اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم ( قسط9)

بقلم:مفتی محمداشرف قاسمی

دارالافتاء:مہدپور،اُجین ایم.پی

1.مذہبی عقیدے وعمل کی آزادی

اسلامی ریاست میں یا جہاں بھی مسلمانوں کو اقتدارواختیارحاصل ہو وہاں کسی غیرمسلم کواسلام قبول کرنے پرمجبورنہیں کیا جاسکتا:

لَا اِکرَاہَ فِی الدِّینِ قَدتَّبَیَّنَ الرُّشدُمِنَ الغَیِّ فَمَن یَّکفُر بِالطَّاغُوتِ وَ یُومِن بِاللّٰہِ فَقَدِ استَمسَکَ بِالعُروَۃِ الوُثقٰی،َلا انفِصَامَ لَھَا، وَ اللّٰہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ (256)البقرۃ
”دین میں کوئی زبردستی کی گنجائش نہیں،گمراہی کے مقابلے ہدایت آشکارا ہوچکی ہے۔ توجس نے طاغوت۱؎ کا انکار کیا اورا للہ پرایمان لایا، اس نے مضبوط ڈوری تھام لی جو ٹوٹ نہیں سکتی اور اللہ خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں“(256)البقرۃ

وَ لَو شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَن فِی الاَرضِ کُلُّہُم جَمِیعًا اَفَاَنتَ تُکرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُونُوا مُومِنِینَ(99)یونس

”اور اگرآ پ کے پروردگار کو منظورہوتا تو زمین پر جتنے لوگ ہیں سب کے سب ایمان لے آ تے، توکیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کردیں گے؟“(99)یونس

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ فَیَسُبُّوا اللَّہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ کَذَلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ أُمَّۃٍ عَمَلَھُمْ ثُمَّ إِلَی رَبِّھِمْ مَرْجِعُھمْ فَیُنَبِّءُھُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ(108)الانعام
”اور اللہ کے سوا وہ جن کی عبادت کرتے ہیں، ان کو بُرابھلا نہ کہو، کہ وہ بھی حد سے تجاوز کرتے ہوئے جہالت کی وجہ سے اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں گے۔اسی طرح ہم نے ہر گروہ کے لیے ان کے عمل کوخوشنما بنادیا ہے، پھران کے رب کی طرف ہی ان کی واپسی ہے!پس اللہ ان کو ان کے اعمال کے بارے میں بتادیں گے“(108)الانعام

*2۔انسانی کرامت*

غیرمسلم کو انسانی تقدس واحترام اور اس کی عزت وآبرو کو تحفظ حاصل ہوگا۔

وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاھُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاھُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاھُمْ عَلَیٰ کَثِیرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا( 70) بنی اسرائیل

”اورہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی ہے، ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سواری دی ہے، ان کوپاکیزہ ونفیس رزق عطافرمایا اورہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت سے نوازا ہے۔“( 70) بنی اسرائیل

لَقَدْ خَلَقْنَاالْإِنسَانَ فِیٓ أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ(4) التین
”ہم انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا“(4) التین

یَا أَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھمَا رِجَالًا کَثِیرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِی تَسَاءَلُونَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبًا (1)النساء
”اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا، اوراسی سے اس کا جوڑا بنایا، اور ان دونوں سے مرد اور عورت پھیلا دیئے، اور اللہ سے ڈرتے رہو،جس کا واسطہ دے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اور قرابت داروں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو،بے شک اللہ تم لوگوں پر نگراں ہیں“(1)النساء

وَلَا تُجَادِلُوا أَھْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِی ھِیَ أَحْسَنُ(46)العنکبوت
”اہل کتاب سے ایسے طریقے سے بحث کیاکرو، جوسب سے بہترہو“(46)العنکبوت

. قرآن کریم،سورہ الحجرات کی آیت نمبر13مع ترجمہ گذشتہ صفحات میں گزر چکی ہے، یہاں ذیل میں صرف اس کا ترجمہ نقل کیاجاتاہے:
”اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مردوعورت سے پیداکیاہے اور مختلف خاندان اور کنبے بنادیئے؛ تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو، یقیناً اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے، جو سب سے زیادہ تقوی والا ہو، یقیناًاللہ بہت جاننے والے اورباخبر ہیں۔“(13) الحجرات

علاقہ اور رنگ ونسل کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان ایک دوسرے پر برتری و فضیلت کی نفی پر گذ شتہ سطور میں روایت نقل کی گئی ہے۔یہاں ذیل میں اس کاترجمہ پیش ہے:
”رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اے لوگو! یقیناً تمہارا رب ایک ہے، اور سن لو کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پراور کسی گورے کوکسی کالے پر اورکسی کالے کو کسی گورے پرکو ئی فضیلت وبرتری نہیں حاصل ہے۔ مگرہاں تقوی کی بنیاد پر ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہوسکتی ہے۔ یقینا اللہ کے نزدیک تم میں وہ شخص زیادہ عزت والاہے جوتم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔“
(حلیۃ الأولیاء‘ج3/ص100، والبیہقی برقم الحدیث5137مسند احمد ج12/ص226)

کَانَ سَھْلُ بْنُ حُنَیْفٍ، وقَیْسُ بْنُ سَعْدٍ قَاعِدَیْنِ بِالْقَادِسِیَّۃِ فَمَرُّوا عَلَیْھمَا بِجَنَازَۃٍ فَقَامَا، فَقِیلَ لَھُمَا: إِنَّھَا مِنْ أَھْلِ الْأَرْضِ أَیْ مِنْ أَھْلِ الذِّمَّۃِ، فَقَالَا: إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّتْ بِہِ جِنَازَۃٌ فَقَامَ, فَقِیلَ لَہُ: إِنَّھَا جِنَازَۃُ یَھُودِیٍّ، فَقَالَ: أَلَیْسَتْ نَفْسًا (بخاری برقم الحدیث 1312)
”سہل بن حنیف اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہما قادسیہ میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں کچھ لوگ ادھر سے ایک جنازہ لے کر گزرے تو یہ دونوں بزرگ کھڑے ہو گئے۔ عرض کیا گیا کہ جنازہ تو ذمیوں کا ہے (جو کافر ہیں) اس پر انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اسی طرح سے ایک جنازہ گزرا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہودی کی جان نہیں ہے؟“(بخاری 1312)

*3۔حق ملکیت*

غیرمسلم اپنے مال کا مالک ہوگا، اس کے مال پر کسی دوسرے کو قبضہ کرنے کا حق نہیں ہو گا۔

قال علی رضی اللہ عنہ وانما بذلواالجزیۃ لتکون اموالھم کاموالنا ودمائھم کدمائنا،(بخاری ج 2ص 87)
”حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ غیر مسلوں (ذمیوں) نے جزئیہ خرچ کیا ہے۔ تاکہ اسلامی ریاست میں ان کے اموال ہمارے اموال کی طرح اور ان کے خون ہمارے خون کی طرح محفوظ ہوجائیں۔“(بخاری ج 2ص 87)

*4۔عدل وانصاف*

غیرمسلم کوعدالتی چارہ جوئی اورانصاف کا پوراپوراحق حاصل ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ یَامُرُکُم اَن تُؤَدُّوا الاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھلِھَا وَاِذَاحَکَمتُم بَینَ النَّاسِ اَن تَحکُمُوا بِالعَدلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیعًا بَصِیرًا(58)النساء

”بے شک اللہ تم کو حکم دیتے ہیں کہ امانتیں امانت والوں کو حوالہ کردو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کیاکرو، بے شک اللہ تم کو بڑی ہی اچھی بات کی نصیحت کرتے ہیں، یقینا اللہ خوب سننے اور خوب دیکھنے والے ہیں“(58)النساء

یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَن لَّا تَعْدِلُوْا، اِعْدِلُوْا ھوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللّہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (8) المائدۃ
”اے ایما ن والو! اللہ کا حق ادا کرنے والے اورانصاف کے ساتھ گواہی دینے والے رہو، کسی قوم کی دشمنی تم کو نا انصافی پر آ مادہ نہ کردے،یہی تقوی سے قریب تر(طریقہ) ہے، اوراللہ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہیں“َ (8) المائدۃ

وَاِن حَکَمتَ فَاحکُم بَینَھُم بِالقِسطِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ المُقسِطِینَ (42) المائدۃ
”اور اگر آ پ فیصلہ کریں تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں“(42) المائدۃ

اِنَّا اَنزَلنَااِلَیکَ الکِتٰبَ بِالحَقِّ لِتَحکُمَ بَینَ النَّاسِ بِمَا اَرٰکَ اللّٰہُ وَلَا تَکُن لِّلخَآءِنِینَ خَصِیمًا(105) النساء
”بے شک ہم نے آ پ کی طرف برحق کتاب اتاری ہے؛ تاکہ آ پ لوگوں کے درمیان اس کے مطابق جوا للہ آ پ کو سمجھائے فیصلہ کریں، نیز آ پ خیانت کرنے والوں کے طرفدارنہ ہو جائیے“(105) النساء
ابن عساکر نقل کرتے ہیں:

”ومن وقائع المحاکمۃ العادلۃ: ماحدث بین الامام علیؓ ویھودی فی ملکیۃ درع امام القاضی شریح حیث لم تکتمل عناصر الا ثبات، لان شریحا رفض قبول شھادۃ الحسن لابیہ علی، ثم قضی بان الدرع للیھودی، فقال؛ امیر المؤمنین قدَّمنی الی قاضیہ۔ وقاضیہ یقضی علیہ!! اشھد ان ھذا الدین علی الحق، واشھد ان لا الٰہَ الااللہ، وان محمدا ًرسول اللہ، وان الدرع درعک یا امیر المؤمنین، سقطت منک لیلاً۔(اخبار دِمَشق لابن عساکر۔ ج 45ص358/)
”اورعدالتی محاکمہ کے وقائع سے اہم معاملہ وہ بھی ہے جوذرع کی ملکیت کے سلسلے میں خلیفہ المسلمین(President of Islamic Coutry Or Supreme Leader in Islamic Country) حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ایک یہودی کے درمیان قاضی (Judge) شریحؒ کے ساتھ عدالت (Court)میں پیش آ یا، اس طورسے کہ(حضرت علیؓ کی طرف سے) ملکیت کے سلسلے میں ثبوت وشہادت(Evidence)مکمل نہیں ہوئی۔ قاضی شریحؒ نے باپ علی ؓ کے حق میں بیٹے حضرت حسنؓ کی شہادت کر رد کرکے یہودی کے حق میں ذرع کا فیصلہ سنادیا۔ اس فیصلے پر یہودی نے کہا کہ:’امیرالمؤمنین(President of Islamic Country Or Supreme Leader in Islamic Country) نے(خود کو ئی فیصلہ یا کارروائی کرنے کے بجائے) مجھے قاضی(Judge) کے سامنے پیش کیا، اور ان کے قاضی(Judge) نے انھیں کے خلاف فیصلہ(Judgment) سنادیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ دین برحق ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد(ﷺ)اللہ کے رسول ہیں، اوراے امیر المؤمنین یقینا یہ ذرع آ پ کا ہے، آ پ سے رات میں گر گیا تھا‘۔“
(اخباردِمَشق لابن عساکر۔ ج 45ص358/)

ترتیب:

*محمدفاروق قاسمی*

مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی، ضلع:شاجاپور،ایم پی۔
22جمادی الاوّل 1443ھ،
27دسمبر2021ء

جاری۔۔۔۔۔

Comments are closed.