اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم( قسط6)

بقلم:مفتی محمد اشرف قاسمی

دارالافتاء:مہدپور،اجین ایم پی

دوم:اسلامی ریاست میں غیرمسلم

تمام انسان خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، اگر وہ حاجتمند ہوں،انھیں پناہ کی تلاش ہو،اوراسلامی ریاست کو انہیں پناہ دینے کی سہولت حاصل ہے ،اور اسلامی ریاست، مذہب، ملت کو کوئی خطرہ نہ ہو۔(ردالمحتار مع الدر المختار ج3/ ص226/)-
تو انسانیت کی بنیاد پر اُنہیں اسلامی ریاست میں -خلافِ مذہب ہونے کے باوجود-رہائش کی سہولیات فراہم کرکے وطنیت میں شریک کیاجائے گا۔
اسلامی تعلیما ت کے مطابق صرف جغرافیائی لاتعلقی کی بنیادپر کسی مسلمان یاحاجتمند غیر مسلم کی امداد سے پہلو تہی نہیں اختیار کی جاسکتی ہے۔
وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِینَ اسْتَجَارَکَ فَأَجِرْہُ حَتَّیٰ یَسْمَعَ کَلَٰمَ اللَّہِ ثُمَّ أَبْلِغْہُ مَأْمَنَہُ ذَٰلِکَ بِأَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُونَ(6)التوبۃ
”اگر مشرکین میں سے کو ئی آ پ سے پناہ کا طالب ہو تواُسے پناہ دے دیا کریں؛ تاکہ وہ اللہ کاکلام سنے، پھر اس کو اس کی امن کی جگہ پہونچادیں، یہ اس لیے کہ یہ ناواقف لوگ ہیں“(6)التوبۃ
اسلامی ریاست میں دوسری ریاست کے مسلم یا غیرمسلم کوپناہ دینے کے سلسلے میں حکام کے علاوہ عام مسلمان کی ضمانت بھی قابلِ قبول ہے۔
وَقَالَ رسول اللہﷺ: ذِمَّۃُ الْمُسْلِمِینَ وَاحِدَۃٌ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللَّہِ، وَالْمَلَاءِکَۃِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ، لَا یُقْبَلُ مِنْہُ صَرْفٌ، وَلَا عَدْلٌ، (بخاری برقم الحدیث، 1870ومسلم برقم الحدیث، 1371)
”…آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں میں سے کسی کا بھی عہد کافی ہے اس لیے اگر کسی مسلمان کی (دی ہوئی امان میں دوسرے مسلمان نے) بدعہدی کی تو اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے۔ نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہے نہ نفل،.“۔ (بخاری،1870 مسلم 1371)
اسلامی ریاست میں غیر مسلم کی ضمانت کے سلسلے میں یہاں تک سہولت ہے کہ عام مسلمانوں کے علاوہ مسلمان خواتین کی ضمانت بھی قابلِ قبول ہے۔
أَنَّ أَبَا مُرَّۃَ….أَنَّہُ سَمِعَ أُمَّ ھَانِیٍ بِنْتَ أَبِی طَالِبٍ، تَقُولُ: ذَھَبْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ فَوَجَدْتُہُ یَغْتَسِلُ، وَفَاطِمَۃُ ابْنَتُہُ تَسْتُرُہُ، قَالَتْ: فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، فَقَالَ: مَنْ ھَذِہِ؟ فَقُلْتُ: أَنَا أُمُّ ھَانِیِ بِنْتُ أَبِی طَالِبٍ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِأُمّ ِھَانِی، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِہِ قَامَ فَصَلَّی ثَمَانِیَ رَکَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، زَعَمَ ابْنُ أُمِّی أَنَّہُ قَاتِلٌ رَجُلًا قَدْ أَجَرْتُہُ فُلَانَ ابْنَ ھُبَیْرَۃَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ یَا أُمَّ َھانِیٍ، قَالَتْ أُمُّ ھَانِیٍ: وَذَاکَ ضُحًی۔ (بخاری برقم الحدیث،357)
”حضرت ام اہانیؓ کہتی ہیں کہ:میں فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے ہیں اور آپ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا پردہ کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کون ہے؟ میں نے بتایا کہ ام ہانی بنت ابی طالب ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھی آئی ہو، ام ہانی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہانے سے فارغ ہو گئے تو اٹھے اور آٹھ رکعت نماز پڑھی، ایک ہی کپڑے میں لپٹ کر۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو میں نے عرض کیاکہ یا رسول اللہ! میری ماں کے بیٹے (علیؓ بن ابی طالب) کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک شخص کو ضرور قتل کرے گا۔ حالانکہ میں نے اسے پناہ دے رکھی ہے۔ یہ (میرے خاوند) ہبیرہ کا فلاں بیٹا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام ہانی جسے تم نے پناہ دے دی، ہم نے بھی اسے پناہ دی۔ ام ہانی نے کہا کہ یہ نماز چاشت تھی۔“ (بخاری 357)
المستامن ھو من یدخل دار غیرہ بامان، مسلماً کان او حربیا، والمقصود بدار غیرہ الاقلیم المختص بقھر ملک، اسلام او کفر، لامایشمل دارالسکنی۔ (ردالمحتار مع الدد ج 6ص275)
”مستأمن وہ شخص ہے جو اپنے وطن کے علاوہ امن لے کر داخل ہو، وہ مسلمان یا حربی(کافر)ہو، اور یہاں دار سے مراد ایسا اقلیم یا ملک ہے جو قوت قاہرہ کے حامل کسی بادشاہ کے قلمرومیں ہو، یہ دار یا تو دار الاسلام ہو گا یا دار الکفر، یہاں دار سے رہائشی مکان مرادنہیں ہے۔“رد المحتار.

ترتیب:
*محمد فاروق قاسمی،*
مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی، ضلع:شاجاپور،ایم پی۔
17جمادی الاوّل 1443ھ،
22دسمبر2021ء

جاری۔۔۔۔۔

Comments are closed.