اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم ( قسط15)

بقلم:مفتی محمداشرف قاسمی
دارالافتاء:مہدپور،اجین ایم پی
ملت اسلامیہ کے زوال کاایک قوی سبب وطنی وعلاقائی تعصب ہے
”علاقہ واد“ کا عملی نفاق امت کو کہاں لے جارہا ہے۔اس کی بے شمار مثالیں ہیں: اسپین(اندلس) میں عربوں کی قیادت میں مسلمان فاتحانہ داخل ہو ئے، تو وہاں کی مفتوح قوم اُن کو اپنا فاتح سمجھ کر ان کااحترام کرتی تھی۔ لیکن اندلس میں عربی زبان تعلیمی نظام کا جب لازمی حصہ بن گئی، تو اہل اندلس نے براہ راست اسلام کو سمجھ کر اسلام مذہب قبول کیا۔ اسلام میں داخل ہونے کے بعد وہ عربوں کو فاتح کے بجائے ”دعاۃِ اسلام“ کی حیثیت سے قابل احترام سمجھنے لگے، لیکن تھوڑی ہی مدت میں اہل اسپین کو یہ احساس ہوا کہ اسلام جس مساوات انسانی کی تعلیم دیتا ہے، عرب اس سے ہٹتے جارہے ہیں۔یہ لوگ اسلامی تعلیمات کے خلاف اپنی عربیت کی وجہ سے اہل اندلس اور عجمیوں کا استخفاف اور اپنے کو بہر صورت افضل خیال کرتے ہیں۔ یہ مفتوح قومیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلامی مساوات کے استعلاء و غلبہ کی کوششوں میں مصروف ہوگئیں،توعربوں کو اپنی تعلّی وترفع کو باقی رکھنے کی فکر ستانے لگی۔ اس فکر میں افراد کے بجائے سنگ وسیمنٹ اورخاک وخشت کی ملمع سازی میں انھوں نے دولت صرف کرنی شروع کردی۔ اور پھر بتدریج عربوں اور عجمیوں کے درمیان تباعد وتنافر اور کشمکش پیداہوتی گئی۔انجام کار شعوری یاغیر شعوری طورپر دونوں فریق معاندین اسلام کا آ لۂ کار بنتے چلے گئے۔ اور پھر اندلس سے اسلام اور مسلمانوں کی تباہی کے لیے یہی ”علاقہ واد“ کی لڑائی خشت اول ثابت ہو ئی۔
یہ عام مشاہدہ ہے کہ کسی اچھی یا بری عمارت کی پہلی اینٹ نظر ہی نہیں آتی ہے۔ کسی آتشزنی کے واقعے میں پہلی”تیلی“- جس سے آ گ لگی- خیال میں بھی نہیں آ تی ہے۔ اسی طرح سقوط ِغرناطہ اور زوالِ اندلس کی تاریخ میں،بعد کی ملی ودینی تباہیوں کی تفصیل تاریخی کتابوں میں ملتی ہے،لیکن جہاں سے ہمارے گھروں میں آ گ لگتی ہے اس پر کوئی خاص توجہ نہی دی جاتی ہے۔ چونکہ وہ ابتدائی طورپر چھوٹا معاملہ سمجھ میں آتا ہے،اس لیے زیادہ اہتمام سے اسے نہیں بیان کیاجاتا ہے۔ انجام کار امت کی تباہی پھر وہیں سے شروع ہو جاتی ہے۔
*اسلام پرزمینی ٹکڑوں کی فوقیت*
پون صدی قبل اسلام کے نام پرلاکھوں مسلمانوں کے خون سے تعمیر ہونے والا ملک ”اخوہ اسلامی“کے بجائے”زمینی ٹکڑوں“ کی بنیاد پر کمپنیاں قائم کرنے لگا۔ تودور رہائش اختیارکرنے والے مسلمانوں نے اپنی حاجات کی پیش نظر کچھ مطالبات رکھے،لیکن زمینی مسافت کی بنیاد پر ’انھیں ’اخوۃ اسلامی“ سے دور خیال کرکے ان کی ضروریات ہی کو نظر انداز کردیا گیا۔ شدت کے ساتھ جب مطالبات شروع ہو ئے تو انھیں ”دھوکہ باز“ وغیر القاب کا تحفہ دیا گیا۔ انجام کار”اسلام“ کوکنارے لگاکر”زمینی ٹکڑا“ اس ملک کا مذہب بن گیا۔زمینی ٹکڑے الگ الگ تھے، اس لیے وہ الگ مذہب اور دھر م کی صورت میں جغرافیہ کا حصہ بنے۔
عربوں کا احساس ترفع وتعلی اندلس میں اسلام اور مسلمانوں کو ڈبونے کے لیے کیا کم تھا؟ یہ عرب ارض رسالت مآب ﷺ سے نسبت کی بنیاد پر پوری دنیا کے مسلمانوں کی نظر میں محترم تھے۔ اوران کی عزت وعظمت اسلام کی عظمت سے جُڑی ہوئی خیال کرکے تمام عالم کے مسلمان انھیں مضبوط ومستحکم اور طاقتور دیکھنا چاہتے تھے۔ اوردنیا بھر کے مسلمانوں کی محبتوں کا کچھ نہ کچھ اثر ضرورظاہر ہوتارہا۔ اور وہ عزت واقبال کی بلندیوں کی طرف رو بہ سفر تھے۔ دماغ میں خبط سوارہوا کہ اسلام نہیں بلکہ عرب قومیت اور وطنیت ہماری عزت وافتخار کا باعث ہے، اس لیے انھونے ”اسلام اور غیر عرب مسلمانوں“ کو درکنار کرتے ہوئے ”عرب قومیت“ کا نعرہ بلندکرنا شروع کردیا۔ خطوط ومکتوبات میں اللہ کی عظمت وبڑائی کوبھُلاکر عربیت ہی کو خدا کا رُتبہ دے دیا۔ بعض مخبوط الحواس عربی حکمراں ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ کے بجائے”بسم الکرامۃ العربیۃ“ سے اپنے مکتوبات وغیرہ شروع کرنے لگے۔ (عالم عربی کا المیہ ص35/ مولانا ابو الحسن علی الندوی، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنو،بار چہارم2015ء)
بحرحیات میں سفینۂ خداوندی یعنی اسلام کو چھوڑ نے کانتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ذلت ورسوائی،مسلسل ان کا پیچھا کررہی ہے۔ خود ان کی عرب قومیت ان کو متحد نہیں رکھ سکی، فلسطینی مارے جارہے ہیں کوئی عربی یا مسلم ملک ان کے قاتلوں کاہاتھ صرف اس لیے نہیں پکڑرہا ہے کہ وہ اپنے دینی بھائی ہونے کے بجائے دوسرے ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعض حکمرانوں نے کہا بھی کہ:
”یہ فلسطینیوں کا مسئلہ ہے اس لیے دوسرے (مسلم) ممالک کواس میں دلچسپی لینے کی ضرورت نہیں ہے۔“
وطنیت یا قومیت کے فریب میں آ کرکشتی اسلام سے اترنے کا انجام یہ ہے کہ سب ڈوبے جا رہے ہیں۔ اور اپنی جان بچانے کے لیے ڈوبتے ہوئے ایک دوسرے کی گردنیں پکڑ رہے ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو رہاہے۔ جوچھوٹ جاتا ہے وہ گھڑیا (امریکہ واسرائیل)کے منہ میں گھس کر اپنی جان بچانے کی کو شش کررہا ہے۔ایک دوسرے کی سرحدوں پرآ پس میں لڑنے کے لیے ان کی فوجیں تعینات ہیں۔ ملک میں کو ئی دینی لہر اُٹھتی ہے تو یہ فوجیں پوری بہادری اور جواں مردی کے ساتھ اپنے شہریوں پر گولیاں برساتی ہیں،لیکن ان کی وہی فوجی شجاعت اس وقت بالکل سرد پڑجاتی ہے جب دنیا ئے کفر ان کی اگاڑی پچھاڑی پر ضربیں لگاتی ہے۔ اور ایسے موقعوں پر بھی، ملت طاغوت سے ا ن عربوں کی دوستی کمزور نہیں ہو تی۔ آ ج اکثر عرب حکمراں دنیائے کفرکی غلامی کو گویاعبادت سمجھتے ہیں۔ اعدائے اسلام کے مقابلے میں جبن وبزدلی اور بے حمیتی میں وہ نشاناتِ امتیاز کے سوفیصدمستحق ہیں، ان کی نکبت وپستی، ذلت ورسوائی کی بڑی وجہ اخوت اسلامی کے خلاف علاقوں کی بنیاد پران کی ریاستوں کی تشکیل ہے۔
(ملخصا من:تعمیر مساجد اور انسانیت کی رہنما ئی ص 143و144/و145، بندہ (مفتی) محمد اشرف قاسمی، مہد پور،مجدد الف ثانی اکیڈمی مہد پور، اجین،2017ء)
بازوتیرا توحیدکی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیش ہے تو مصطفوی ہے
ترتیب:محمد فاروق قاسمی،
مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی، ضلع:شاجاپور،ایم پی۔
8جمادی الاخری 1443ھ،
12جنوری2022ء
جاری۔۔۔۔۔
Comments are closed.