اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم ( قسط12)

بقلم:مفتی محمداشرف قاسمی
دارالافتاء:مہدپور،اُجین ایم پی
غیرمسلم ملک میں مسلمان
جہاں مسلمانوں کو اختیار واقتدارحاصل نہ ہوں وہاں غیرمسلم افراد،حکمرانوں کے حفظ وامان (Protection)میں مسلمانوں کو پناہ حاصل کرنا جائز ہے۔ اس سلسلے کی تین مثالیں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں:
*رسول اللہﷺکومطعم ابن عدی کا تحفظ(Protection)*
اولاً :حین رجع النبی- ﷺ- من الطائف دخل فی جوار المطعم ابن عدی وکان کافرا۔(البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر ج2ص 135،فتح الباری ج7ص324)
1۔”حضرت رسول اللہ ﷺ جب طائف سے واپس ہوئے تو مطعم بن عدی کی پناہ حاصل کی جوکہ اس وقت تک ایما ن نہیں لا ئے تھے۔کافر ہی تھے۔“ (البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر ج2ص 135،فتح الباری ج7ص324)
مطعم ابن عدی کی طرف سے رسول اللہﷺ کو فراہم کئے گئے حفظ وامان (Protection)کی بناپر آپ ﷺ نے غزوہ بدر کے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں مطعم بن عدی کاذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وعن الزھری، عن محمد بن جبیر بن مطعم، عن أبیہ، أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال فی أساری بدر:’لو کان المطعم بن عدی حیا ثم کلمنی فی ھؤلاء النتنیۃ لترکتہم لہ‘۔(بخاری برقم الحدیث، 4024)
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے متعلق فرمایا تھا، اگر مطعم بن عدی رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے اور ان پلید قیدیوں کے لیے سفارش کرتے تو ان کے کہنے سے میں اِنہیں چھوڑ دیتا۔“(بخاری برقم الحدیث، 4024)
*2۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کوابن الدغنہ کاتحفظ*
ثانیاً : دخول ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فی جوار ابن الدغنۃ، وذالک لما ضاقت علیہ مکۃ واصابہ الاذی استأذن النبی – ﷺ- فی الھجرۃ فاذن لہ، فخرج مھاجراً حتی اذا سار من مکۃ یوما لقیہ ابن الدغنۃ وھو سید الاَ حابیش سألہ عن سبب خروج فاخبرہ، فقال لہ: اِرجع فانک فی جواری،فرجع معہ ودخل فی جوارہ،(البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر ج 2ص91)
”حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ابن الدغنہ کی پناہ حاصل کی، اوریہ اس وقت ہوا جب مکہ کی سرزمین ان پر تنگ کردی گئی اور انھیں کافی تکلیف پہونچی تو انھوں نے حضرت رسول اللہﷺ سے ہجرت کی اجازت طلب کی، تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں ہجرت کی اجازت مرحمت فرمادی، پھر یہ مکہ سے ہجرت کے لیے نکلے یہاں تک کہ مکہ سے جب ایک دن کی مسافت طے کرلی توان سے ابن الدغنہ نے ملاقات کی جو کہ سردار تھے، انھوں نے مکہ سے نکلنے کی وجہ پوچھی تو حضرت ابوبکر نے تفصیل بتائی، اس پر ابن الدغنہ نے کہا: آ پ میرے جوار یعنی حفظ وامان (Protection) میں ہو، اس پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ ابن الدغنہ کے جوار وامان میں واپس آ گئے۔“(البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر ج 2ص91)
*3۔شاہ حبشہ حضرت نجاشیؓ کا تحفظ*
شاہ حبشہ حضرت نجاشیؓ کے ایما ن قبول کرنے سے قبل وہاں صحابہ کرامؓ نے ہجرت فرمائی۔
عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ، عَنْ أَبِی مُوسَی رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ: بَلَغَنَا مَخْرَجُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِالْیَمَنِ فَرَکِبْنَا سَفِینَۃً فَأَلْقَتْنَا سَفِینَتُنَا إِلَی النَّجَاشِیِّ بِالْحَبَشَۃِ، فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ فَأَقَمْنَا مَعَہُ حَتَّی قَدِمْنَا،فَوَافَقْنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ افْتَتَحَ خَیْبَرَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَکُمْ أَنْتُمْ یَا أَھْلَ السَّفِینَۃِ ھِجْرَتَانِ.(بخاری۔ 3876و3872)
”حضرت ابو بُردہ، حضرت ابو موسی اشعری سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے نکلنے کا علم ہوا جب کہ ہم اس وقت یمن میں تھے، تو ہم ایک کشتی میں سوار ہوئے یہاں تک کہ ہماری کشتی نے ہمیں شاہ حبشہ حضرت نجاشی ؓ کے پاس ڈال دیا، ہم نے وہاں حضرت جعفرؓ ابن ابی طالب سے ملا قات کی، اور ان کے ساتھ ہم ٹھہر گئے یہاں تک کہ ہم آ گئے اور جب خیبر کی فتح ہوئی تو ہم نے آ کر حضرت رسول اللہﷺ سے ملا قات کی، اس پر حضرت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اے کشتی والو! تمہارے لیے دو ہجرتیں ہیں۔“ (بخاری۔ 3876و3872)
غیر مسلموں کی امان کے لیے جوشرائط شریعت کے دائرے میں فریقین میں طے ہو جائیں، ان کی پابندی کرنا ضروری ہے۔
یَٰأَیُّھَا الَّذِینَ ءَ امَنُوٓاْ أَوْفُواْ باِلْعُقُودِ (1) المائدۃ
”اے وہ لوگوں جوایمان لا چکے ہو! عہد پورے کیا کرو، (1) المائدۃ
یَا أَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُون(2) کبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللّٰہ ِ اَن تَقُولُوا مَالَا تَفْعَلُون(3) الصف
”اے ایمان والو! ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو(2) اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں (3) الصف
فَمَا استَقَامُوا لَکُم فَاستَقِیمُوا لَھُم اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ المُتَّقِینَ (7) المائدۃ
”تو جب تک وہ معاہدہ پر قائم رہیں تم بھی ان سے معاہدہ پر قائم رہو، بے شک اللہ تعالی احتیاط کرنے والوں کو پسند فرما تے ہیں“ (7) المائدۃ
اِن روایات سے معلوم ہوا کہ:
غیر مسلم ملکوں یا شہروں میں غیر مسلم افراد،حکمرانوں کے حفظ وامان (Protection)میں مسلمانوں کو رہناجائز ہے، بوقت ضرورت غیر مسلم ملکوں اور شہروں میں اسی سنت کے مطابق مسلمانوں کو رہائش اختیار کرنی چاہئے۔ اور وہاں کی حکومت یا افراد کی وہ شرائط جو نصوص قرآ ن وسنت سے نہ ٹکراتے ہوں، ان کی پابندی کرنامسلمانوں پر لازم ہے۔
ترتیب:
محمد فاروق قاسمی،
مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی، ضلع:شاجاپور،ایم پی۔
01جمادی الثانی1443ھ،
05جنوری 2022ء
جاری۔۔۔۔۔
Comments are closed.