اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم ( قسط7)

بقلم:مفتی محمد اشرف قاسمی
دارالافتاء:مہدپور،اجین ایم پی
وطن کی محبت
خوراک، پوشاک، مکان؛صحت، جان ومال اور زینت وسکون اورراحت طلب بشری وفطری تقاضوں انسان کے دل ودماغ میں ہوتے ہیں ، ان سے انسان کو محبت ہو تی ہے۔ اسی طرح معاشرہ وسماج کو باہم مربوط اور بہتر نظام کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے وطن کی محبت وطلب ایک بشری ضرورت ہے۔ جس طرح خوراک، پوشاک، مکان کے تعلق سے بالذات کو ئی عقیدہ یا محبت مطلوب نہیں ہے، اسی طرح وطن کے تعلق سے شریعت میں عقیدہ یا محبت کا تصور نہیں ہے۔ بلکہ وطن ایک انتظامی، سیاسی وجغرافیا ئی شیء ہے۔اسی انتظامی ضرورت کے تحت وطن کی تعمیر وترقی کی فکر اور خیر وبھلائی کی کوششیں کرنے کی اسلام ہدایات دیتا ہے۔الدکتور محمود خلیل ابو دف (استاذ: اصول التربیۃ المشارک، کلیۃ- الجامعۃ الا سلا میۃ، غزۃ) لکھتے ہیں:
”… فالوطن لا یجب لذاتہ وانما لکونہ وسیلۃ لمرضاۃ اللّٰہ باقامۃ الدین فوق ارضہ واما اذاکان الدین غریبا فی ارض ما، کا ن التعلق بھذا لوطن لمجرد کونہ وطنا، مظھراً من مظاھرالوثنیۃ والعصبیۃ۔(فخری 1999ص128)“
”وطن کی محبت بذات خود مطلوب نہیں ہے، بلکہ چونکہ وطن یعنی اُس زمین پر دین قائم کرکے اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، اس لیے (لغیرہ)اس کی محبت مطلوب ہے اور اگر کسی زمین (وطن) میں دین اجنبی ہو اور اس زمین سے صرف اس بنیاد پر محبت کی جائے کہ وہ وطن ہے تو وطن کی ایسی محبت بت پرستی اورجاہلی عصبیت کا مظہرہے۔“
(تربیۃ المواطنۃ من منظور الاسلامی، الدکتور محمود خلیل ابودف (استاذ: اصول التربیۃ المشارک، کلیۃ- الجامعۃ الا سلا میۃ- غزۃ)، شریک الا شاعۃ:بحوث العلماء العرب،ص340/ایفا دلھی2014ء)
قزمان بن حارث نے غزہ واحد میں شدید لڑائی کی، چھ سات مشرکین کو تنہا موت کے گھاٹ اتارا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جہنمی قرار دیا۔أَمَا إِنَّہُ مِنْ أَھْلِ النَّارِ”یقینا وہ جہنمی ہے۔“کیوں؟ اس لیے کہ اس نے یہ لڑائی محض اپنی قوم اور وطن کی نام آوری کی خاطر لڑی تھی، اس نے صحابہؓ کے سامنے خود اپنی زبان سے اقرار کیا تھا۔وَاللہِ مَا قَاتَلْنَا إِلَّا عَلَی اَلْأَحْسَابِ”اللہ کی قسم! ہم نے خاندانی شرافت اور حسب کی خاطر لڑائی لڑی۔“ (الاصابۃ لإبن حجرج5ص 335 ترجمۃ رقم: 7123)
مذہب کے مقابل عقیدہ کے بطورجولوگ وطن کی محبت کی پُرزوردعوت دیتے ہیں، انھیں چاہئے کہ وہ خوراک، لباس ومکان کی محبت کی بھی پُرزور دعوت پیش کریں۔ خاص کرجب کہ بہت سی خوراک کو ممنوع قرار دے کر گھروں میں ہانڈی، فریج، کچن کی چانج کے بہانے بغیر کسی قانونی کا رروائی کے، بھیڑ کے ذریعہ کمزوروں کوقتل تک(Mob Lynching)کیا جارہا ہے، تو ایسی صورت میں اپنی محبوب خوراک سے محروم ہوکر ایک واجبی محبت (حُبِّ خوراک)دل میں پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ کہیں اس کی محبت نکل کر ہمارا ایمان نہ کمزور ہوجائے!؟
*دین کے لیے وطن کادفاع*
وَلِیَعْلَمَ الَّذِینَ نَافَقُوا وَقِیلَ لَھُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَوِ ادْفَعُوا قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاکُمْ ھُمْ لِلْکُفْرِ یَوْمَءِذٍ أَقْرَبُ مِنْھُمْ لِلْإِیمَانِ یَقُولُونَ بِأَفْوَاھِھم مَّا لَیْسَ فِی قُلُوبِھِمْ وَاللَّہُ أَعْلَمُ بِمَا یَکْتُمُونَ(167) آ ل عمران
”منافقین کو بھی(جان لے۔ اشرف)، جب ان منافقین سے کہا گیا:آ ؤ، اللہ کے راستہ میں جہاد کرو یادفاع کرو، تو وہ کہنے لگے: ’اگر ہم(ڈھنگ کی)لڑائی دیکھتے تو ہم ضرور تمہارے ساتھ ہولیتے،اس دن وہ مقابلہ ایمان کے کفر سے زیادہ قریب تھے،وہ اپنی زبان سے جو کچھ کہتے ہیں،وہ ان کے دلوں میں نہیں ہے، وہ جو کچھ چھپارہے ہیں،اللہ اسے خوب جانتے ہیں (167) آ ل عمران
آ یت مذکورہ میں ریاست کی طرف سے دفاع کا انکار کرنے والوں کی شناخت(Identity) بطور منافق بتائی گئی ہے۔ دفاع میں دشمن سے اصل معرکہ اور جنگ کرنا ہے، لیکن قتال کے ساتھ یہاں دفاع کا لفظ اس بات پر دال ہے کہ اگر جنگ کرنے سے معذوری ہے تو کم ازکم فوجیوں کے ساتھ رہ کر ان کا حوصلہ بڑھایا جا ئے۔یہاں دفاع کا یہی مطلب ہے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ لکھتے ہیں۔
”دفاع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر جنگ میں عملی طو رپر شرکت منظور نہیں تو کم از کم لشکر اسلام کے سا تھ شامل رہو؛ تاکہ فوجیوں کی کثرت دشمن کو مرعوب کرے اور ا ن کو دفع کرنے میں سہو لت ہو،“
(آسان تفسیر ج1 ص276 مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند 2015ء)
”781- فان ھجم العدو علی بلد- والعیاذ باللہ- وجب علی جمیع الناس الدفع؛ لانہ اذا صار النفیر عاما یصیر من فروض الاعیان لقولہ تعالی’انفرواخفا وثقالا‘ ولھذا تخرج المرأۃ بغیر اذن زوجھا، والعبد بغیر اذن مولاہ،“ (مختارات النوازل ج 2ص303/و304/ایفا)
’تو اگر دشمن کسی شہر(یا ریاست)پر حملہ آ ور ہوجائیں – اللہ کی پناہ- تو شہر کے تمام لوگوں پر دفاع واجب ہے،کیوں کہ جب نفیر عام ہو تو دفاع کرنا فرض عین ہوجاتاہے، اللہ تعالی کے فرمان:’تھوڑے سامان ساتھ ہو یا زیادہ سامان ساتھ ہو، نکل کھڑے ہو‘، اسی لیے عورت اس جنگ میں بغیراپنے شوہر کی اجازت کے (بھی) نکلے گی، اور غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکلے گا۔“ (مختارات النوازل ج 2ص303/و304/ایفا)
ترتیب:محمد فاروق قاسمی،
مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی، ضلع:شاجاپور،ایم پی۔
18جمادی الاوّل 1443ھ،
23سمبر2021ء
جاری۔۔۔۔۔
Comments are closed.