چھٹی قومی اہل قلم کانفرنس 2021

فاکہہ قمر،سیالکوٹ
برقی پتہ:[email protected]
پاکستان کے معروف صحافی، کالم نگار، ایڈیٹر، کہانی کار، مصنف، ڈرامہ نویس محترم محمد شعیب مرزا صاحب کے نام سے کون ہے جوواقف نہیں ؟ ہر ادیب کی یہ ہر دل عزیز شخصیت ہیں.ماشاء اللہ سے 18 سال سے ماہنامہــ’’ پھول ‘‘کے ساتھ وابستہ ہیں اوربچوں کے لیے ادبی، دینی اور اخلاقی تربیت کے لئے ہمہ وقت فکر مند رہتے ہیں اور سب سے بڑھ کر ان کی اچھی خوبی یہ ہے کہ ہے یہ بہت ہی زیادہ ملنسار اور اچھے اخلاق کے مالک ہیں۔ہرسال ادیبوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک بھرپور تقریب منعقد کرواتے ہیں جس میں ملک بھر سے تمام ادبی شخصیات اور ادب دوست اس میں شرکت کرتے ہیں۔ان کی اسی ادب دوستی کو دیکھتے ہوئے میں نے بھی اس محفل میں شرکت کی خواہش کا اظہار کیا۔یہ میری درینہ حسرت تھی کہ جن کو میں پڑھتی یا ان کے نام سے بخوبی واقف ہوں ان سے شرف ملاقات ضرور کروں۔میری خوش قسمتی ہے کہ محض چھ ماہ کے مختصر عرصے میں میری تین تحاریر ماہنامہ ’’پھول‘‘ کی زینت بنی اور سال کے آخر میں مجھے ایک دن اچانک سے پاکستان پوسٹ کے ذریعے ایک غیر متوقع خط ملا جس نے میری خوشی دوبالا کردی۔میری دلی تمنا پوری ہونے جارہی تھی ایسے میں اپنی آمد اور پروگرام کو صیغہ راز میں رکھتے ہوئے میں نے اپنی ہم شہر مصنفہ ’’ہما مختار احمد‘‘ کے ساتھ پروگرام ترتیب دیا۔بروز اتوار 26دسمبر 2021ء کی صبح ہم نے 8بجے رخت سفر باندھا اور اللہ کا نام لے کر چل پڑے۔میرے لیے یہ پہلی ادبی تقریب تھی جس میں شرکت کرنے جارہی تھی تاہم لاکھ کوشش اور خواہش کے باوجود بھی ہم دیر سے پہنچے جس کا مجھے شدت سے افسوس ہے۔
’’چھٹی قومی اہل قلم کانفرنس‘ جس کا موضوع ’’ بچوں کے حقوق کے تحفظ اور امن کے فروغ میں اہل قلم کا کردار‘‘ یہ تقریب "ماہنامہ پھول” محکمہ بلدیات پنجاب اوراکادمی ادبیات اطفال کے تعاون سے ہوئی جس کے روح رواں شعیب مرزا صاحب تھے جبکہ مہمانان خصوصی بھی نامور ادبی وسماجی شخصیات تھیں۔یہ تقریب آرٹس کونسل (الحمرا) کے تعاون سے مورخہ 26 دسمبر 2021 الحمرا ہال نمبر 2 لاہور پاکستان میں منعقد کی گئی۔جس میں "تسنیم جعفری ایوارڈ” بھی دیئے گئے۔
معاون خصوصی حکومت پنجاب حسان خاور،ڈی جی لوکل گورنمنٹ پنجاب کوثر خان،چائلڈ پروٹیکشن آفیسر پنجاب اضلان بٹ اور آزاد کشمیر سمیت پاکستان بھر سے اہل قلم تشریف لائے تھے۔اس کانفرنس کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا پہلے سیشن کے مہمان خصوصی وزیر اعلی کے معاون خصوصی حسان خاور صاحب تھے جنہوں نے ایوارڈز دیئے۔ دوسرے سیشن کے مہمان خصوصی نوائے وقت کے ڈائریکٹر جنرل آپریشن سید احمد ندیم قادری صاحب تھے، تیسرے سیشن کی مہمان خصوصی بشری رحمن صاحبہ تھیں جو بیماری کے باوجود تشریف لائیں اور تقریب کے اختتام تک ادیبوں میں شیلڈز تقسیم کرتی رہیں۔اس کے علاوہ بھی بہت سی خاص شخصیات نے تقریب میں شرکت کر کے چار چاند لگائے۔جن میںسرفہرست فاروق دانش (حیدر آبادی)،نذیر انبالوی ،تسنیم جعفری، ڈاکٹر فضیلت بانو ،عادل گلزار، سید بدر سعید ، مسرت کلانچوی،طاہر حفیظ،ڈاکٹر عمران مرتضی،شمیم عارف،عطرت بتول،ذوالفقار علی بخاری، حسن اختر،امان اللہ نیر شوکت،غلام زادہ نعمان صابری،سید آصف علی بخاری و دیگر احباب شامل تھے۔ لاہور کے الحمرا ہال میں منعقدہ قومی اہل قلم کانفرنس میں جنوبی پنجاب کی نمائندہ اورسابق رکن قومی اسمبلی معروف لکھاری ور نامور ناول نگار فخر بہاولپوربشری رحمان اور شعیب مرزا سے مجھ ناچیز کو بھی غیر متوقع طور پر نمایاں ادبی و سماجی خدمات پرادب اطفال ایوارڈ 2021 ء دست مبارک سے وصول کرنے کا اعزاز ملا جو کہ ناقابل بیان اور یادگار لمحات میں سے ایک تھا۔میرا پہلا تجربہ وہ بھی قومی سطح پر معروف مصنفین سے پہلی ملاقات کا نہایت ہی خوشگوار تھا۔کانفرنس کے دوران بہت سے قلمی ساتھی جن کے محض نام سے میں واقف تھی ان سے ملنے کا موقع ملا۔دوران تقریب سب سے بذریعہ سوشل میڈیا کے رابطے میں تھے اور ایک دوسرے کی نشست کا پوچھ رہے تھے اورفراغت ملتے ہی ملنے کے عہد و پیماں جاری تھے۔ان میں فلک زاہد،توقیر ساجد کھرل،نبیلہ اکبر، حافظ عثمان علی معاویہ،محمد فرحان اشرف،محمد شاہد اقبال،اکبر علی،ستارہ امین کومل،نوید مرزا،ملک احسن،محمد برہان الحق،ذوالفقار علی بخاری،شمیم عارف،عطرت بتول،آپی تسنیم جعفری،غلام زہرہ و دیگر شامل تھے۔
سب سے اچھا خطاب اور الفاظ جن پر دلی خوشی ہوئی وہ کچھ یوں تھے:حکومت پنجاب ادیبوں کو ان کا جائز مقام دے گی اور آرٹسٹ سپورٹ فنڈ میں بچوں کے ادیبوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ کیونکہ بچوں کے ادیب نئی نسل کی کردار سازی کا اہم فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار معاون خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب و ترجمان حکومت پنجاب حسان خاور نے لاہور آرٹس کونسل‘ اکادمی ادبیات اطفال‘ یونیسف‘ محکمہ بلدیات پنجاب اور پنجاب آرٹس کونسل کے اشتراک سے الحمراء￿ میں منعقدہ چھٹی قومی کانفرنس میں ملک بھر سے آئے ہوئے ادیبوں سے کیا۔ انہوں نے کہا حکومت بچوں کی فلاح و بہبود کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دے رہی ہے۔ بہت جلد بچوں کے ادیبوں کے وفد کی وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کا اہتمام کیا جائے گا۔ ڈائریکٹر جنرل آپریشنز نوائے وقت کرنل (ر) سید احمد ندیم قادری نے کہا کہ موجودہ حالات میں والدین اور اساتذہ کو بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ بچوں کے ادیب نہایت اہم فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ادب کے ذریعے بہت مثبت تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ ایڈیٹر ’’پھول‘‘ اکادمی ادبیات اطفال کے چیئرمین محمد شعیب مرزا نے کہا کہ اس سرد موسم میں آزاد کشمیر‘ بلوچستان اور ملک بھر سے ادیبوں کی اس کانفرنس میں شرکت ان کے جذبے کی مثال ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ دیگر شعبوں کی طرح بچوں کے ادب پر بھی سول ایوارڈ دیئے جائیں۔ کانفرنس سے بشریٰ رحمن‘ کوثر خان‘ اضلان بٹ‘ ڈاکٹر عمران مرتضیٰ‘ حفیظ طاہر‘ پروفیسر مسرت کلانچوی‘ محمد امجد حسین‘ ڈاکٹر فضیلت بانو‘ وسیم عالم‘ تسنیم جعفری‘ شہزاد اے حمید‘ سجاد منیر اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس میں بچوں کے لئے شائع ہونے والی کتابوں پر ڈیڑھ لاکھ روپے کے ’’تسنیم جعفری ایوارڈ‘‘ بھی دیئے گئے۔
سب سے مسرت بخش وہ لمحہ تھا جب میں پہلی بار اپنے ادبی استاد ذوالفقار علی بخاری سے ملی اور جس قدرجوش و جذبے کے ساتھ انہوں نے والہانہ استقبال کیا اس سے میرا سیروں خون بڑھ گیا۔ انہوں نے اپنی لاڈلی شاگردہ کو جب تمام سینئرز سے متعارف کروایا اور جس قدر ان کی جانب سے والہانہ پن اور بے ساختگی کا مظاہرہ ہوا اس نے میرا دل موہ لیا۔سینئر لکھاری محمد نوید مرزا صاحب کو جب معلوم ہوا کہ میں فاکہہ قمر ہوں تو ان کی مسکراہٹ اور خوشی قابل دید تھی۔ادیب نگر گروپ کی کا رکن کے طور پر جب میرا تعارف تسنیم آپی سے کروایا گیا تو ان کی آنکھوں کی چمک اور پیار بھری جھپی مجھے کبھی نہیں بھول سکتی۔ تسنیم آپی آپ سے ملاقات اس تقریب کا سب سے خاص لمحہ ہے جس نے بے حد مسرور کیا تھا کہ آپ کے ادیب نگر نے ہی تو وہ حوصلہ دیا ہے جس کی بدولت آج کچھ کر رہی ہوں، اس کے بعد دھیرے دھیرے سب کی محبت و رہنمائی ملی ہے جس میں ذوالفقار علی بخاری ،نوشاد عادل اور محبوب الہی کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔کتابوں کے سٹال پر اچانک پیچھے سے کوئی آپ کا نام پکار کر پوچھے کہ آپ فاکہہ قمر ہو تو وہ لمحہ بہت ہی حسین ہوتا ہے،جب شمیم عارف صاحبہ نے گرم جوشی کے ساتھ مجھے اپنے ساتھ لپٹا کر پیار کیا اور میری چھوٹی موٹی ادبی کاوشوں کو خوب بڑھا چڑھا کرعطرت بتول صاحبہ کے سامنے ذکر کیا جس سے میرا سر فخر سے تن گیا اور دونوں اخلاق سے چور ملکائوں نے مجھے اپنی اپنی کتاب بطور تحفہ پیش کی اور ساتھ یادگار لمحات کو ہمیشہ کے لیے امر کرنے کے لیے خوبصورت تصاویر اور آٹوگراف کے ساتھ رخصت کیا۔اسی دوران وقفہ میں ایک خوبصورت سی لڑکی مجھ سے ملی اور اس قدر جوش و محبت کے ساتھ ملی کہ مارے مروت کے میں یہ تک نہ پوچھ سکی کہ آپ کون ہیں؟ آپ کا اسم شریف کیا ہے؟
وہ تو بعد میں بمعہ ثبوت تصویر کی شکل میں جب مسیج آیا تو پتا چلا کہ یہ تو ہم سب کی ہر دلعزیز ستارہ امین کومل ہیں۔مجھے افسوس ہے آپ سے بعد میں ملنے کا اتفاق ممکن نہیں ہوا۔دوران طعام جب اچانک آپ کا کسی ایسے شخص سے تعارف ہو جس سے آپ نام کی حد تک واقف ہوں اور سوشل میڈیا کے طفیل رابطے میں ہوں،جی ہاں بالکل کھانے کے دوران مشہور مصنفہ،شاعرہ،جرنلسٹ اور ایڈیٹر فیملی میگزین کی نامور شخصیت غلام زہرہ سے اتفاقاََ ملاقات ہوئی جو کہ یادگار ثابت ہوئی۔غیر متوقع ایوارڈ کے لیے جب میرا نام بولا گیا تو اپنی سماعت پر پہلے تو یقین ہی نہیں آیا تھا اس وقت کیا احساسات تھے یہ میں لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں،صرف میری پیاری دوست اور کانفرنس کی ساتھی ہما مختار احمد جانتی ہے کہ میری اس وقت کیا حالت تھی۔تقریب کے اختتام پر ہال کے دروازے سے نکلتے ہی پیچھے سے ایک نسوانی اور سریلی آواز والی خاتون نے بآواز بلند پوچھا کہ” آپ میں سے فاکہہ قمر کون ہیں؟”آواز سنتے ہی پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہی ایک انجانی سے خوشی محسوس ہوئی۔کون کہتا ہے کہ آج کل خون سفید ہوگیا ہے ،میرا ماننا ہے کہ بعض دفعہ کچھ ساتھی جن سے سوشل میڈیا یا کام کی حد تک تعلق ہوتا ہے وہ اس قدر مضبوط ہوجاتا ہے کہ خون کے رشتوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔سریلی آواز والی کوئی اور نہیں بلکہ ہماری بہت ہی پیاری نبیلہ آپی تھی جو کہ اپنے خوبرو حافظ قرآن بیٹے حافظ عثمان علی معاویہ کے ساتھ موجود تھیں۔ان کی محبت و شفقت پر میں نثار جائوں اس قدر ملنسار اور مہمان نواز کہ میرے پاس الفاظ ہی نہیں۔نبیلہ آپی آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے ان شاء اللہ تفصیلی ملاقات ہوگی۔
اتنی ساری محبتوں ،دعائوں کے ساتھ جب میں نے واپسی کی راہ لی تو الحمرا کے گیٹ پر اپنے بھائی کو پایا جو کہ لاہور میں مقیم ہیں اور میرے ایوارڈ ملنے کی خوشی میں بطور خاص تحائف کے ساتھ مجھے مبارکباد دینے کے لیے موجود تھے۔اس سے بڑھ کر خوشی اور کیا ہوگی؟میراسارا دن بے حد مصروف لیکن مسرت بخش گزرایہ سب قیمتی لمحات جو مجھے میسر آئے توصرف اور صرف محمدشعیب مرزا کی بدولت۔مختصر وقفے اور رش کے دوران بہت سے لوگوں سے ملاقات نہیں ہوسکی،کچھ سے بعد میں تفصیلی ملاقات کا ارادہ تھا لیکن وہ بعد نہ آسکی اور کچھ رش میں ہی گم ہوگئے۔جن سے نہیں مل سکی ان کا بہت دکھ ہے لیکن امید ہے انشاء اللہ دوبارہ ملاقات ہوگی۔جن سے تھوڑے وقت کے لیے ہی ملی وہ بھی غنیمت ہے میرے لیے ۔
آخر میں شعیب مرزا صاحب کا بہت بہت شکریہ جنہوں نے مجھ نوآموز قلم کار کی ٹوٹی پھوٹی ادبی کاوشوں کو سراہتے ہوئے مجھے اس تقریب کا دعوت نامہ بھیج کر مدعو کیا اور صاحب ایوارڈ ہونے کا شرف بخشا۔سب قلمی ساتھی اور خصوصاََ سینئرز مصنفین کی تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے اس قدر محبت اور عزت افزائی بخشی۔اللہ آپ سب کو صحت و عافیت والی لمبی حیاتی نصیب کرے اور ہمارے سروں پر سلامت رکھے ۔آپ لوگ ہمارا سرمایہ ہیں ،ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔میری دلی دعاہے کہ اللہ آپ سب کو دنیا اور آخرت کے ہر میدان میں سرخرو کرے۔آمین ثم آمین

 

 

 

 

 

 

Comments are closed.