رزق حلال کی اہمیت اور امت کی ترقی کے راستے

از: محمدفیاض عالم قاسمی
قاضی شریعت دارالقضا آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
ناگپاڑہ، ممبئی
انسان کی زندگی روح اور جسم کا مجموعہ ہے، جس طرح روح کے بغیر انسان کا وجود ممکن نہیں، اسی طرح انسانی جسم کی بقا ء پانی اور خوراک کے بغیرممکن نہیں۔ خوراک ہی انسانی جسم کو ہر وقت متحرک رکھتی ہے۔ اس لیے اسلام نے حصول رزق کے معاملے میں بھی مکمل راہ نمائی کی ہے اور انسان کو اچھے اور پاکیزہ رزق کے حصول کی تعلیم دی اور اس کے لیے اسباب پیدا فرمائے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: يَاأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ۔(المؤمنون:٥١)’’اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، تم جو کچھ کرتے ہومیں انھیں جانتاہوں۔
چنانچہ سارے انبیاء علیہم السلام محنت کرکے حلال روزی کمانے اور کھانے کا اہتمام کرتے تھے، حضرت داؤدعلیہ السلام کے بارے میں آتا ہے کہ ’’ وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سےکھاتے تھے ۔(صحیح بخاری:٢۰۷٢)
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں،صحابہ نے عرض کیا، یارسول اللہ آپ نے بھی چرائی ہے؟ تو آپﷺ نے جواب دیا ہاں میں بھی ایک زمانہ تک اہل مکہ کی بکریاں چراتا رہا تھا۔ (صحیح بخاری:٢٢۶٢)
پھر ایسا ہی حکم تمام مسلمانوں کودیاہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ(البقرۃ:١۷٢)’’ اے مسلمانو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دی ہیں انہیں کھاؤ اور اﷲ کا شکر ادا کرو، اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو اور تمام اہل ایمان کو بھی پاکیزہ اورچیزوں کے کھانے کا حکم دیا ہے ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ کی حلال کردہ چیزیں ہی پاک اور طیب ہیں، حرام اشیاء پاک نہیں ہیں۔ رزق حلال کے ساتھ عمل صالح کی تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ رزقِ حلال سےنیک کام کرنا آسان ہوجاتاہے۔
حضور ﷺ نے فرمایا : طَلَبُ كَسْبِ الْحَلَالِ فَرِيضَة(شعب الایمان للبیھقی:۶٣۶۷) کہ کسب حلال کی طلب دیگرافرائض کے بعدایک اہم فریضہ جو تمام مسلمانوں پر لازم ہے اورآپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے ہاتھ کی محنت کی کمائی کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں۔(مسندلامام احمد:١۷۸١)
اسلام رزقِ حرام سے منع کرتا ہے کیوں کہ جو چیزیں حرام اور ناپاک ہوتی ہیں، وہ انسانی اخلاق پر برے اثرات مرتب کرتی ہیں ،جسمانی اور روحانی دونوں اعتبار سے انسان کے لیےوہ مضر ہوتی ہیں۔ ان چیزوں کے استعمال سے انسان اخلاقی انحطاط اور ذہنی پراگندگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان سے بچنے کا حکم دیا گیا۔ارشاد ربانی ہے : يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ۔(سورۃالنساء:٢۹)’’اے ایمان والو! آپس میں ناحق ایک دوسرے کا مال نہ کھایاکرو۔‘‘ناحق دوسرے کا مال کھانے کا مطلب یہ ہے کہ حاصل شدہ مال، چوری ، ڈکیتی، غصب اور دھونس کے ذریعے سے حاصل کیاگیاہو،یا ناپ تول میں کمی یا طے شدہ معاہدے کے خلاف گھٹیا چیز دے کر حاصل کیاگیاہو، دیانت داری اور فرض شناسی کی بجائے کام چوری سے حاصل کیاگیاہو،اس کے علاوہ ذخیرہ اندوزی، چور بازاری، سود اور ملاوٹ کے ذریعے سے جو مال حاصل کیاجائے وہ بھی حرام ہے۔
ہمارے معاشرے میں جو اخلاقی برائیاں پائی جاتی ہیں ان کا زیادہ تر تعلق ہمارے ذرائع آمدنی کے مشکوک ہونے سے ہے۔ یاد رکھیں کہ جس طرح مردار اور ناپاک چیزیں حرام ہیں، اسی طرح ایسے مال و دولت کا استعمال بھی درست نہیں جو ناجائز ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے آدمی کاذکر کیاجولمبےسفر میں ہو،پراگندہ بال ہو،تھکاوٹ اورماندگی کاحال ہو۔ اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاکرپکاررہاہو، اے میرےرب !اے میرےرب! مجھے فلاں فلاں نعمت عطافرما، میرےفلاں فلاں گناہوں کو معاف فرما،میری فلاں فلاں مصیبت کو دورفرما۔لیکن اس کو دعاء قبول نہیں ہورہی ہے کیوں کہ اس کاکھاناحرام، اس کاپینا حرام، اس کالباس بھی حرام ہے، اس کی پرورش اورپرداخت بھی حرام غذاسے ہوئی ہوتو اس کی دعاء کیسے قبول ہوسکتی ہے۔ (صحیح مسلم:١۰١٥)
کسب حلال اور رزق طیب کی بے شمار برکات ہیں۔ جب لقمۂ حلال انسان کے پیٹ میں جاتاہے توا س سے خیر کےکام صادر ہوتے ہیں،بھلائیاں پھیلتی ہیں،وہ نیکیوں کی اشاعت کا سبب بنتاہے۔ اس کے برعکس حرام غذا انسان کو روحانی لحاظ سےاپاہج کردیتی ہے۔نور ایمانی بجھ جاتاہے،دل کی دنیا ویران وبنجر ہوجاتی ہے۔شیطان اس کے قلب پر قابض ہوجاتاہے۔ جس آدمی کو حرام کی لت لگ جاتی ہے، اس سے بھلا امور خیر کیسے اور کیوں کر انجام پاسکتے ہیں؟ حلال وحرام کایہ کھلا فرق اس حد تک اثر انداز ہوتاہے کہ طیب وپاکیزہ کمائی کھانے والا عند اللہ مقبول ومستجاب بن جاتاہے، جب کہ حرام کواپنے بدن کاجزء بنانے والا ،اللہ تعالیٰ کے ہاں مردود ٹھہرتا ہے۔اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں۔جب دعاء قبول نہیں ہوگی تو مسلمانوں کے مسائل کیسے حل ہوسکتے ہیں،جو جسم حرام غذاسے پلی ہو، اس سے بننے والے خون میں ایمانی حرارت کیسے آسکتی ہے۔اس سے پیداہونے والی ذہنی قوت میں مثبت سوچ کیسے جنم لے سکتی ہے۔؟ یہی امت کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا: کہ اگر کوئی بندہ اپنے پیٹ میں حرام لقمہ ڈالتاہے، تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرتاہے۔جس بندے کی پرورش حرام اورسود سے ہوئی ہو جہنم ہی اس کے لئے مناسب ہے۔ (معجم الاوسط:۶٤۹٥) حرام غذاسے پلنے والے کی عبادتیں رائیگاں جاتی ہیں، جو دعائیں مانگی جاتی ہیں وہ قبول نہیں ہوتیں،خیر وبھلائی کے جوکام کئے جاتے ہیں ان میں اخلاص نہیں رہتاہے، اخلاق وکردارمیں وہ کشش نہیں ہوتی ہےجو غیروں کو مائل کرسکے۔ باتوں میں وہ وزن نہیں ہوتا ہے جو اسلامی تعلیمات کوقبول کرنے پر مجبورکردے، اس لئےمسلمانوں کو اپنی خوراک اورلباس پر، اپنی تجارت اورکاروبار پر غورکرناچاہیئے کہیں یہ حرام تو نہیں ہے، یا مشتبہ تو نہیں ہے۔علامہ اقبالؒ نے کیاہی خوب کہا ہے:
Comments are closed.