اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم ( قسط13)

بقلم:مفتی محمد اشرف قاسمی
دارالافتاء:مہدپور،اجین ایم پی
وطن میں دین پرخطرہ ہو توہجرت
جب دین پر خطرہ ہو، اوراپنے دین وایمان کی حفاظت کی کوئی صورت نہ بن سکے تو غیر مسلم ملک یادار الکفرسے ہجرت کرنا مسلمانوں پرواجب ہے
۔
إِنَّ الَّذِینَ تَوَفَّاھُمُ الْمَلَاءِکَۃُ ظَالِمِی أَنْفُسِہِمْ قَالُوا فِیمَ کُنْتُمْ قَالُوا کُنَّا مُسْتَضْعَفِینَ فِی الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَکُنْ أَرْضُ اللَّہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوا فِیھَا فَأُولَءِکَ مَأْوَاھُمْ جَھَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِیرًا(97)النساء
”بے شک فرشتے جن لوگوں کی روح قبض کرتے ہیں، اس حال میں کہ انھوں نے اپنے اوپر ظلم کررکھاہے، فرشتے ان سے کہتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے؟ وہ لوگ کہتے ہیں: ہم لوگ اس ملک میں بے سہارا تھے، فرشتے کہتے ہیں: کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے؟ پس ان لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے، اور وہ بہت بری جگہ ہے“(97)النساء
الھجرۃ واجبۃ من دار الکفر علی من اسلم وخشی ان یفتن فی دینہ۔ (عمدۃ القاری ج 10/ ص518/)
”جو کوئی دارالکفر میں اسلام قبول کرے اور وہاں اس کو دین کے بارے میں فتنے میں پڑنے کا خطرہ ہوتوہجرت کی وسعت وطاقت رکھنے کی صورت میں وہاں سے اُسے ہجرت کرنا واجب ہے۔ (عمدۃ القاری ج 10/ ص518/)
عَنْ مُعَاوِیَۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: لَا تَنْقَطِعُ الْہِجْرَۃُ حَتَّی تَنْقَطِعَ التَّوْبَۃُ، وَلَا تَنْقَطِعُ التَّوْبَۃُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا(ابوداود برقم الحدیث، 2479)
”حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ہجرت ختم نہیں ہو گی یہاں تک کہ توبہ کا سلسلہ ختم ہو جائے، اور توبہ کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا،یہاں تک کہ سورج پچھم سے نکل آئے“(ابوداود 2479)
ہجرت کے مذکورہ بالاعام حکم کے علاوہ دارلحرب میں مقیم مخصوص مسلمانو ں کے ذاتی احوال وکیفیات کے لحاظ سے ہجرت کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں الگ الگ حکم ہیں۔ اُردو ترجمہ کے سا تھ ہجرت کے سلسلے میں مختلف قسمیں اور ان کے احکام حاوی الکبیر سے ذیل میں نقل کیے جارہے ہیں:
”الھجرۃ فی زماننا تختص بمن اسلم فی دار الحرب فی الھجرۃ منھا الی دارالاسلام، ولا تختص بدارالامام، وحالہ ینقسم فیھا خمسۃ اقسام:
امام ماوردی ؒ نے حاوی کبیر میں فرما یا کہ اس زمانے میں دارا لحرب سے دارالاسلام کی طرف ہجرت اُس شخص کے ساتھ خاص ہے جو دارالحرب میں ایما ن لا ئے، نہ کہ جو دارلامام میں ایمان لا ئے (شاید کتابت میں دارلامام کے آ خرمیں ’ن‘ کے بجائے’م‘ لکھ گیا ہے۔ دارالامان جہاں اسلام پر عمل کی آزادی ہو۔ اشرف) دارالحرب میں ایمان لانے والے کے احوال کے لحاظ سے اس کی پانچ قسمیں ہیں:
احدھا: ا ن یقدر علی الامتناع والاعتزاز ویقدر علی الدعاء – ای الدعوۃ- والقتال، فھذا یجب علیہ ای یقیم فی دار الحرب، لانھا صارت باسلامہ واعتزالہ دارالاسلام، ویجب علیہ دعاء المشرکین الی الاسلام بما استطاع من نصرتہ بجدال او قتال۔
1۔اگر وہاں کفر سے رُکنے پر قادر ہے اور اسی طرح اسلام پر عمل کرنے قادر ہے، نیز غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت اوران سے قتال پر قادرہے تو ایسے شخص کو دار الحرب میں رُکے رہنا واجب ہے۔ کیونکہ اس کے اسلام پر عمل آ وری اور کفر سے علیحدگی کی وجہ سے وہ ملک اس کے حق میں دارالا سلام ہو گیا۔ اس پر واجت ہے کہ وہیں رہ کر اپنی حسب حیثیت مباحثے یا قتال کے ذریعہ کفار کو اسلام کی دعوت پیش کرتا رہے۔
والقسم الثانی: ان یقدر علی الا متناع والاعتزال ولا یقدر علی الدعاء والقتال، فھذا یجب علیہ ان یقیم، ولا یھاجر، لان دارہ صارت باعتزالہ دارا لاسلام، وان ھاجر عنھا دعادت دار حرب، ولا یجب علیہ الدعا والقتال؛ لعجزہ عنہ۔
2۔اگر وہاں کفرسے رُکنے اوراس سے علیحدگی پر بھی قادر ہے، لیکن غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت اوران سے قتال پر قادر نہیں ہے، تو ایسے شخص پر واجب ہے کہ وہ دار الحرب میں رُکا رہے وہاں سے ہجرت نہ کرے۔ کیونکہ اس کے اسلام پر عمل آ وری اور کفر سے علیحدگی کی وجہ سے وہ مقام اس کے حق میں دارالا سلام ہو گیا۔(اس لیے اس پر واجت ہے کہ وہیں رہ کر اپنی حسب حیثیت مباحثے یا قتال کے ذریعہ کفار کو اسلام کی دعوت پیش کرتا رہے۔) اور اگر وہاں سے اس نے ہجرت کی تو وہ اس کے حق میں دارا لحرب ہو جائے گا۔(وہاں رُکنے کی صورت میں دعوت و قتال پر) عدم قدرت کی وجہ سے اس پر وہاں دعوت اور قتال واجب نہیں ہے۔
والقسم الثالت: ان یقدر علی الامتناع ولا یقدر علی الاعتزال ولا علی الدعاء والقتال، فھذا لا یجب علیہ المقام۔لانہ لم تصر دارہ داراسلام،ولاتجب علیہ الھجرۃ، لانہ یقدر علی الامتناع۔3۔ اگر وہاں کفرسے رُکنے پرقادرہو، لیکن کفریہ رسوما ت سے علیحدگی پر قادر نہیں ہے،اور نہ ہی غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت اوران سے قتال پر قادر ہے، تو ایسے شخص پر دار الحرب میں رُکے رہناواجب نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ علاقہ اس کے لیے دارالاسلام نہیں رہا، البتہ اس پر وہاں سے ہجرت کرنا بھی واجب نہیں ہے۔ کیونکہ کفر سے رُکے رہنے پر وہ قادر ہے۔
القسم الرابع: ان لایقدر علی الا متناع، یقدر علی الھجرۃ فواجب علیہ وھوعاص ان اقام وفی مثلہ قال – ﷺ- انا بریء من کل مسلم مع المشرک۔
4۔ اگر وہاں کفر سے رُکے رہنے پر وہ قادر نہیں ہے۔اور وہ ہجرت پر قادر ہے تو اس پر ہجرت واجب ہے۔ اگر اس نے ہجرت نہیں کی تو گنہہ گار ہوگا۔ اسی جیسے شخص کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’میں ہر اس مسلمان سے بَری میں ہوں جومشرکوں کے ساتھ ہے۔‘
القسم الخامس:ان لا یقدر علی الامتناع ویضعف عن الھجرۃ، فتسقط عنہ الھجرۃ لعجزہ، ویجوز ان ینفع عن نفسہ باظھار الکفر، ویکون مسلماً باعتقادالاسلام والتزام احکامہ، ولا یجوز لمن قدر علی الھجرۃ اہ یتظا ھر بالکفر، لا نہ غیر مضطر، والعاجز عن الھجرۃ مضطر، ویکون فرض الھجرۃ علی من آمن فیھا باقیا ما بقی للشرک دار۔
5۔ اس کو کفر سے رُکنے کی قدرت نہ ہو اور نہ ہی ہجرت کی قدرت ہو تو مجبوری کی بناپر اس کے لیے جا ئز ہے کہ اپنی جان بچانے یا زندگی کی بنیادی سہولیات حاصل کرنے کے لیے بظاہر کفر اختیار کر لے، لیکن اعتقاد وعقیدے میں پکا مسلمان بنا رہے اور اسلام کے احکامات پر عمل (خفیہ طورپر پنج وقتہ نمازوں،روزۂ رمضان، تلا وتِ قرآ ن، اور تسبیح وتہلیل کااہتما م) کی کوشش کرتا ہے۔ اور جو ہجرت پر قادر ہے اس شخص کے لیے ظاہری کفریہ اعمال اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ وہ مضطر نہیں ہے، جب کہ ہجرت سے عا جز شخص مضطر ہے، اور اس شخص پر ہجرت کرنا فرض ہے جو دار الحرب میں ایمان لایا اوردار الحرب میں شرک والے اعمال کے ساتھ باقی ہے۔“
(الحاوی الکبیر، ج 14ص 104ٍ/الماوردی، علی حاشیۃ:حقوق المواطنۃ وواجباتھا فی ضوء الکتاب والسنۃ،الدکتور حسن السید خطاب، شریک الا شاعۃ فی:بحوث العلماء العرب،ص 277/ایفا دلھی2014ء)
قریہ جات،دیہی آبادیاں جوجنگوں میں خاص اہمیت کی حامل نہیں ہو تی ہیں۔ اور وہ دارالحرب کے قلمرومیں آ تے ہیں،عام حالات میں وہاں سے ہجرت کاحکم ہے۔ اگر وہاں کے لوگ اسلام قبول کرنے کے بعددارالاسلام کی طرف ہجرت کر لیں تو بہتر ہے۔ لیکن اگروہاں سے ہجرت نہ کریں تو وہ غنائم وغیرہ سے سہام وامداد کے مستحق نہیں ہو ں گے۔
…وَإِذَا لَقِیتَ عَدُوَّکَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ، فَادْعُھمْ إِلَی ثَلَاثِ خِصَالٍ – أَوْ خِلَالٍ – فَأَیَّتُھُنَّ مَا أَجَابُوکَ فَاقْبَلْ مِنْھُمْ، وَکُفَّ عَنْھُمْ، ثُمَّ ادْعُھُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ، فَإِنْ أَجَابُوکَ، فَاقْبَلْ مِنْھُمْ، وَکُفَّ عَنْھُمْ، ثُمَّ ادْعُھُمْ إِلَی التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِھِمْ إِلَی دَارِ الْمُھاجِرِینَ، وَأَخْبِرْھُمْ أَنَّھمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِکَ فَلَھمْ مَا لِلْمُھَاجِرِینَ، وَعَلَیْھمْ مَا عَلَی الْمُھَاجِرِینَ، فَإِنْ أَبَوْا أَنْ یَتَحَوَّلُوا مِنْھَا، فَأَخْبِرْھُمْ أَنَّھُمْ یَکُونُونَ کَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِینَ، یَجْرِی عَلَیْہھمْ حُکْمُ اللہِ الَّذِی یَجْرِی عَلَی الْمُؤْمِنِینَ، وَلَا یَکُونُ لَھُمْ فِی الْغَنِیمَۃِ وَالْفَیْءِ شَیْءٌ إِلَّا أَنْ یُجَاھدُوا مَعَ الْمُسْلِمِینَ (مسلم برقم الحدیث،4522)
”.. حضرت رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:… اور جب مشرکوں میں سے اپنے دشمن سے ٹکراؤ تو انہیں تین باتوں کی طرف بلاؤ، ان میں سے جسے وہ تسلیم کر لیں، (اسی کو) ان کی طرف سے قبول کر لو اور ان (پر حملے) سے رک جاؤ، انہیں اسلام کی دعوت دو، اگر وہ مان لیں تو اسے ان (کی طرف) سے قبول کر لو اور (جنگ سے) رُک جاؤ، پھر انہیں اپنے علاقے سے مہاجرین کے علاقے میں آجانے کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے لیے وہی حقوق ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں اور ان پر وہی ذمہ داریاں ہوں گی جو مہاجرین پر ہیں۔ اگر وہ وہاں سے نقل مکانی کرنے سے انکار کریں تو انہیں بتاؤ کہ پھر وہ بادیہ نشیں مسلمانوں کی طرح ہوں گے، ان پر اللہ کا وہی حکم نافذ ہو گا جو مومنوں پر نافذ ہوتا ہے اور غنیمت اور فے میں سے ان کے لیے کچھ نہ ہو گا مگر اس صورت میں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں۔“(مسلم برقم الحدیث،4522)
*مختصر یہ کہ*
1۔ غیر مسلم ملکوں میں دین پر مذ ہبی آ زادی کے ساتھ حکومت کے حفظ وامان (Protection) میں رہنا جائز ہے۔
2 غیر مسلم یا جمہوری ملک میں مسلمانوں اور حکومت کے درمیان جو معاہدہ ہو -اس میں جو شقیں یا دفعات نصوص شریعت سے معارض نہیں ہیں – اس معاہدہ کی پابندی کرنا مسلمانوں پر لازم ہے۔
3۔جمہوری ملک میں جہاں غیر مذہبی حکمرانوں کا تحفظ حاصل ہونے کے ساتھ ہی دیگر اقوام کی طرح مسلمان بھی حکومت میں حصہ دار ہوتے ہیں وہاں جمہوری ملک میں امن انصاف کے قیام کے لیے مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ، میڈیا چاروں بنیادشعبوں میں مسلمانوں کو جگہ بنانا؛ ملک کے تمام خطوں میں آ باد مسلمانوں پر کفایہ کے درجے میں ضروری ہے۔
4۔ اسلامی ملک کی طرح جموری ملک میں جہاں کومسلمانوں کی مذہبی آزادی اور حکومت میں شراکت کا حق حاصل ہو،اسلامی ریاست کی طرح تعمیر وترقی اور عوامی سہولیات کے لیے شرعی لحاظ سے حکومت وعوام سے معاونت کے پابند ہیں۔
5۔ غیر اسلامی یا غیر مذہبی ملک میں اگر مسلمانوں کو خطرات کا سامنا ہو تومسلمانوں کے الگ الگ احوال وکوائف کی بنا پر وہاں سے ہجرت کے سلسلے میں پانچ صورتیں ہیں۔جن میں بنیاد ی طورپر حکم ہے کہ:
(الف)جو اپنے دین وایمان کو وہاں محفوظ نہیں رکھ سکتا ہواور وہ ہجرت کی استطاعت رکھتا ہے،تووہاں سے ہجرت کرنا اُس پر واجب ہے۔
(ب) جو لوگ ایسے ملک میں رہ کر اپنے دین وایمان کو محفوظ رکھتے ہوئے دعوت الی الاسلام یا کسی اور طور پر خود سے یادوسرے مقامات میں مقیم مسلمانوں کے ذریعہ اُس ملک کے مسلمانوں کی مدد کرسکتے ہیں، انھیں وہاں سے ہجرت کرنا جائز نہیں ہے۔
6۔جہاں جمہوری ملکوں میں مذہبی آزاد ی کے سا تھ دعوت الی الاسلام کے فریضے کی ادائیگی اجازت ہو وہاں سے مسلمانوں ہجرت کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ وہاں رہ کرمذہب اسلام پر خود عمل کرنا اور وہاں اسلام کی تبلیغ کا فریضہ ادا کرکے اسلام کے پیغام امن وانصاف،مساوات سے عوام کو متعارف کرانے کاکام مسلسل جاری رکھنا ضروری ہے۔
7 ۔ہماراملک(بھارت) ایک غیرمذہبی،جمہوری ملک ہے، جہاں مذہب، تعلیم وتبلیغ کی آزادی حاصل ہے۔ اس لیے عام حالات میں مسلمانوں کویہاں سے ہجرت کرنا جائز نہیں ہے۔
8۔ ہمارے(بھارت) ملک کے قوانین میں ہمارے مذہب، مذہبی تشخصات، تبلیغ ِمذہب کی آزادی،جان،مال، معاش، عزت آ برو کے تحفظ کے ساتھ یہاں کے باشندوں کو بے شمار حقوق واختیارات حاصل ہیں، اس لیے اس ملک (بھارت) کے قوانین(میں جودفعات نصوص شریعت کے خلاف نہیں ہیں اُن) کی پابندی کرنامسلمانوں پر بھی لازم ہے۔
3۔جمہوری ملک میں جہاں غیر مذہبی حکمرانوں کا تحفظ حاصل ہونے کے ساتھ ہی دیگر اقوام کی طرح مسلمان بھی حکومت میں حصہ دار ہوتے ہیں وہاں جمہوری ملک میں امن انصاف کے قیام کے لیے مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ، میڈیا چاروں بنیادشعبوں میں مسلمانوں کو جگہ بنانا؛ ملک کے تمام خطوں میں آ باد مسلمانوں پر کفایہ کے درجے میں ضروری ہے۔
4۔ اسلامی ملک کی طرح جموری ملک میں جہاں کومسلمانوں کی مذہبی آزادی اور حکومت میں شراکت کا حق حاصل ہو،اسلامی ریاست کی طرح تعمیر وترقی اور عوامی سہولیات کے لیے شرعی لحاظ سے حکومت وعوام سے معاونت کے پابند ہیں۔
5۔ غیر اسلامی یا غیر مذہبی ملک میں اگر مسلمانوں کو خطرات کا سامنا ہو تومسلمانوں کے الگ الگ احوال وکوائف کی بنا پر وہاں سے ہجرت کے سلسلے میں پانچ صورتیں ہیں۔جن میں بنیاد ی طورپر حکم ہے کہ:
(الف)جو اپنے دین وایمان کو وہاں محفوظ نہیں رکھ سکتا ہواور وہ ہجرت کی استطاعت رکھتا ہے،تووہاں سے ہجرت کرنا اُس پر واجب ہے۔
(ب) جو لوگ ایسے ملک میں رہ کر اپنے دین وایمان کو محفوظ رکھتے ہوئے دعوت الی الاسلام یا کسی اور طور پر خود سے یادوسرے مقامات میں مقیم مسلمانوں کے ذریعہ اُس ملک کے مسلمانوں کی مدد کرسکتے ہیں، انھیں وہاں سے ہجرت کرنا جائز نہیں ہے۔
6۔جہاں جمہوری ملکوں میں مذہبی آزاد ی کے سا تھ دعوت الی الاسلام کے فریضے کی ادائیگی اجازت ہو وہاں سے مسلمانوں ہجرت کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ وہاں رہ کرمذہب اسلام پر خود عمل کرنا اور وہاں اسلام کی تبلیغ کا فریضہ ادا کرکے اسلام کے پیغام امن وانصاف،مساوات سے عوام کو متعارف کرانے کاکام مسلسل جاری رکھنا ضروری ہے۔
7 ۔ہماراملک(بھارت) ایک غیر مذہبی،جمہوری ملک ہے، جہاں مذہب، تعلیم وتبلیغ کی آزادی حاصل ہے۔ اس لیے عام حالات میں مسلمانوں کویہاں سے ہجرت کرنا جائز نہیں ہے۔
8۔ ہمارے(بھارت) ملک کے قوانین میں ہمارے مذہب، مذہبی تشخصات، تبلیغ ِمذہب کی آزادی،جان،مال، معاش، عزت آ برو کے تحفظ کے ساتھ یہاں کے باشندوں کو بے شمار حقوق واختیارات حاصل ہیں، اس لیے اس ملک (بھارت) کے قوانین(میں جودفعات نصوص شریعت کے خلاف نہیں ہیں اُن) کی پابندی کرنامسلمانوں پر بھی لازم ہے۔
ترتیب:محمد فاروق قاسمی،
مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی، ضلع:شاجاپور،ایم پی۔
یکم جمادی الثانی 1443ھ،
5جنوری2022ء
جاری۔۔۔۔۔
Comments are closed.