٹ کر مدینہ گئے تو ضرور عزت والاوہاں سے ذلت والے کو نکال باہر کردے گا‘، حالاں کہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کو حاصل ہے؛ لیکن منافقین سمجھتے نہیں ہیں (8)المنافقون
یعنی دوسری ریاست سے آ نے والے مسلمانوں کو اپنے علاقہ یا ریاست سے بھگانے ونکالنے کی سوچ منافقین کفار کی رہی ہے، جب کہ مقامی مسلمان خوش دلی کے سا تھ اپنے پردیسی بھائیوں کا استقبال کرتے رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اورآ پ ؐ کے اصحاب رضی اللہ عنھم کی عملی زندگی میں باہر کے لوگوں کے لیے -خاص طو پر دینی تعلیم کے لیے- اقامتی مدرسے کادروازہ بند کرنے کی ایک مثال بھی نہیں پیش کی جاسکتی ہے۔
لیکن اس دور میں کچھ منافق صفت حضرات باہر کے علماء وطلباء کے لیے اپنے زیر انتظام اقامتی مدرسوں کے دروازے یہی نہیں کہ بند کررکھے ہیں بلکہ باہری علماء وطلباء کےلیے مشکلات وپریشانیاں کھڑی کرنے کو ہی بڑی دینی خدمت خیال کرتے ہیں۔ فیاللاسف

ترتیب:محمد فاروق قاسمی،
مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی، ضلع:شاجاپور،ایم پی۔
16جمادی الاوّل 1443ھ،
21دسمبر2021ء

جاری۔۔۔۔۔

Comments are closed.