زندگی توکب کی مرگئی ہے

سمیع اللہ ملک
ہاں میں ہی تواسے جانتاہوں اورکون جانتاہے اسے۔ وہ توخودکوبھی نہیں جانتا۔میرادوست ہے وہ ۔عمرمیں مجھ سے بہت چھوٹا۔اس دنیاکاباسی ہوتے ہوئے بھی یکسرمختلف ہے۔ اس کاہرکام نرالاہے۔بالکل مرعوب نہیں ہے وہ اس سنسارسے۔نجانے کیاکیاکرتاپھرتاہے۔اس ہشت رخی سماج کاباغی۔آپ اسے پیسے سے نہیں خریدسکتے،بالکل بھی نہیں۔ گفتگوتووہ کرتاہی نہیں لیکن اگرکبھی بولنے پرآجائے توسکتے میں آجائیں گے آپ۔خاموش ہوجائے توآپ اسے کھول ہی نہیں سکتے۔ہاں وہ میری طرح ایک رشتے کومانتا ہے، محبت کے رشتے کو۔انسانوں سے ہی نہیں،جانوروں،پرندوں،درختوں سے،دریاں سے،ندی نالوں سے،بپھرے سمندرسے،مفلوک الحال مچھیروں سے،خون تھوکتے مزدوروں سے،خاک بسرانسانوں سے جوبھی کچھ ہے محبت کاپھیلاہے۔
لنڈے کے کپڑے پہننے والامست ملنگ۔آپ کاخوشبومیں بساہواقیمتی لباس،اسے بالکل متاثرنہیں کرسکتا۔ہاں اگرآپ میں محبت کازمزمہ بہتاہوتب آپ اسے اسیرکرسکتے ہیں ۔ پھرتواسے کوئی بھی قیدکرسکتاہے۔ہنسنے ہنسانے والا،گنگنانے والا،چہچہانے والا،لوگوں کے کام آنے والا۔میرایہ پاگل دوست یاورہے،یاورشمشیر۔وہ واقعی جادوگرہے۔دل موہ لینے والا۔وہ ایک مصورہے ،مجسم مصور۔آپ اس کے کمرے میں داخل ہوجائیں توخودکوکسی جادونگری میں پائیں گے۔سب کچھ مختلف،انوکھا اورمنفرد ہے۔وہ ایک بڑے شاپنگ پلازہ میں لوگوں کی تصویریں بناتاہے،لوگ لائنوں میں کھڑے اس کے اشارے کے منتظررہتے ہیں لیکن وہ اپناماڈل خودمنتخب کرتاہے۔کسی کی غلامی نہیں کرسکتاوہ۔میں جانتاہوں لوگوں نے اسے معقول مشاہرہ پرکام دینے کی سرتوڑکوشش کی۔ایک زمانے میں اسے روزگارکی تلاش تھی اوراب روزگاراسے ڈھونڈ تاپھرتاہے۔وہ کسی کی ملازمت کرہی نہیں سکتا۔ آزادبندہ جولوگوں کی آزادی کابھی خواہاں ہے۔وہ ٹیلی ویژن کے مختلف ڈراموں اوراسٹیج شوزمیں اپنی اداکاری کے جوہردکھاچکاہے لیکن وہ اداکارنہیں ہے۔بہت معصوم سابچہ اس کے اندرکلکاریاں مارتارہتاہے۔
چندسال قبل تھرمیں ہم نے پانی کاایک فلاحی پراجیکٹ شروع کیااوروہ بھی میرے ساتھ ہولیا۔میری زندگی کایہ پہلامگرانتہائی خوفناک وزٹ تھاجس نے مجھے زندگی اورموت کی حقیقت کواس قدرقریب سے دیکھنے کاموقع دیاکہ کس طرح پانی کے ایک کنسترکیلئے میلوں سفرکرناپڑتاہے اوروہ میلاگدلاپانی جس کوہم دیکھنے کے بھی روادارنہیں،جہاں جانوراور انسان ایک ہی جگہ پانی پینے پرمجبورہیں۔ہم اپنی بساط کے مطابق کیاکچھ کررہے ہیں،یہ ایک الگ داستاان ہے لیکن یاورکابراحال ہوگیا۔ اس نے وہاں کے مناظرکوایساپینٹ کیا کہ یہاں آتے ہی’’پیاساتھر‘‘کے نام سے اپنی درجنوں پینٹ کی نمائش کرڈالی۔سب کی یہی رائے ہے کہ یاورکی تصویریں موجودہ نظام کے خلاف چیختی اوربین کررہی ہیں۔اس کی تماام تصویریں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئیں اوراس نے ساری رقم ہمارے ادارے کے حوالے کردی کہ تھرکے فلاحی کاموں میں لگادیں۔وہ اب بھی اپنے برش اورکینوس کوپیاسے تھر کے فلاحی کاموں کیلئے وقف کرچکاہے اورتھرزندگی کے مسائل کواپنی تصویروں میں زندہ کرکے ان کی محرومیوں کودورکرنے میں اپناحصہ ڈال رہاہے لیکن کیامجال ہے کہ کبھی اس نے کسی اخباریاالیکٹرنک میڈیامیں اس کی تشہیربھی کی ہوبلکہ وہ ایسے موقع پرغائب ہوجاتاہے۔اس کولاکھ سمجھایاکہ کم ازکم میڈیامیں اس نیک کام کی تشہیر سے لوگوں کی توجہ بہترانداز میں مبذول کروائی جاسکتی ہے لیکن وہ مسکرادیتاہے کہ مجھے صرف اپناوہ کام کرناہے جس کی میرے رب نے توفیق عنائت کررکھی ہے۔آج بھی اس کالباس،رہن سہن وہی ہے جو چندسال سے دیکھ رہاہوں بلکہ ایک مرتبہ مجھے ملنے کیلئے آیاتوبارش میں شرابورتھا۔میں نے اسے فوری طورپراپنے کپڑے دیتے ہوئے مشورہ دیاکہ انہیں پہن لوکہیں تم بیمارنہ پڑجاؤ ۔ چندگھنٹوں کیلئے سوکھنے کیلئے لٹکادو،پھردوبارہ اسی کوپہن لینا۔پہلے تووہ تھوڑاساکسمسایاپھرمان گیا۔پہلی مرتبہ میں نے اسے شلوارقمیض میں دیکھاتوبے حدپیارآیا۔میں نے انتہائی محبت سے اسے رکھ لینے کوکہاتواس سے انکارنہ ہوسکااوراب عیدودیگرتہوارپربڑے شوق سے پہن کرمیرے پاس ضرورآتاہے۔
ایک زمانے میں ہم دونوں بہت ساتھ رہے ہیں۔ہائیڈ پارک کی جھیل کے ایک کنا رے پرمخصوص کونے میں بیٹھ کرکئی مرتبہ چائے اورکافی کامزابھی لیتے رہے ہیں،دریائے ٹیمز کے کنارے ا یک گوشے میں بیٹھ کرایک دوسرے کوغزلیں سنائی ہیں۔انگریزی اورفرانسیسی ادب پربات کی ہے لیکن ٹھہرئیے،یہ سب کچھ بھی اس کاکچھ نہیں بگاڑسکا۔بالکل بھی نہیں ۔مجھے یادہے ایک دن اس نے مجھے کہا:”میں شیطان کاکردارادانہیں کرسکتا۔”میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا”توکس نے کہاہے تمہیں شیطان کاکرداراداکرنے کو،وہ بہت ہنسااورکہنے لگا:
’’اس دنیاکے لوگوں نے اورکس نے‘‘’’بکواس بندکرو،سیدھی طرح بتاکیاچاہتاہے‘‘۔اس نے اپنے مخصوص اندازمیں سرجھکایا اورکہنے لگا’’آپ بھی ناں،دیکھئے ہمارے آس پاس منافقت ہی منافقت ہے۔آپ ہی توکہتے ہیں یہاں کوئی رشتہ نہیں ہے،سب تاجرہیں،ہرشے کے دام ہیں،سب خودکی محبت کے اسیرہیں۔محبت میں دیناہی دیناہے لینا کہاں ہے۔ہم سب ایک دوسرے کوبہت خلوص سے شیطان کاپیروکاربننے کی تلقین کرتے ہیں۔اس ہاتھ دو،اس ہاتھ لو۔ہم کہتے کچھ ہیں،کرتے کچھ ہیں۔یہ شیطانی کام نہیں تو اور کیاہے۔نہیں نہیں میں یہ کردارادانہیں کرسکتا لیکن آپ اگرکوئی ایساڈرامہ لکھیں جس میں ہمارے معاشرے کے شیاطین کاذکرہوتومیں اس کردارکوخوشی سے کروں گاکہ میں اب معاشرے کی ان شیاطین کوبخوبی سمجھ چکاہوں۔رات کے اندھیروں میں مجبورعصمتوں کی چیڑپھاڑکرنے والے یہ خوفناک درندے،دن کے اجالے میں میڈیااوربالخصوص ٹی وی پر کس قدرشرفاکاروپ دھارے پندونصائح کے ساتھ اشک بہارہے ہوتے ہیں۔ملک میں فلاحی کاموں کے افتتاح پراپنے نام کی تختی لگاکرحکومت کے خزانے یالوگوں کے چندے سے لاکھوں روپے ڈکارنے کے باوجودبلندہاتھوں سے دعامیں مصروف نظرآنے کی ایکٹنگ کررہے ہوتے ہیں۔
ہم ہرروزدیکھتے ہیں کہ ان کی کروڑوں روپے کی مالیت کی گاڑی کے ساتھ ساتھ ان کے متوالے اورجیالے بھاگتے ہوئے ان کی گاڑی کے اوپرپھولوں کی پتیاں نچھاورکررہے ہوتے ہیں جبکہ یہ عدالت میں ملک وملت کے کروڑوں روپے کرپشن کے مقدمے کیلئے حاضری کیلئے جارہے ہوتے ہیں۔عدالت کے احاطے میں ان کی گاڑی توداخل ہوجاتی ہے لیکن پھول نچھاورکرنے والے متوالے بس دورسے ان کی ایک جھلک دیکھ کر’’زندہ باد‘‘کے کے نعرے لگاتے ہوئے اپنے خشک گلے کے ساتھ گرجاتے ہیں اورکئی دوسرے متوالے ان پرپاں رکھ کرگزربھی جاتے ہیں۔پچھلی سات دہائیوں سے ان کی تقدیرنہیں بدل سکی لیکن ان کی یہ رہنماہرسال اپنی کروڑوں روپے کی گاڑیوں کے ماڈل ضرورتبدیل کر لیتے ہیں۔
میں سوچتاہوں کہ وہ بہت عجیب ہے،بہت زیادہ۔مجھے یادہے کہ ایک زمانے میں جب لڑکیاں اس کے اردگردمنڈلاتی رہتی تھیں،میں نے اس سے کہا’’یاور!توشادی کیوں نہیں کر لیتا؟‘‘آپ بھی ناں،میں انہیں افورڈہی نہیں کرسکتا۔ہردوسرے مہینے تویہ گاڑی بدل لیتی ہیں،مجھے بھی کبھی جلد بدل دیں گی۔نہیں نہیں مجھے معاف کیجئے میں ایسے ہی بھلاہوں۔ پھر اس کاقہقہہ گونجتا۔بھرپورزندگی لئے ہوئے قہقہہ۔میں اس کے طنزکوجانتاہوں۔
پھرہم دونوں،دونوں ہی کیاہم سب کے سب جیتے جی دنیاکوپیارے ہوگئے۔زندگی سے لڑناکوئی آسان کام ہے بھلا۔اورپھرہم بددماغوں کادنیاسے لڑناایب نارمل لوگ۔ہاں مجھے اقرارہے،میں اپنے رب کاشکراداکرتاہوں،میرے سارے دوست نارمل نہیں ہیں۔ پاگل ہیں،سب کے سب۔میرے مولاتیراشکرہے تونے مجھے ایسے چریادوست دئیے۔ میں اپنے دوستوں کی بات کر رہاہو،میرے شناساتوبہت ہیں،وہ سب انسان ہیں،نارمل انسا ن لیکن میری ان سے دوستی کب ہے۔شناسائی ہے بس، شناسائی۔ یاورسے میری ملاقاتیں کم کم ہونے لگیں،کبھی کبھارفون پراس کی آوازسنائی دیتی’’آپ بھی ناں،کہاں غائب ہیں۔‘‘جب میں کہتا ’’توکہاں غرق ہوگیاہے‘‘تب اس کاوہی قہقہہ گونجتا ’’آپ ہی
توکہتے ہیں ہم جیتے جی مرگئے۔‘‘
چھ سات ماہ پہلے اس کابڑابھائی میرے پاس آیا’’بھائی،یاورکوکیوں نہیں سمجھاتے؟آپ کی توبات سنتاہے،مانتاہے۔‘‘میں نے پوچھاکیاہوا؟’’ہوناکیاہے،کب کرے گا شادی؟ ‘‘ میں نے ان کے سامنے یاورکوفون کیا۔’’جی ،جی،جی کیابات ہے آپ کی واہ واہ، آپ ہی کویادکررہاتھا،حکم کیجئے‘‘۔’’توشادی کیوں نہیں کرتا؟‘‘وہ بہت ہنساسب لوگ ڈھونڈ رہے ہیں لڑکی، جلد کرلوں گا،آپ کوبتاتاہوں،اس وقت راستے میں ہوں۔ تھوڑی دیر بعدفون کروں گا۔اس کے بڑے بھائی کے چہرے پرمسکراہٹ آئی۔’’ٹھیک ہے میں نے یاورسے کہہ دیاہے،انشا اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ایک دن رات گئے اس کی بہن کافون آیا’’بھائی کیسے ہیں آپ؟‘‘۔’’میں ٹھیک ہوں ،خیریت توہے؟‘‘’’آپ یاورکو سمجھائیں ناں،ہم سب اپنے گھروں کے ہوگئے،ابوہیں نہیں،امی کب تک اسے سنبھالیں،وہ توخوداتنی کمزورہوگئی ہیں،کون سنبھالے گااسے،کب کرے گاوہ شادی‘‘۔اچھاتم مطمئن ہوجاؤابھی اسے ٹھیک کرتاہوں۔ میں بہت غصے میں تھا،تھوڑی دیربعد میں نے یاورکوفون کیااوراتنی سنائیں کہ اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔خلاف معمول وہ خاموش تھا ۔پھراس کی آوازآئی’’میں ابھی آرہاہوں آپ کے پاس،آپ جوکہیں گے،وہی کروں گا۔پہلے میری بات سن لیجئے گا ‘‘۔
وہ میرے پاس آیااورآتے ہی شروع ہوگیا۔’’آپ کوکیاہواہے،نہیں نہیں میں آپ سے ملنے آیاہوں لیکن یہ میرے سامنے آپ نہیں ہیں۔میں جن سے ملنے آیاہوں وہ کہاں ہیں ۔نہیں نہیں یہ آپ نے اچھانہیں کیا۔بالکل بھی نہیں۔یہ ہم سب کے ساتھ زیادتی ہے‘‘۔شفیق نے بھی جومیراجانی دشمن ہے،اس کاساتھ دیا’’بالکل یہ زیادتی ہے۔تمہیں تمہاری ضرورت نہیں ہے،ہم سب جانتے ہیں ۔ہمیں توہے ناں ۔’’بہت مشکل سے میں نے انہیں چپ کرایا۔
’’ہاں یاوربول کیامسئلہ ہے۔کیوں نہیں کرتاشادی۔کیوں پریشان کررہاہے سب کو۔سیدھی طرح بات کرنا۔مجھے تمہاری بکواس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘‘ہاں میں بہت تلخ تھا۔
اس نے سرجھکایا’’آپ ٹھیک کہتے تھے،میں نہیں مانتاتھا،اب میں مانتاہوں۔یہاں ہم سب کے سب غلام ہیں۔ قیدی ہیں۔دنیاکے قیدی۔ہم نے عذاب خودخریدے،ہم نے اپنادوزخ خودبنایا‘‘۔’’اپنافلسفہ میرے سامنے مت بگھار۔یہ میں تجھ سے زیادہ بگھارسکتا ہوں،سیدھی طرح بکواس کروچاہتاکیاہے‘‘؟
یہاں جیناکتنامشکل ہے۔ہمیں سنایاجاتاہے سادگی اختیارکرو،اسراف مت کرولیکن جب ہم سادگی اختیارکرتے ہیں تولوگ نجانے ہمیں کیاکیاکہتے ہیں،ہمیں انسان نہیں دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھتے ہیں۔’’تواصل بات کیوں نہیں کرتا،مجھے تیرابیہودہ لیکچرنہیں سننا۔میں زچ ہوگیاہوں تمہاری گفتگوسے‘‘۔
’’اچھا،اچھاسیدھی بات بتاتاہوں۔میں شادی کرنے کیلئے تیار ہوں لیکن بہت سادگی سے۔کوئی مہندی نہیں،کوئی مووی نہیں،کوئی بکواس نہیں۔بس سادگی سے نکاح کرناچاہتا ہوں۔ مجھے بالکل بھی جہیزنہیں چاہئے‘‘۔تواس میں کیامسئلہ پھر؟
’’ہاں یہی تومسئلہ ہے سب سے بڑا۔پچھلے آٹھ ماہ میں درجنوں لوگوں نے میرے انٹرویوکیے۔کسی کومیراکام پسند نہیں آتا۔ کسی کومیراحلیہ پسندنہیں آتا۔چاچا،ماما،بہنوئی،خاندان بھرکے سامنے انٹرویودیتے دیتے تھک گیاہوں۔بہت کومیں پسندبھی آیاتووہ سادگی سے شادی پرتیارنہیں ہیں۔میں نے ایک بیوہ سے بھی اپنی بہن کے ذریعے بات کی تووہ بھی تیارنہیں ہے اور میں اس شادی کی خرافات اوربیہودہ رسموں کونہیں مانتا۔اصل تونکاح ہے ناں،آپ نے درجنوں نوجوانوں کے نکاح مسجدمیں خودپڑھائے ہیں اورمیرے علم کے مطابق سب خوشی سے اپنی زندگی گزاررہے ہیں۔میری عمر35سال ہوگئی ہے،میری کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے۔ بس میں سادگی سے شادی کرناچاہتاہوں اورکوئی تیارنہیں ہے۔اب میراقصوربتائیے۔آپ ہی توکہتے تھے یہاں شادی کیاموت بھی مشکل ہے۔مرنے پربھی کمرتوڑخرچ اٹھ جاتاہے۔میں بھی قرض لوں،لڑکی والے بھی قرض لیں،مووی بنے تو کوئی نہ کوئی رشتے دارناراض ہوجاتاہے۔شادی کے بعدکوئی گھرآئے تواسے البم دکھاؤ۔مووی دکھاؤ۔لڑکے والے بھی پریشان کہ اب قرض کیسے چکائیں اورلڑکی والے بھی بیزار کہ اب کیسے حساب بے باق ہوگا۔ساری زندگی کاگورکھ دھندا رسوما ت ہی رسومات۔کسی غریب کاہاتھ نہیں پکڑیں گے۔میں توسب کچھ قبول کرنے کوتیارنہیں ہوں۔آپ ابھی کہیں میں اسی وقت آپ کے ساتھ چلنے کوتیارہوں۔جوآپ کہیں گے میں کروں گا۔‘‘
میرے سامنے یاوربیٹھاتھا۔اس کے اندرکامعصوم بچہ اب بھی زندہ ہے۔ وہ سماج کواس کی اصل شکل دکھانے کیلئے آئینہ لئے گھوم رہاہے۔سچ کہتاہے وہ،ہم سب منافق ہیں۔کہتے کچھ ہیں،کرتے کچھ ہیں۔ہم سب غلام ہیں،سماج کے غلام۔ہاں یہاں باغیوں کاکوئی مستقبل نہیں ہے۔ پاگل ایب نارمل لوگ۔ ہرطرف تاجر،دھوکا دہی دھوکا۔کوئی دینے والا نہیں ہے،سب کے سب لینے والے۔کہاں ہے اس میں محبت،اخلاص،ایثار۔ہاں یہ لفظ گم ہوگئے ہیں۔گلاسٹراسماج،اس کی بدبوسے سانس لینا دوبھرہوگیاہے۔ پھربھی ہم جی رہے ہیں۔ سسکنے کوجیناکہتے ہیں۔ہم سب مرگئے ہیں۔ بدروحوں کے مسکن میں سسک رہے ہیں ہم سب۔ زندگی توکب کی مرگئی ہے۔
کچھ بھی نہیں رہے گا۔بس نام رہے گا اللہ کا۔
وہ جوگیت تم نے سنانہیں،مری عمربھرکاریاض تھا
مرے دردکی تھی وہ داستاں جسے تم ہنسی میں اڑاگئے
Comments are closed.