Baseerat Online News Portal

احساس

شہناز عِفّت
ممبئی
شمائزہ ایک سمجھدار،ملنسار،خوش اخلاق، ہوشیار اور حساس طبیعت کی مالک تھی ۔ وہ نہایت شوخ وچنچل ،اپنے ماں باپ کی ایک فرما ں برداراور ہونہار لڑکی تھی۔ وہ اتنی پیاری تھی کہ جواسےاک نظر دیکھتا وہ اس کوبھاجاتی۔ شمائزہ اپنے پڑوسیوں کی چہیتی اور اپنے والدین کی نور نظرتھی ۔وہ اپنےوالدین سے بہت محبت کرتی تھی ۔اور اس کے والدین بھی اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتےتھے ۔وہ پانچویں جماعت کی طالبِہ تھی ۔بہت زیادہ ذہین و فطین ہونے کی وجہ سے شمائزہ اپنے اساتذہ کی بھی منظور نظر تھی۔ شمائزہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔اس کے والد مزدوری کرتے تھے۔دن بھر کی محنت ومشقت سے چندپیسے حاصل ہوتے مگر آسمان چھوتی ہوئی مہنگائی میں ان پیسوں سےگذارا کرنا نا ممکن تھا،اسی لئے شمائزہ کی ماں گھرمیں سلائی کرکے کچھ روپے کما لیتی تھی اور ضرورت پڑنے پر ان پیسوں کوگھریلواخراجات اوردیگرضروریات کے لئے استعمال کرتی تھی۔ شمائزہ دیکھتی تھی کہ اس کی ماں دن رات گھر کے کاموں میں مصروف رہتی ہیں اور تھکن سے چور چور ہو جایا کرتی ہیں مگر ماتھے پر شکن تک نہیں آنے دیتیں۔ ماں کی یہ پریشانی دیکھ کر شمائزہ اسکول سے آنے کے بعد گھر کے کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹایا کرتی تھی ۔
گھر کے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد شمائزہ اپنے آنگن میں پڑھنے کے لئے بیٹھ جاتی۔ آنگن میں شمائزہ کو بہت سکون ملتا تھا کیوں کہ اس کے آنگن میں مرغیاں ، کبوتر اور درختوں پر چڑیوں کے گھونسلے تھے ۔شمائزہ کو ان معصوم پرندوں سے بہت لگاؤ تھا۔

ہمیں بھی بے زبان جانوروں اور پرندوں سے محبّت کرنی چاہئے اور اگر کوئی جانور یا پرندہ مشکل میں ہو یا ان کو کوئی تکلیف پہونچی ہو تو ہمیں ان کے احساس کو سمجھنا چاہئے اور ان کی مدد کرنی چاہیئے۔

شمائزہ کے آنگن میں بہت سارے درخت تھے ۔ان درختوں پر چڑیوں کا بسیرا تھا۔صبح صبح چڑیوں کی چہچہاہٹ کی آوازیں شمائزہ کے کانوں میں رس گھولا کرتے تھے۔
شمائزہ اکثر دیکھتی کہ چھوٹے چھوٹے پودوں پر تتلیاں منڈلاتی رہتی اور بھنورے پھولوں سے اٹھکیلیاں کرتے تھے، یہ نظارہ اس کو بہت ہی پیارا لگتا تھا۔ وہ اس پر کیف منظر سے بہت لطف اندوز ہوتی تھی ۔
ایک دن شمائزہ اپنے آنگن میں بیٹھی پڑھنے میں مگن تھی کہ یکایک اس کے سامنے ایک چھوٹی چڑیا زمین پر گری اور تڑپنے لگی ۔نہ جانے چڑیا کو کیا ہوگیا تھا ۔ وہ اڑنے کی کوشش کر رہی تھی مگر نا کام ہوجا رہی تھی ۔ شمائزہ یہ دیکھ کر فورا” چڑیا کے پاس آئی اور اس کوبغوردیکھنے کے بعد گھبرئی ہوئی آوازمیں اپنی ماں کوپکارا ۔ شمائزہ کی تیزاورگھبرائی ہوئی آواز سن کر اس کی ماں فورا آنگن میں آپہنچی۔ شمائزہ اپنی ماں کو چڑیا کے پاس لے گئی ۔ اس کی ماں نے چڑیا کو اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور شمائزہ سے کہا چلو اندر چل کر دیکھتے ہیں کہ چڑیا کو کیا ہوا ہے۔ اندر آنے کے بعد شمائزہ کی ماں نے چڑیا کو میز پر رکھا اوربہت غور سے دیکھا۔
چڑیا کو دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ چڑیا کے نازک پیر کسی وجہ سے زخمی ہو گئے ہیں اور زخم کی جگہ سے خون رس رہا ہے۔ چڑیا تکلیف کی وجہ سے بےحس پڑی ہے ۔ یہ سب دیکھ کر شمائزہ کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔شمائزہ کی ماں نے اسے دلاسہ دیا اور ایک صاف کپڑے سے چڑیا کے پیر سے خون کو صاف کیا اور پھر ماں گھر کے اندر سے کچھ دوا لے آئی۔شمائزہ یہ سب متفکرانہ انداز میں دیکھ رہی تھی ۔جیسے ہی شمائزہ کی ماں نے دوا لگانے کے لئے چڑیا کو ہاتھوں میں لیا تو شمائزہ نے فورا” ماں سے کہا کہ آپ مجھے دیں، چڑیا کو دوا میں لگا دیتی ہوں۔ ماں نےکہا ٹھیک ہے اور دوا کی شیشی شمائزہ کو تھمادی ۔بھیگی پلکوں سے شمائزہ نے چڑیا کو اپنے نرم و نازک ہاتھوں میں سنبھالا اور دوا لگائی،دوالگانے کے بعد پٹی باندھنے میں ماں نے شمائزہ کی مدد کی ۔ کچھ گھنٹوں بعد چڑیا چلّانے لگی تو ماں نے سوچا کہ شاید چڑیا بھوکی ہوگی ۔ ماں نے شمائزہ سے کہا کہ پیالی میں تھوڑا سا پانی لے آؤ۔ شمائزہ فورا” پیالی میں پانی لے آئی۔ چڑیا نے پانی پینا چاہا مگر وہ ناکام رہی۔شمائزہ سمجھ گئی کہ درد کی وجہ سے چڑیا کو پانی پینے میں تکلیف ہو رہی ہے ۔ تو اس نے پانی پینے میں چڑیا کی مدد کی۔شمائزہ کی ماں چڑیا کے کھانے کے لئےکچھ دانے لے آئی اور زخمی چڑیا کے اردگرد زمین پہ ان دانوں کو بکھیر دیا۔ چڑیا نے دانوں کو چگا اور تب کہیں جاکر چڑیا کی کچھ جان میں جان آئی۔شمائزہ کی ماں کچھ دیر بعد اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی ،پر شمائزہ چڑیا کی دیکھ بھال کے لئے اس کے پاس ہی بیٹھی رہی ۔
ہمیشہ کامعمول تھاکہ رات کے وقت شمائزہ کے والد کام پر سے تھکے ماندے جب اپنے گھر واپس آتے تو وہ دیکھتے کہ ان کی پیاری بیٹی ان کی راہیں تک رہی ہے، وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوتے ،شمائزہ اپنے والد سے لپٹ جاتی اور اس کے والد پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئیے اس کو دعائیں دیتے ۔مگر آج صورت حال کچھ اورہی تھی ۔شمائزہ چڑیاکی دیکھ بھال اورتیمارداری میں ایسی مگن ہوئی کہ اسے احساس ہی نہیں ہواکہ اس کے والدکب گھرآئے۔یہ صورت حال دیکھ کروالدکوبہت تعجب ہوا ۔صورتِ حال معلوم کی گئی تو حالات سے آگاہی ہوئی۔والد صاحب بھی کھانے سے پہلے شمائزہ کے پاس آئے۔ شمائزہ چڑیا کے پاس ہی بیٹھی تھی۔بہت مایوس نگاہوں سے چڑیا کی طرف دیکھے جارہی تھی ۔اس کے گلابی رخسار پر آنسو کی لڑیاں بنا رکے ہوئے جاری تھی ۔ والد نے چڑیا کا حال دریافت کیا ۔شمائزہ نے بھی چڑیا کی پوری روداد سنا ڈالی۔ رات کا وقت کافی ہوچکا تھا ۔شمائزہ نے کھانا نہیں کھایا تھا کیوں کہ اسے چڑیا کے درد اور تکلیف کا احساس تھا ۔ والدین کے بہت اصرار کرنے پر شمائزہ کھانا کھانے کے لئے تیار ہوئی ۔لیکن پہلے چڑیا کی بھوک مٹائی گئی اور اس کے بعد سب نے مل کر کھانا کھایا ۔ کھانا کھانے کے دوران شمائزہ چڑیا کو اپنے پاس لے آئی اور پھرکھانا کھایا۔ پھر ماں نے شمائزہ سے کہا کہ چڑیا کے پیر پر تیل سے مالش کردو۔ شمائزہ نے اپنے نرم و نازک ہاتھوں سے چڑیا کی مالش کی اور پٹی باندھ دی۔ دوسرے دن شمائزہ اسکول نہیں گئی۔ اسے چڑیا کو درد میں چھوڑ کر جانا پسند نہیں آیا ۔لہذا شمائزہ نے اسکول سے چھٹی لے لی ۔
شمائزہ روز صبح ، شام چڑیا کی ننھی سی ٹانگ کی تیل سے مالش کرتی اور پٹی باندھ دیتی۔کچھ دنوں بعد چڑیا کی ٹانگوں میں کچھ سدھار آیا اور زخم بھرنے لگے ۔یہ دیکھ کر شمائزہ کے والدین اور شمائزہ کو بہت خوشی ہوئی ۔شمائزہ چڑیا کے ساتھ کھیلنے لگی تھی ۔اب شمائزہ کا اکیلے من نہیں لگتا تھا۔ وہ چڑیا سے اس قدر مانوس ہوگئی تھی کہ جیسے چڑیا اس کی زندگی میں بہار بن کر آئی ہو ۔وہ چڑیا کے ساتھ خوب کھیلنے لگی اور یہ سمجھنے لگی کہ چڑیا ہمیشہ اس کے ساتھ ہی رہے گی۔ شمائزہ کو چڑیا سے محبّت ہوگئی تھی۔ایک دن چڑیا پھدک پھدک کر پر پھیلا کر اڑان بھرنےکو سوچ رہی تھی مگر اس کے نازک اور زخم خوردہ پروں نے اس کا ساتھ نہیں دیا ۔چڑیا کوشش کرنے کے بعد بھی ناکام رہی مگر چڑیا نے بھی ہمّت سے کام لیا اور اڑنے کی سعئی پیہم کرتی رہی، اس کی یہ کوشش رنگ لائی اور وہ کچھ کچھ اڑنے میں کامیاب ہوئی۔
شمائزہ صبح شام تیل کی مالش کرتی رہی جس کی وجہ سے چڑیا جلد صحت یاب ہوگئی اور ایک دن ایسا آیا کہ شمائزہ چڑیا کے ساتھ آنگن میں بیٹھی تھی کہ چڑیا کچھ اوپر اڑتی ،پھر واپس نیچے آجاتی ۔لیکن بار بار کوشش کرنے پر چڑیا کامیاب ہوگئی اور پھر اڑ کر ایک درخت کی شاخ پر جا بیٹھی ۔شمائزہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی مگر وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ چڑیا واپس اس کے پاس آجائے گی مگر چڑیا نے چہچہانا شروع کیا اور کچھ دیر آنگن میں اڑان بھرتی رہی، اس کے بعد چڑیا شمائزہ کی آنکھوں سےاچانک ہی اوجھل ہوگئی ۔شمائزہ اسے ڈھونڈتی ہی رہ گئی۔وہ جلدی سے اپنی ماں کے پاس گئی اور روتے روتے ہچکیاں لیتے ہوئیے چڑیا کے اڑ جانے کی مکمل رودادسنائی ۔اس کی ماں نے اسے سمجھایا کہ چڑیا صحت یاب ہوگئی تھی اسی لئے وہ جس دنیاسے آئی تھی وہ اپنی اسی دنیامیں واپس چلی گئی ۔ تم اداس مت ہو بلکہ یہ سوچو کہ تم کو اس بے زبان پرندے کی مدد کرنے کا موقع ملا اور یہ موقع اللّہ نے تم کو نصیب کیا ۔اللّہ نے تم سے اتنا اچھا کام لیا، تم کو خوش ہونا چاہیے۔ اتنا کہہ کر شمائزہ کی ماں نے شمائزہ کے بھیگے ہوئے رخسار کو اپنے آنچل سے صاف کیا۔ اسے چڑیا کے اچانک چلے جانے کا احساس تھا۔ لیکن ماں کے سمجھا نے پر اس نے اپنے آپ کو تھوڑا سنبھالا اور چڑیا کو بھولنے کی کوشش کی۔لیکن یہ احساس کبھی ختم ہونے والا نہیں تھا۔ تھوڑی کوشش کرنے پر شمائزہ پہلے کی طرح اپنے کاموں کو انجام دینے لگی ۔معمول کے مطابق اسکول جانے لگی ۔لیکن کبھی کبھی آنگن میں چڑیوں کی آوازیں سن کر اسے چڑیا کے ساتھ گذارے ہوئے وہ دن یاد آجاتے جسے وہ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ چڑیا کے ساتھ گذارے ہوئے دنوں کا احساس شمائزہ کے دل کے ایک گوشے میں ہمیشہ کے لئےمحفوظ رہ گیا۔
(سبق)
پیارےبچوں!
اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اسی طرح ہمیں بھی بے زبان جانوروں اور پرندوں سے محبّت کرنی چاہئے اور اگر کوئی جانور یا پرندہ مشکل میں ہو یا ان کو کوئی تکلیف پہونچی ہو تو ہمیں ان کے احساس کو سمجھنا چاہئے اور ان کی مدد کرنی چاہیئے۔
غرضیکہ ہمیں زمین پر موجود ہر ذی روح کی تکلیف کا احساس ہونا چاہئے اور ان کی مصیبت کے وقت ان کےکام آنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
کیوں کہ’’ احساس ‘‘سے بڑی کوئی چیز نہیں۔

Comments are closed.