اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم ( قسط8)

بقلم:مفتی محمداشرف قاسمی

دارالافتاء:مہدپور،اجین ایم پی

ریاست کے انتظام کے لیے مالیات کی فرا ہمی

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِلَی الْیَمَنِ, فَقَالَ: ادْعُھُمْ إِلَی شَھادَۃِ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ, وَأَنِّی رَسُولُ اللَّہِ، فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوا لِذَلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللَّہَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَیْھمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ، فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوا لِذَلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللَّہَ افْتَرَضَ عَلَیْھمْ صَدَقَۃً فِی أَمْوَالِھِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَاءِھِمْ وَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَاءِھِمْ۔
(بخاری برقم الحدیث، 1395,و1496و4347ومسلم برقم الحدیث، 19، ابوداود برقم الحدیث،1584)
”… اگر وہ(یمن کے) لوگ (اسلام کی)یہ (سب)بات بھی مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر کچھ صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لے کر انہیں کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گا۔“ (بخاری برقم الحدیث، 1395,و1496و4347ومسلم برقم الحدیث، 19، ابوداود برقم الحدیث، 1584)

*اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کے حقوق*

مسلم ریاست میں رہنے والے غیرمسلموں کے حفاظتی انتظامات کے لیے ان کی مالی وسعت کی صورت میں مسلمانوں کے بالمقابل اُن سے کا فی کم مقدار میں جزئیہ لیاجاتا ہے، لیکن اس جزئیہ کے بعدشریعت ان کو ہر قسم کی بنیادی آزادی وتحفظ فراہم کرتی ہے۔ شریعت کی طرف سے اسلامی حکومت کے لیے ذمیوں کی حفاظت کی تاکید اور حفاظت میں کسی بھی قسم کی کوتا ہی پر سخت تنبیہ وارد ہوئی ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ جُوَیْرِیَۃَ بْنَ قُدَامَۃَ التَّمِیمِیَّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ,قُلْنَا أَوْصِنَا یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، قَالَ: أُوصِیکُمْ بِذِمَّۃِ اللَّہِ فَإِنَّہُ ذِمَّۃُ نَبِیِّکُمْ، وَرِزْقُ عِیَالِکُمْ(.بخاری 3162)
”جُو یریۃ بن قدامہ کہتے ہیں کہ:میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا تھا، (جب وہ زخمی ہوئے) آپ سے ہم نے عرض کیا تھا کہ ہمیں کوئی وصیت کیجئے! تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے عہد کی (جو تم نے ذمیوں سے کیا ہے) وصیت کرتا ہوں (کہ اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرنا) کیونکہ وہ تمہارے نبی کا ذمہ ہے اور تمہارے گھر والوں کی روزی ہے۔“(.بخاری 3162)
قال علی رضی اللہ عنہ وانما بذلواالجزیۃ لتکون اموالھم کاموالنا ودمائھم کدمائنا(بخاری ج 2ص 87)
”حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ غیر مسلموں (ذمیوں) نے جزئیہ خرچ کیا ہے۔ تاکہ اسلامی ریاست میں ان کے اموال ہمارے اموال کی طرح محفوظ ہو جائیں اور ان کے خون ہمارے خون کی طرح محفوظ ہوجائیں۔“(بخاری ج 2ص 87)
اسلامی ریاست غیر مسلموں کو جو مراعات دینے کی پابند ہے؛وہ کتب حدیث،سیر،آثار وفقہ میں تفصیل وصراحت کےساتھ میں بیان ہو ئے ہیں۔تِئیس(23) دفعات پر مشتمل میثاق مدینہ میں مزید تفصیل کے سا تھ ریاست میں آ باد مختلف غیر مسلم اقوام کو ملنے والی مراعات وحقو ق کا بیان ہے، جسے کتب سیرت میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
(السسن الکبری للبیھقی، ج8 ص105، التلخیص الحبیر لابن حضر ج4 ص37،سیرت ابن ھشام، ج 1ص501 -504 الاموال لابی عبد، ج 1 ص160و166،مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ فی العھد النوی ولخلا فۃ الراشدۃ، محمد حمید اللہ ص15،وما بعدھا)
نجران کے لوگوں کے لیے آ پ ﷺ نے ایک تحریر تیارفرمائی جس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی ریاست کے ماتحت غیرمسلم اقوام کو کس قدر تحفظ و آزادی حاصل ہوتی ہے۔
”ولنجران وحاشیتھا جوار اللہ وذمۃ محمد النبی رسول اللہ(ﷺ) علی اموالھم وانفسھم وارضھم، وملتھم وغائبھم وشاھدھم وعشیرتھم وبیعھم، وکل ماتحت ایدیھم من قلیل او کثیر، لا یغیر اسقف من اسقفیتہ، ولاراھب من رھبانیتہ، ولاکاھن من کھانتہ ولیس علیہ دنیۃ، ولا دم جاھلیۃ،ولا یخسرون ولایعسرون، ولا یطاء ارضھم جیش، ومن سأل منھم حقا فبینھم النصف غیر ظالمین ولا مظلومین۔
”اور نجران اور اس کے گرد وپیش رہنے والوں کے لیے ان کے اموال، ان کی جانوں اور ان کی زمینوں، اور ان کی قوم اور ان کے غیر حاضر اور ان کے موجود اوراوران کے خاندان اور ان کے کاروبار، اور ہر وہ جو ان کے ماتحت ہے، کم ہو یا زیادہ اللہ کی پناہ اور محمد -(ﷺ)جو نبی اور اللہ کے رسول ہیں -کے ذمہ میں (ہونے کی وجہ سے محفوظ)ہے۔کسی بھی بشپ(بڑا مذہبی عہدہ دار) کو(اس کے اعمال ومناسک یا مسند سے) اور نہ ہی کسی راہب کواس کی رہباہنیت سے، اور نہ کسی کاہن کو اس کی کہا نت سے ہٹایا جائے گا۔ اور اس پر اس کی (گذشتہ)دنائت (کوئی نامناسب حرکت)کی وجہ سے کو ئی سزا نہیں ہے۔ اور نہ دور جاہلیت میں کیے گئے قتل پر اس کے ذمہ خون لازم ہے۔ اونہ ان کاکچھ نقصان کیاجائے گااور نہ انھیں مشکلات میں ڈالا جائے گا۔ اور نہ(مجاہدین) فوجیں ان کی زمینوں (کھیتیوں)کو روندیں گی، اور ان میں سے کوئی حق کا مطالبہ کرے گا تو ان کے درمیان برابری کے سا تھ تقسیم کیا جا ئے گا، نہ کسی پرکوئی ظلم کرنے والاہو گا اور نہ ہی کو ئی ستایا ہوا مظلوم۔“ (حقوق المواطنۃ وواجباتھا فی ضوء الکتاب والسنۃ،الدکتور حسن السید خطاب، شریک الا شاعۃ:بحوث العلماء العرب،ص 267/ایفا دلھی2014ء، ملتقتامن:اخبارعمر،للمرحوم علی الطنطاوی، ص155 وما بعدھا)
محولہ بالاعبارات نقل کرنے کے بعد اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو حاصل مراعات وحقوق کو مزید بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اطمینان وثوق کے لیے نمبرنگ کے سا تھ کچھ بنیادی حقوق ذیل میں نقل کیے جا تے ہیں۔

ترتیب:

*محمدفاروق قاسمی*

مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی، ضلع:شاجاپور،ایم پی۔

20جمادی الاوّل 1443ھ،
25دسمبر2021ء

جاری۔۔۔۔۔

Comments are closed.