Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

فقیہ عصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

تلگو رسم الخط میں قرآن مجید کی کتابت
سوال: کیا قرآن مجید کی تلگو زبان میں کتابت کرنا درست ہوگا؟ اس طرح کہ اس کے ساتھ تلگو کا ترجمہ بھی لکھا جائے ؛ تاکہ جو لوگ اردو اور عربی سے واقف نہ ہوں، وہ بھی قرآن مجید کی تلاوت کر سکیں اور اس کا ترجمہ پڑھ سکیں۔ (شیخ محمد، گنٹور)
جواب: کسی دوسری زبان کے رسم الخظ میں قرآن مجید کو لکھنا درست نہیں ہے؛ کیوں کہ عربی زبان کے تلفظ کو کسی بھی دوسری زبان میں پوری طرح ادا نہیں کیا جا سکتا: ویمنع من کتابۃ القرآن بالفارسیۃ بالاجماع (کتاب التنجیس: ۱؍۴۷۷) ہاں، قراان مجید کے عربی متن کے ساتھ تلگو زبان میں اس کا ترجمہ لکھا جا سکتا ہے: فان کتب القرآن وتفسیر کل حرف وترجمتہ جاز (فتح القدیر: ۱؍۴۸۶) البتہ بعض دفعہ نومسلموں کو براہ راست عربی زبان میں قرآن مجید کا متن پڑھانا دشوار ہوتا ہے، تو ایسے لوگوں کے لئے اس حد تک گنجائش ہو سکتی ہے کہ عربی متن کے ساتھ ساتھ اُسی متن کو نیچے تلگو رسم الخط میں بھی لکھ لیا جائے، ہندوستان کے بعض اکابر اہل علم کے فتویٰ سے اس کی تائید ہوتی ہے، (دیکھئے: منتخبات نظام الفتاویٰ: ۳؍۴۲۸)
قرآن مجید کی عربی ہی میں کتابت بڑی اہم مصلحت پر مبنی ہے، اور وہ یہ کہ قرآن مجید سے پہلے کی مختلف آسمانی اور مذہبی کتابوں کا اصل متن گم ہو کر رہ گیا؛ کیوں کہ ان کی دوسری زبانوں میں کتابت کی گئی، پھر اس سے اس کا ترجمہ کیا گیا، نتیجہ یہ ہوا کہ اصل متن گم ہوگیا اور ترجمہ در ترجمہ لوگ پڑھتے رہے؛ اس لئے قرآن مجید کے اصل عربی متن کے ساتھ ترجمہ درج کرنا واجب ہے۔

مکمل قرآن مجید کا ہندی ترجمہ
سوال: اگر قرآن مجید کا پورا ترجمہ ہندی یا انگریزی وغیرہ میں شائع کر دیا جائے تو کیا وہ قرآن سمجھا جائے گا؟ اور اس کو بغیر پاکی کے چھونا جائز ہوگا؟ (شیخ محمد، گنٹور)
جواب: قرآن کا متن اگر کسی دوسری زبان کے رسم الخط میں لکھا جائے تو وہ قرآن کے حکم میں نہیں ہے؛ لیکن احتیاطاََ اور قرآن مجید کی نسبت کے احترام میں اس کو بھی بے وضوء چھونا مکروہ ہے: ولو کان القرآن مکتوبا بالفارسیۃ یکرہ لھم مسہ عند أبی حنیفۃ وکذا عندھما علی الصحیح (فتاویٰ ہندیہ: ۱؍۲۰)

روپیہ سے سونے کی ادھار خرید وفروخت
سوال: سونے کے زیور کی قیمت پچاس ہزار روپئے طے ہوئی اور یہ بھی طے ہوا کہ قیمت ادھار رہے گی اور خریدار بعدمیں ادا کرے گا، ایک عالم صاحب نے کہا کہ سونے کو ادھار خریدنا جائز نہیں ہے، یہ کہاں تک درست ہے؟ (امتیاز ملا، ممبئی)
جواب: اگر کرنسی جیسے: روپیہ، ریال، ڈالر وغیرہ سے سونا خرید کیا جائے تو قیمت کو ادھار رکھنا بھی جائز ہے، ہاں اگر سونے کو سونے کے بدلے یا چاندی کے بدلے بیچا جائے تو دونوں کا نقد ہونا ضروری ہے: بیع الثمن بالثمن أی ما خلق للثمنیۃ ومنہ المصوغ جنسا بجنس أو بغیر جنس (الدر المختار: ۷؍ ۵۲۰)

۱۸؍ کیرٹ سونے کے زیور کا ۲۲؍ کیرٹ سونے سے تبادلہ
سوال: ہمارے پاس اٹھارہ کیرٹ سونے کا زیور ہے، میں اسے بدل کر بائیس کیرٹ سونے کا زیور خرید کرنا چاہتی ہوں؛ لیکن دونوں کے وزن میں فرق ہوگا تو کیا اس طرح تبادلہ کرنا درست ہوگا؟ (امتیاز ملا، ممبئی)
جواب: اگر سونے کا تبادلہ سونے سے ہو تو چاہے دونوں کے اندر خالص اور کھوٹ کی مقدار میں یا بناوٹ اور ڈیزائن میں فرق ہو، دونوں کو برابر مقدار میں ہی بیچنا ضروری ہے، یہ جائز نہیں ہے کہ ایک طرف سے زیادہ اور دوسری طرف سے کم مقدار ہو، اگر ایک زیور میں زیادہ مقدار سونے کی ہو اور کم مقدار کھوٹ کی، تو مجموعی طور پر وہ پورا کا پورا سونا ہی سمجھا جائے گا: فإ ن باع فضۃ بفضۃ وذھبا بذھب لا یجوز إلا مثلا بمثل وإن اختلف فی الجودۃ والصیاغۃ (ہدایہ: ۳؍۱۰۴) یہی بات فتاویٰ عالمگیری میں بھی لکھی گئی ہے: واذا کان الغالب علی الدراھم الفضہ فھی فضہ ………. الخ (فتاویٰ ہندیہ: ۳؍ ۲۱۹)؛ اس لئے یہ صورت درست ہے کہ اٹھارہ کیرٹ کے سونے کو دکاندار سے بیچ دیں اور ان ہی پیسوں سے بائیس کیرٹ کا سونا خرید لیں؛ چوں کہ سونے کا تبادلہ براہ راست سونے سے نہیں ہوگا؛ اس لئے یہ صورت جائز ہوگی، چاہے بیچنے والا اسی قیمت میں اُسی وزن کا بائیس کیرٹ کا سونا دیدے۔

دینداری میں کمی کی وجہ سے بیوی کو طلاق
سوال: اگر بیوی دیندار نہیں ہو، نماز روزہ وغیرہ کی پابندی نہیں کرتی ہو تو کیا شوہر پر ضروری ہے کہ اسے طلاق دے دے؟ (کفیل احمد، مغل پورہ)
جواب: اگر بیوی کے اندر دینی اعتبار سے غفلت اور کوتاہی پائی جاتی ہو تو شوہر کو چاہئے کہ سمجھا بجھا کر پندو موعظت کے ذریعہ اس کی اصلاح کرے، اور اس کی کمی کو دور کرنے کی کوشش کرے، اس کی وجہ سے شوہر پر بیوی کو طلاق دے دینا واجب نہیں ہے: لا یجب علی الزوج تطلیق الفاجرۃ ولا علیھا تسریح الفاجرۃ، إلا إذا خافا أن لا یقیما حدود اللہ (البحر الرائق: ۳؍ ۱۱۵)موجودہ دور میں طلاق سماج کے لئے بہت ہی تکلیف دہ واقعہ ہوتا ہے، شوہر وبیوی دونوں کی زندگی تباہ ہو جاتی ے، بچوں کی پرورش متأثر ہوتی ہے، دو خاندانوں کے درمیان مستقل طور پر نفرت کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے، مقدمہ بازی کی نوبت آتی ہے، دونوں فریق کا ڈھیر سار اپیسہ اور وقت ضائع ہوتا ہے، بہت سی دفعہ مطلّقہ عورت کا دوسرا نکاح نہیں ہو پاتا اور زندگی اس کے لئے بوجھ بن جاتی ہے، اس سے بعض اوقات اخلاقی برائیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں؛ اس لئے موجودہ حالات میں طلاق آخری چارۂ کار ہے اور حتی المقدور اس سے بچنا چاہئے۔

والدین کے مطالبہ پر طلاق
سوال: اگر کسی کے ماں باپ دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو کیا اس پر اپنی بیوی کو طلاق دے دینا واجب ہوگا؛ کیوں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحب زادے کو طلاق دینے کا حکم دیا تھا۔ (کفیل احمد، مغل پورہ)
جواب: طلاق اصل میں جائز نہیں، ہاں اگر کوئی معقول وجہ ہو تب جائز ہے: وأما الطلاق فان الأصل فیہ الحظر بمعنیٰ أنہ محظور إلا لعارض یبیحۃ (بدائع الصنائع: ۳؍۹۷) تو اگر والدین کسی ایسی وجہ کے تحت طلاق کا مطالبہ کریں، جو شرعاََ طلاق کا سبب بن سکتی ہو تب تو طلاق دے دینا جائز ہوگا؛ ورنہ صرف ماں باپ کے حکم کی وجہ سے طلاق دینا جائز نہیں ہے، رہ گیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنے صاحبزادے کو طلاق کا حکم دینا تو ظاہر ہے کہ یہ کسی مناسب سبب کی بنا پر ہی ہوا ہوگا؛ کیوں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے کسی معقول سبب کے بغیر اپنے بیٹے پر طلاق دینے کے لئے دباؤ ڈالا ہو، امام احمدؒ سے ایک شخص نے اسی طرح کا سوال کیا تو انھوں نے طلاق دینے سے منع فرمایا، ان صاحب نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل نقل کیا، امام احمدؒ نے فرمایا: کیا تمہارے باپ عمرؓ ہیں؟ یعنی کیا تمہارے والد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درجہ پر ہیں، جن کے بارے میں ظلم کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ (شرح ریاض الصالحین للعثیمین: ۷۰۲)

آبادی میں آٹے کی چکی لگانا
سوال: ہمارا محلہ بہت گنجان آبادی کا ہے، محلہ کے ایک صاحب نے اپنے گھر میں آٹے کی چکی لگا دی ہے، جس سے بہت شور ہوتا ہے؛ بلکہ جب چکی چلتی ہے تو دیواریں ہلتی ہیں، لوگوں کو ان کے اس عمل پر اعتراض ہے؛ لیکن وہ کسی طرح اس کو ماننے پر تیار نہیں ہیں، اور کہتے ہیں کہ میں نے اپنے گھر میں چکی لگائی ہے، کسی اور کے گھر میں نہیں لگائی ؛ اس لئے کسی کو اس سے روکنے کا حق نہیں ہے، اس سلسلہ میں شرعی نقطۂ نظر کیا ہے؟ (مبین احمد، بھیونڈی)
جواب: انسان کو اپنی املاک میں تصرف کرنے کا یقیناََ حق حاصل ہے؛ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ وہ پڑوسیوں اور محلہ کے دوسرے لوگوں کے لئے نقصان کا سبب نہیں بنے، قرآن وحدیث کی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے فقہاء نے مختلف مسائل میں اس پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے حکم لگایا ہے، اپنے گھر میں ہوٹلوں کی طرح ہمیشہ استعمال میں آنے والے تندور کے لگانے سے منع کیا ہے، آٹا پیسنے کی چکی لگانے سے بھی منع کیا ہے، اور بھی دوسری صورتیں ذکر کی ہیں؛ اس لئے ان صاحب کا آبادی کے اندر آٹا پیسنے کی مشین لگا دینا جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے، درست نہیں ہے، اور پڑوسیوں کا اعتراض درست ہے: لو أراد أن یبنی فی دارہ تنورا للخبز الدائم کما یکون فی الدکاکین، أو رحی للطحن، أو مدقات للقصر لم یجز؛ لأنہ یضر بحیرا نہ ضررا فاحشا لا یمکن التحرز عنہ (ردالمحتار علی الدرالمختار: ۵؍ ۴۴۹)
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.