اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم ( قسط14)

بقلم:مفتی محمداشرف قاسمی
دارالافتاء:مہدپور،اجین ایم پی
موجودہ نیشنلزم(Nationalism) اسلام سے مغائر
ابھی تک اسلام میں وطن اور وطن کے تعلق سے موطَن(جائے رہائش، ریاست،ملک)اور متوطِّن(باشندہ) کے ایک دوسرے پر عائد حقوق، فرائض،واجبات اور ذمہ داریوں کے سلسلے میں اسلامی ہدایات وتعلیمات بیان ہوئیں۔ اب ذیل میں جدید وطنیت اور قومیت یا نیشنلزم(Nationalism)- جس سے پوری دنیا میں زمینی ٹکڑوں کے لیے خون خرابہ کابازارگرم ہے -کو بیان کیا جاتا ہے۔
”نیشنلزم کے معنی اس بات کا یقین کرنا ہے کہ ہمارا ملک تمام دوسرے ملکوں سے ا علی وافضل اور ہماری قومیت دنیا کی دوسری قومیتوں کے مقابلہ میں بالا تر وبرتر ہے، نیشنلزم اس بات کا یقین پیدا کرتا ہے کہ دوسرے ملکوں سے قریبی تعلقا ت رکھنا غیر ضروری ہے، نیشنلزم کی بہتر شکل یہ ہے کہ اپنے پر فخر وناز ہو اور اس کی بدترصورت یہ ہے کہ دوسرے ملکوں سے بدسلوکی کی جا ئے۔“
(عرب قوم پرستی اسلامی نقطہ نظر سے خطرنا ک کیوں؟ ص 24/حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ،تحقیقات ونشریات اسلام، لکھنؤ،1964ء، بحوالہThe World Book Encyclopedia,Vpl,13-P.49)
گذشتہ سطور میں قرآنی آیات واحادیث نبویہ کی روشنی میں ثابت کیا گیا ہے کہ اپنے کو علاقہ،نسل یارنگ کی بنیاد پر افضل اور دوسرے کو غیر افضل سمجھنا اسلامی تعلیمات کے سراسر مغائر ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ قرآن اور خداکے آخری نبی(ﷺ)رحمۃللعلمین کے آفاقی پیغام کے حامل عرب اس تعریف کے مطابق قومیت عربیہ کی تقدیس وتنزیہ میں عرب میں موجود منافقین کے سا تھ سرگرم عمل ہیں۔نام نہاد وبے وقوف عرب مسلمان وطنیت کا کلمہ پڑھنے میں بڑے جوش وخروش سے کام لے رہے ہیں۔ اس نعرہ کے طلسم میں گرفتار عرب قائدین وقلم کاروں کے تعلق سے حضرت مولانا ابوالحسن علی الندوی علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں کہ:
”… اس کو انھوں نے عقیدہ ومذہب کی جگہ دی جس کے لیے ان کے اندر وہی تعصب پیدا ہوگیا جواس وقت تک مذہب کی خصوصیت سمجھی جاتی تھی۔ اسی قومیت کے لیے انھوں نے بیباکانہ طریقہ پر مذہب اور اہل مذہب کی تحقیر اور استہزاء میں بھی تأمل نہیں کیا۔… لبنانی مسلمان (رسمی۔ اشرف)فاضل علی ناصر الدین اپنی مقبول عام کتاب قضیۃ العرب میں لکھتے ہیں:
’عربوں کا مسئلہ ایک مومن آ زاد فطرت، عاقل، شریف، صالح صاف دل، خوددار اور بلند نظر عرب کے نزدیک ایمان کے مسئلہ سے کم نہیں، وطن پر ایمان وطن کے لیے ٹھیک اس طرح جس طرح اللہ پر ایمان ا للہ کے لیے ہوسکتا ہے اور بس۔“
(عرب قوم پرستی اسلامی نقطۂ نظر سے خطرناک کیوں؟ ص26،حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ،تحقیقات ونشریات اسلام، لکھنؤ،1964ء نقل از: مقدمۂ قضیۃ العرب،ص 19،علی ناصر الدین،بیروت 1962ء)
علی ناصر الدین مزید لکھتا ہے:
”وہ (یعنی عربی قومیت) جہالت، افلاس، بیماری، ظلم وناانصا فی اور ہر قسم کی بے عنوانی اور عصبیت عربیہ کے سوا ہر عصبیت کا مقابلہ کرے گی،جو دین وسیا ست کی تفریق کی قا ئل ہے، وہ اہل دین کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہ دے گی، ایک عرب کے لیے اس کی تعلیم ہو گی کہ وہ جہاں بھی ہو دو چیزوں کے لیے پورا تعصب برتے، ایک اپنی قومیت کے لیے، ایک حق و صداقت کے لیے۔“
(عرب قوم پرستی اسلامی نقطہ نظر سے خطرناک کیوں؟ ص26حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ، تحقیقات ونشریات اسلام، لکھنؤ،1964ء نقل از: مقدمہ قضیۃ العرب،ص 19،علی ناصر الدین،بیروت 1962ء)
یہی مصنف ”عروبہ“ کو اسلام ومسیحیت سے مقدم و متوازی ایک دین کے طورپر پیش کرتے ہوئے کہتا ہے:
”قومیت عربیہ پر راسخ ایمان رکھنے والے ہم عرب قوم پرستوں کے نزدیک ’عروبہ‘ بجائے خود ایک دین ہے، اس لیے کہ وہ اسلام اور مسیحیت دونوں سے پہلے اس دنیا میں موجود ہے، اگرچہ وہ آسمانی مذ ہب کے اخلاق ومعاملات اور فضائل کا خود بھی حامل وداعی ہے۔“
(عرب قوم پرستی اسلامی نقطۂ نظر سے خطرنا ک کیوں؟ ص26حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ، تحقیقات ونشریات اسلام، لکھنؤ،1964ء نقل از: مقدمۂ قضیۃ العرب،ص 19،علی ناصر الدین،بیروت 1962ء)
ایک فاضل صاف لفظوں میں قومیت کو ایمان باللہ کے متوازی قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے:
”وحدت عربیہ کے سب سے پہلے معنی یہ ہیں کہ اس زمین کے تمام باشندوں میں جو اس نام (عرب) سے اپنے کو موسوم کرتے ہیں، اتحاد قائم ہو، عرب اتحاد کی عربوں کے دلوں میں وہی جگہ اور مرتبہ ہے جو اہل ایمان کے قلوب میں خدا کی توحید کا ہے۔“
(عرب قوم پرستی اسلامی نقطۂ نظر سے خطرنا ک کیوں؟ ص27حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ، تحقیقات ونشریات اسلام، لکھنؤ،1964ء نقل از: مقدمہ قضیۃ العرب،ص 138علی ناصر الدین،بیروت 1962ء)
مذکورہ بالا اقتباسات میں خاص طورپر خط کشیدہ عبارتوں سے قومیت اور وطنیت کو توحید اوردین کے کے مقابل کھڑی کرنے کی نامسعود سوچ اور فکرواضح ہے۔ لیکن بات یہیں تک نہیں رُکتی ہے بلکہ قومیت کو ایک نئی نبوت کے درجہ سے سرفراز کیا جارہا ہے۔ مشہور مصری ادیب استاذ محمد تیمور مصر کے مشہور رسالہ ”العالم العربی“ میں لکھتے ہیں:
”اگر ہر عہد کی ایک مقدس نبوت تھی تواس زمانہ کی نبوت ہمارے معاشرے میں عربی قومیت ہے، اس نبوت کا پیغام اپنی قوت کو جمع کرنا، اپنے محاذ کو مضبوط کرنا اور عرب معاشرہ کی انسانی طاقت کو اس رُخ پر لے چلنا کہ زندگی کی نعمت وعزت حاصل ہو، عرب مفکرین وادباء کے کاندھوں پر یہ ایک امانت ہے، کہ وہ اِس سچی نبوت کے حواری ثابت ہوں..“
(عرب قوم پرستی اسلامی نقطۂ نظر سے خطرناک کیوں؟ ص28حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ، تحقیقات ونشریات اسلام، لکھنؤ،1964ء بحوالہ: عربی قومیت، از: محمد تیمور، مجلہ: العالم العربی، شمارہ نمبر171)
وطن کی محبت کوجب ایمان باللہ، بلکہ نبوت کے متوازی ٹھہرایاجائے تو اس حب الوطنی میں دین ومذہب کی گنجائش کہاں باقی بچی؟ علامہ اقبالؔ نے کیا سچ کہا۔ ؎
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے،وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانۂ دینِ مصطفوی ہے
توحید، دین ومذہب اور نبوت کے بعدانتہائی بے حیائی وڈِھٹائی کے ساتھ اسلام پر قومیت کوترجیح دینے کی قبیح ومذموم دعوت دیتے ہو ئے دیگر خطوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کواخوۃ اسلامی سے خارج کرکے قومیت کی بنیاد پر انبیائے سابقین کے باغی وقاتل یہود ونصاری کو عرب قومیت میں شامل کیا جارہا ہے ڈاکٹر محمد احمد خلف اللہ لکھتے ہیں:
”آ ج سیاست داں عربی قومیت کی دعوت دیتے ہیں، اور کو ئی شک نہیں کہ عرب اتحاد آ ج اسلامی اتحاد سے زیادہ سہل الحصول ہے، ہماری مصلحت اس میں ہے کہ پہلے ہم اس قریبی مقصد کو حاصل کریں۔ اس پر مستزاد یہ کہ عربی فکرفکر اسلامی کے مقابلے میں پھیلنے اور متاثر کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہے، وہ عالم عربی کے تمام باشندوں پرمحیط ہے۔ لیکن اسلام ان سب پر شامل نہیں، ان ممالک کے سب باشندے عرب ہیں، لیکن سب مسلمان نہیں، ان میں اب بھی یہود اور نصاری موجود ہیں۔“
(عرب قوم پرستی اسلام نقطۂ نظر سے خطرناک کیوں؟ ص28و29حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ، تحقیقات ونشریات اسلام، لکھنؤ،1964ء بحوالہ: مجلہ: العربی،ص24 پہلاشمارہ، دسمبر 1958ء)
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے تو اسی سے
قومیت ِاسلام کی جڑکٹی ہے تو اسی سے
*موجودہ عرب میں اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی*
یہ قومیت یہاں تک انھیں لے آ ئی،کہ اسلام جو کہ عرب کی سرزمین سے پھیلا،اس اسلام سے بھی غیر عرب کو محروم قرار دے دیا گیا۔ بہت سے لوگ سعودی وغیرہ میں ملاز مت کرتے ہیں، انھیں کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ سعودی یا عرب باشندے انھیں مسلمان کی حیثیت سے سہولیات ومراعات دینے کے بجائے ان کے ساتھ غیر مسلموں جیسا معاملہ کرتے ہیں، تو انھیں تعجب ہو تا ہے،لیکن اس پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے کیوں کہ ان کے دل ودماغ میں یہ شیطانی تصور بیٹھادیا گیا ہے کہ غیر عرب مسلمان ہو ہی نہیں سکتے ہیں۔علی ناصر الدین لکھتا ہے:
”ہماری رائے میں یہ بہت مشکل ہے کہ کوئی غیر عرب ایسا مسلمان بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ خدا اور اس کے رسول کو مطلوب ہے، کوئی بھی شخص اتنی بات پر کہ اس کے والدین مسلمان ہیں اور وہ ایک مسلمان گھر میں پیداہواہے، مکمل مسلمان نہیں ہوسکتا، اس کو ایسا ہونے کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی زبان اپنی ثقافت اور اپنے رجحانات کے لحاظ سے عرب ہو۔“
(عرب قوم پرستی اسلامی نقطہ نظر سے خطرناک کیوں؟ ص29حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ، تحقیقات ونشریات اسلام، لکھنؤ،1964ء نقل از: حاشیۃ مقدمۃ قضیۃ العرب،ص 139علی ناصر الدین،بیروت 1962ء)
ایک فوجی قلمکارنے عربی حکومت کے سرکاری رسالہ میں تمام فوجی افسروں اور قومی لیڈروں وسیاسی رہنماؤں کی نمائندگی کرتے ہو ئے اسلام اور مذاہب،حتی کہ جنت ودوزخ کے تصور کوہی عرب سے خارج کردیا:
”عرب قوم نے الہ(معبود) سے مددطلب کی،اسلام اور مسیحیت کی قدیم قدروں کو ٹٹولا، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام سے مدد چاہی، ازمنہ وسطی کے بعض معروف نظاموں کا تجربہ کیا، لیکن ان سب سے اس کو ذرہ برابر بھی فائدہ نہ ہوا۔اس کے بعد عرب قوم نے اپنی کمر ہمت کس لی اور اپنی نظربلند کرکے بہت دور نظر دوڑائی اور اپنے نوزائیدہ بچہ کو دیکھنے کی کوشش کی،جو اس سے آ ہستہ آہستہ قریب ہورہا ہے،یہ نوزائیدہ بچہ نیا اشتراکی عرب انسان ہے۔…و ہ قدریں جنہوں نے عرب انسان کو سست وکاہل، پست ہمت،معطل اور تقدیر کے سامنے سر جھکا دینے والا انسان بنادیا ہے، ایک ایسا انسان جس کو بس لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ العظیم کہنا آ تا ہے۔…. عربوں کی تہذیب کی تعمیر اور عربی معاشرہ کی تشکیل کاواحد راستہ ایک نئے اشتراکی عرب انسان کی تخلیق ہے، جس کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ، مذاہب، جاگیرداری وسرمایہ داری، استعمارغرض وہ ساری قدریں جو قدیم سوسائٹی پر حکمراں تھیں، صرف تاریخ کے میوزیم کی ممی کی ہو ئی لاشیں ہیں۔… نئے اقدار کے علم بردار انسان پر ایمان مطلق.. اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ اس کالازمی انجام موت ہے، موت کے سوا کچھ نہیں،پھر نہ دوزخ ہو گی نہ جنت، بلکہ وہ ایک ذرہ ہوجائے گا جوزمین کے ساتھ گردش کرتارہے گا۔“
(عالم عربی کا المیہ، ص 35و36، حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام،لکھنؤ،بار چہارم2015ء،بحوالہ:مقالہ بعنوان:”الانسان العربی الجدید“ از:ابراھیم خلاص،رسالہ ”جیش الشعب“ دمشق)
اگرعرب سے اسلام کو نکال دیاجا ئے تووہ دوبارہ بدویت اور دورِاَحجار میں چلے جائیں گے۔ ان کے یہاں دریافت ہو نے والے تیل وغیر ہ کے ذخائر انھیں اہل یورپ کی گاڑیوں، جوتوں،بیوت الخلاء کی صفائی، اور اہل مغرب کے یہاں جاروب کشی سے زیادہ عزت نہیں دلاسکتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ عربوں کو دنیا میں ا سلام کی وجہ سے عزت وعظمت حاصل ہو ئی ہے،نہ کہ عربیت کی بناپر۔ لیکن نا شکری اور بے شرمی کی حدیں پار کرتے ہو ئے آ ج وہاں کھلے عام عرب حکمرانوں کی سرپرستی میں اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کی جا رہی ہے۔
ترتیب:محمد فاروق قاسمی،
مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی، ضلع:شاجاپور،ایم پی۔
7جمادی الثانی1443ھ،
11جنوری2022ء
جاری۔۔۔۔۔
Comments are closed.