امریکہ ویورپ کی باہمی مجبوریاں

سمیع اللہ ملک
اہلِ یورپ آج بھی اس خیال کے حامل ہیں کہ علم اورٹیکنالوجی کے میدان میں غیرمعمولی پیش رفت کے ذریعے وہ بھرپور فتوحات کے حامل ہوتے چلے جائیں گے۔یہ محض خام خیالی ہے۔عسکری قوت کے بغیرکسی بھی سطح پراپنے آپ کومنوانا انتہائی دشوارہوتاہے۔یورپ کونرم قوت پرنازہے مگراب وہ سوچنے پرمجبورہورہے ہیں کہ عسکری قوت کے بغیرآگے بڑھتے رہنااوراپنی فتوحات کوبرقراررکھناانتہائی دشوارہے۔یورپ کے بہت سے باشندوں نے اس حقیقت پرہمیشہ فخرکیاہے کہ انہوں نے امریکہکی طرح ہرمعاملے میں عسکری قوت بروئے کارلانے پرٹیکنالوجی اورمعاشی قوت کوآلہ کار بنانے کوترجیح نہیںدی ۔ان کے خیال میں ایساکرنے سے دنیابھرمیں یورپ کے حوالے سے یہ تاثرمستحکم ہواہے کہ وہ اپنے مفادات کیلئے کسی کے امن کوداؤپرلگانے کی بجائے مل جل کرچلنے پریقین رکھتاہے۔یورپ کے عام باشندے کے دل میں یہ احساس پایاجاتاہے کہ دنیاکواصولوں اوراخلاقی اقدارکے مطابق چلانے کی کوشش کرکے یورپ کے قائدین نے امریکہ پراخلاقی برتری حاصل کی ہے۔ہرمعاملے کوعسکری قوت کے ذریعے حل کرنے کے بجائے بات چیت، اشتراکِ عمل،معاونت اورامن کے ذریعے درست کرنے کی کوشش اہلِ یورپ کے نزدیک بہت وقیع ہے۔
یورپی قائدین کواس بات کااحساس تھاکہ اگروہ ایک معاملے میں طاقتورنہیں ہیں تودوسرے معاملے میں ہیں۔عسکری قوت اگرچہ کم ہے مگرمعاشی اعتبارسے سپرپاورکے درجے میں ہوناکیابراہے۔ان کایہ بھی خیال تھا کہ عسکری مہم جوئی سے گریزکرکے وہ اپنی طرزِزندگی کومحفوظ رکھنے میں بہت حدتک کامیاب ہوجائیں گے۔یورپی یونین اِسی خیال سے اب تک عسکری مہم جوئی سے گریزکی راہ پرگامزن دکھائی دے رہی تھی لیکن نیٹوکوامریکہکے ماتحت کرکے اس تاثرکی نفی ہوگئی ہے۔یقینا1990کے عشرے میں بین الاقوامی ادائیگیوں کوڈالرسے الگ کرنے کی خاطریوروکامتعارف کرایاجانابھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔فرانس کے ارادے بلند ترتھے تاہم جرمنی بعض معاملات میں متشکک دکھائی دیا۔امریکہ کیلئے یہ مشکل گھڑی تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ یورپ اپناراستہ بدل رہاہے۔عالمی مالیاتی نظام اب تک ڈالرسے وابستہ ہے۔یوروکا متعارف کرایاجانااِس امرکی دلیل تھاکہ یورپ اب امریکہ کی پالیسیوں سے زیادہ متفق نہیں۔
یورپی یونین کویہ اندازہ نہ تھا کہ بھرپورعسکری قوت کے بغیروہ اپنی خارجہ پالیسی کوبہتراندازسے آگے نہ بڑھاسکے گااور معاشی مفادات کوتحفظ فراہم کرنابھی ممکن نہ رہے گا۔ امریکہ نے اس کمزوری کابھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مفادات کوزیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کاسلسلہ شروع کردیاہے۔ایران کے معاملے میں اس نے یہی کیاہے۔امریکی قیادت نے ایران پرنئی پابندیاں عائدکرنے کے ساتھ ساتھ ان یورپی کاروباری اداروں کے خلاف بھی کارروائیوں کااعلان کردیاجوایران سے لین دین جاری رکھیں گے۔ساتھ ہی ساتھ امریکہنے ان اتحادیوں کے خلاف کارروائی کابھی عندیہ دیاہے جوایران سے تیل خریدناترک نہیں کریں گے۔
فولاداوردیگراشیاپردرآمدی ڈیوٹی میں اضافے سے بھی نئی اقتصادی جنگ شروع ہوئی ہے۔امریکہنے چین سے فولاداوردیگر اشیاکی درآمدپرڈیوٹی بڑھائی توچین نے بھی جوابی اقدامات کیے۔اب کوئی ہفتہ نہیں گزرتاجب دونوں ممالک مختلف اشیاپر درآمدی ڈیوٹی بڑھانے کااعلان نہ کرتے ہوں۔یورپی یونین کے کاریں بنانے والے ادارے بھی پریشان ہیں کہ اس صورت حال میں کریں توکیاکریں۔تجارتی جنگ سے جلدیابدیرمحض نقصان ہی ہوگا۔امریکہاوریورپ دونوں کے صنعتی اورتجارتی اداروں کوغیر معمولی مسابقت کاسامنا ہو گا۔خام مال مہنگاہوتاجائے گا۔منافع کی شرح گرتی جائے گی۔ یورپ کے بہت سے صنعتی اداروں کو چین کی بڑھتی ہوئی معاشی ترقی کے سبب اپنی سرگرمیوں کابڑاحصہ امریکہمنتقل کرناپڑے گا۔امریکی اداروں کابھی حال براہی ہوگا۔یہ سب کچھ ایک بڑے معاشی بحران کوجنم دینے کاسبب بن سکتاہے۔معاملات زیادہ بگڑنے کاخدشہ یوں بھی ہے کہ یورپی یونین کے بہت سے ارکان سلامتی کے حوالے سے نیٹوکی کمٹمنٹ پوری کرنے سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کواداکرنے کی کوشش نہیں کررہے۔جرمنی اوردیگربڑی طاقتوں سے یہ شکایت عام ہے کہ وہ عسکری کاروائیوں کیلئے خاطرخواہ فنڈزفراہم نہیں کررہے۔اگرفنڈزکی کمی برقراررہی تو امریکہنیٹوکے پلیٹ فارم سے مشرقی یورپ میں پولینڈ،ایسٹونیا،لٹویا اور لتھوانیاکی سلامتی کی ذمہ داری سے کنارہ کش ہوسکتاہے۔یہ صورت حال بہت پریشان کن ہے اوریہ صورتحال برقراررہی توتجارتی جنگ کو کسی انتہائی خطرناک مرحلے میں داخل ہو سکتی ہے۔
انیسویں صدی کے دوران افیون کی جنگ کے دوران برطانوی برآمدات کوکسی بھی رکاوٹ سے بچانے میں مرکزی کردار برطانوی قیادت کی جانب سے طاقت کے استعمال کی دھمکی نے اداکیاتھا۔امریکہبھی یہی کچھ کرتاآیاہے۔اب بھی وہ اپنے معاشی مفادات کوزیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی خاطرطاقت کے بے محابااستعمال کی راہ پرگامزن ہوسکتا ہے۔اگرامریکہاپنی منڈیاں بندبھی کردے توبعض خطوں سے فوج ہٹانے کی دھمکی اس کی مصنوعات کیلئے راہ کھلی رکھنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
یہ نکتہ کوئی بھی ایک مضبوط دلیل کی حیثیت سے پیش کرسکتاہے کہ مشرقی یورپ سے افواج ہٹاناحکمتِ عملی کے اعتبار سے ایک بڑی غلطی تصورکیاجائے گاکیونکہ ایساکرنے سے روس کو اپنے اثرات کا دائرہ وسیع ترکرنے میں غیرمعمولی حدتک مددملے گی۔اس سلسلے میں امریکہایسی فضاپیداکرنے کی کوشش کررہاہیجہاں معاملات اس کے حق میں ہموارہوں اوردوسری
روس کوکنٹرول کیاجاسکے،اس سے مشرقی یورپ میں یہ تاثرپیداہوگاکہ اس کاوجود خطرے میں ہے۔ایسی صورت میں یورپی یونین کیلئیامریکہکی مرضی کی راہ پرگامزن ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا۔ابہام پیداکرکے امریکی قیادت سرمایہ کاری کا رخ بھی موڑسکتی ہے اورووٹرزکوبھی مجبورکرسکتی ہے کہ وہ طاقت کے استعمال کے حق میں ووٹ دیں۔یورپی قائدین اب تک اس امرکے خواہش مندرہے ہیں کہ معاشی قوت سے کام لیاجائے اورعسکری قوت کوبہترین آپشن کی حیثیت سے بروئے کارنہ لایاجائے جبکہ امریکہچاہتاہے کہ عسکری قوت کے استعمال کاآپشن پہلے نمبرپررکھاجائے۔اس کی تمام پالیسیاں عسکری قوت کے استعمال کے ذریعے اپنی بات منوانے کی بنیادہی پراستوارہیں۔
ٹرمپ کے دورمیں،بدقسمتی سے،یورپ کیلئے پیغام یہ رہاہے کہ اگروہ اپنے معاشی مفادات کوحقیقی اوردیرپاتحفظ فراہم کرناچاہتا ہے تو اپنے طورپرکچھ نہ کچھ کرناپڑے گایعنی عسکری قوت کے ذریعے دنیاکویہ پیغام دیناپڑے گاکہ وہ اپنے مفادات کوتحفظ فراہم کرسکتاہے۔اس لئے یورپی یونین کیلئے ممکن نہیں کہ عسکری قوت بروئے کارلائے بغیرخارجہ پالیسی اور معیشت کے میدان میں اپنی بات باقی دنیاسے منواسکے۔یورپ پریہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگروہ اپنے معاشی مفادات کوحقیقی تحفظ فراہم کرنے کاخواہش مندہے تو امریکہ پرزیادہ انحصارکرناچھوڑدے لیکن افغانستان سے انخلا نے صورتحال مکمل طورپر تبدیل کردی ہے۔

 

Comments are closed.