Baseerat Online News Portal

ایک شام سنجے مصرا شوق کے ساتھ

 

مبصر : منصور قاسمی ، ریاض سعودی عرب

اردو ہندوستان میں پیدا ہوئی اور یہیں پر پلی بڑھی ؛ تاہم اس کے چاہنے والے مرورایام کے ساتھ کم ہوتے جارہے ہیں ، کچھ تنگ نظریات کے حامل افراداس کو پاکستانی زبان کہہ رہے ہیں تو کسی نے اپنی کم علمی اور جہالت کی وجہ سے اس کو مذہب اسلام سے جوڑ دیا ؛ حالانکہ اردو ہندوستان کی آن، بان ،شان اور جان ہے ،شاعری ہو یا نثر پارے ، تنقید و تحقیق ہو یا رپورتاژ،صحافت ہو یا خطابت ہر محاذ پر غیر مسلموںنے بھی بڑا گراں قدرخدمات انجام دی ہیں ، آزادی سے قبل منشی دیا نارائن نگم ، منشی نول کشور، دیا شنکر نسیم ، پنڈت برج نارائن چکبست ،منشی پریم چند ،رام پرساد بسمل ، تلوک چند محروم، وغیرہ تو آزادی کے بعد رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری ، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ،گلشن نندہ ،جوگیندر پال ، کالی داس گپتا رضا،جگن ناتھ آزاد ، کرشن کمار طوروغیرہ اورعصر حاضر میں گوپی چند نارنگ ، راجیش ریڈی ، اتل اجنبی ، سنیل کمار تنگ جیسے اردو زبان و ادب کے عاشق ہیں، ان ہی میں ایک بڑا نام سنجے مصرا شوق لکھنؤی کا بھی ہے، جنہوں نے اپنے افکار و خیالات کے اظہار کا ذریعہ اردو کو بنایا ؛حالانکہ وہ ہندی ، انگریزی ،سنسکرت اور فارسی زبان کے بھی ماہر ہیں ۔ہفت روزہ اردو سفر کوکن نے مصرا کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ”سنجے مصرا شوق : فن وشخصیت،، کے عنوان سے ایک ویبینار منعقد کیا ،جس کی صدارت پروفیسر مقبول احمد مقبول ادے گری کالج لاتور مہاراشٹر نے کی ، مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر سعادت سعید گورنمنٹ کالج لاہور پاکستان شریک ہوئے ۔ نظامت کے فرائض کئی کتابوں کے خالق اور اس پروگرام کے روح رواں ڈاکٹر افروز عالم نے انجام دیئے ۔

محفل کا باضابطہ آغاز منصور قاسمی کی تلاوت قرآن کریم سے ہوا ،جس کے بعد ناظم محفل نے حاضرین کا استقبال کیا اور پروگرام کے اغراض و مقاصد کو بیان کرتے ہوئے کہا : ادارہ نے زندہ ادیبوں کی پذیرائی کا سلسلہ جاری کیا ہے، اس سے قبل ثبین سیف کراچی ، قاسم خورشیدپٹنہ ، ڈاکٹر ابرار رحمانی نئی دہلی ، ڈاکٹر انجم بارہ بنکوی ،باقی احمد پوری لاہور سمیت کئی نامور ہستیوں کے اعزاز میں اردو سفرویبینار منعقد کر چکا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا ۔ اس کے بعدصاحب اعزاز سنجے مصرا شوق سے کلام سنانے کی درخواست کی ، مصرا نے سب سے پہلے محبت و عقیدت میں ڈوبی ہوئی ایک نعت رسولۖ پیش کی ، اس کے دوشعر ملاحظہ فرمائیں :

نعت لکھوں تو اجالے ابھی ہر سو جگ جائیں عرش کے تارے سبھی فرش کے جگنو جگ جائیں

ان کے افکار کی تفہیم جو پڑھ لیں ، ان کے ذہن کھل جائیں سبھی عقل کے آہو کھل جائیں

اس کے بعد کئی عمدہ رباعی اور غزلیں سنائیں ۔

مقالہ نگاروں سے مقالہ سننے کے لئے ناظم محفل نے سب سے پہلے سنجے مصرا شوق کے دوست اور لکھنؤ کے معتبرصحافی اور ناقد رضوان فاروقی کو دعوت دی ۔ فاروقی نے کہا:سنجے مصرا گنگا جمنی تہذیب کی وہ علامت ہیں ،جس کے لئے ہندوستان مشہور ہے ، وہ عام شعراء کی طرح شاعری نہیں کرتے ، وہ ادب کے ہیرا اور پکھراج ہیں ، ایک پروگرام میں ان کی اس رباعی نے مجھے متاثر کیا تھا

عاشق ہے تو انگاروں پہ چل سکتا ہے سو بار بھی وہ گر کے سنبھل سکتا ہے

حاصل ہے مجھے ان کی غلامی کا شرف سورج میرے آنگن سے نکل سکتا ہے

رضوان فاروقی کے بعد لکھنؤ کی ہی ڈاکٹر نزہت فاطمہ کر امت ڈگری کالج کومقالہ پڑھنے کی دعوت دی گئی ، ان کے مقالے کا عنوان تھا ”تہذیبی اقدار کا پروردہ شاعر سنجے مصرا شوق،، جس میں انہوں نے سنجے مصرا کا مکمل تعارف کراتے ہوئے کہا :زبان و بیان پر ان کی گرفت ہے ، انتخاب الفاظ، استعمال الفاظ، معانی آفرینی ان کی شاعری کے اوصاف ہیں ، جدید خیال آرائی ان کے اشعار میں جا بجا پائی جاتی ہے، ان کی شاعری میں تازہ کاری اردو شاعری میں اضافہ ہے ،، انہوں نے شوق کے استاذ محترم نسیم اختر صدیقی کا بھی تذکرہ کیا ۔

ڈاکٹر نزہت فاطمہ کے بعد ڈاکٹر افروز عالم نے کشمیر سے تعلق رکھنے والے ماہراقبالیات ، البیلے افسانہ نگار ، عمدہ قلمکار ڈاکٹر ریاض توحیدی کو زحمت سخن دی ، ان کے مقالے کا عنوان تھا ”سنجے مصرا شوق کی شاعری کا تخلیقی رنگ و آہنگ ،، انہوں نے شوق کی شاعری کا ایک شعر ”زمین ہند پر نفرت کا جو پودا لگاتے ہیں وہ سب پاگل ہیں اپنی شان میں بٹا لگاتے ہیں،،سے اپنے مقالے کو پڑھنا شروع کیا ، آپ کے انداز قرات سے سامعین جھوم اٹھے ، آپ نے فرمایا : سنجے مصرا شوق کی شاعری کو پڑھ کر اور دیکھ کر دل شاد ہوا ، ان کے یہاں خیال آفرینی اور فنکاری ہے ،، ریاض توحیدی نے مصرا کا ایک شعر

رات کے بعد چلی آتی ہے پھر سے ایک رات اور سورج تو گپھاؤں سے نکلتا ہی نہیں

پر تفصیلی اور تنقیدی جائزہ پیش کر کے حاضرین سے بھرپور داد وصول کی۔

اب باری تھی عصر حاضر کے اس عظیم ناقدکی، جن کی شرکت ہی پروگرام کی کامیابی کی ضمانت ہے یعنی ڈاکٹر مشتاق صدف کی جو اس وقت تاجک انٹر نیشنل یونیورسٹی دوشامبے تاجکستان میں ہیں ،موصوف سنجے مصرا شوق کی شاعری پر اظہار خیالات کے لئے مدعو کئے گئے ، انہوں نے کہا : اس محفل کے حوالے سے سنجے مصرا شوق کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا یہ شوق جدید شاعری کے شوق ہیں؛ جبکہ کلاسیکل شاعری کے شوق ”شوق لکھنؤی ،،ہیں ، مزید کہا: جب کوئی تجربے کے دور سے گزرتا ہے تو وہ رباعی کی شکل اختیار کر لیتا ہے ، میں نے ان کی غزل اور رباعی پڑھی تو ایک رائے قائم ہوئی ، اور وہ یہ کہ یہ شاعر بہت بڑا شاعر ہے ، بہت معتبر اور اہم شاعر ہے ، جو ہندوستان سے باہر شاعری کرتا ہے ، ڈاکٹر مشتاق نے مصرا کا ایک شعر

گزار دی ہے یوں ہی جوڑتے گھٹاتے ہوئے سوال حل نہ ہوئے اور کاغذ بھر گیا

پڑھ کر شعر اور کاغذ کے حوالے سے انتہائی عالمانہ و فاضلانہ گفتگو کی، جس سے سامعین محظوط ہوئے ۔

پروگرام دھیرے دھیرے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا ، ،ڈاکٹر مشتاق صدف کے بعد ناظم محفل نے مہمان خصوصی پروفیسر سعادت سعید کوبلایا، پروفیسر سعادت سعید نے سب سے پہلے سنجے مصرا کو سلام محبت پیش کیا ،پھر گویا ہوئے : میں ہمیشہ سے سنجے مصرا شوق کا معتقد رہا ہوں، ان کے یہاں جتنی وسعت ہے ، ان کے پاس جتنے تجربے ہیں ان تک بہت کم شعراء پہنچتے ہیں ،غزل میں جس کو ریزہ کاری کہتے ہیں وہ ان کے یہاں پائے جاتے ہیں ،شوق نے وجودی تجربے کو زندہ اور پائندہ رکھا ہے ،وہ ہندو و مسلم تہذیب کی شاندار علامت ہیں ،،۔

اب چونکہ صرف صدر محفل کا صدارتی خطبہ اور تبصرہ ہی باقی تھاسو ان سے پہلے سنجے مصرا سے گزارش کی گئی کہ آپ اگر کچھ کہنا چاہتے ہیں تو عنایت فرمائیں!جس پر سنجے مصرا نے کہا : میرے لئے باعث صد افتخار ہے کہ آج اردو ادب کے بڑے بڑے علماء و فضلاء نے خاکسار کی شاعری کی خامی اور خوبی پرگفتگو کی ، جو مشورے آپ احباب نے دیئے ہیں ان پر آئندہ عمل کروں گا ، آپ تمام مقالہ نگاروں اور سامعین کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں،،انہوں نے اپنا کلام بھی سنایا۔ ڈاکٹر افروڑ عالم نے ڈاکٹر انجم بارہ بنکوی ، اقبال پٹنی اور ڈاکٹر فاطمہ خاتون سے اظہار خیالات کی درخواست کی، جس پر باری باری ان تینوں سامعین نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ اس کے بعد بلا تاخیر ناظم نے صدر محفل پروفیسر مقبول احمد مقبول کو آواز دی ۔ پروفیسر مقبول نے سب سے پہلے اردو سفر کوکن اور منتظمین محفل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: زندہ ادیبوں اور شاعروں پر سیمینار ، ویبینار منعقد کرنا خوش آئند اور لائق ستائش قدم ہے ، اس کے بعد فاضل مقالہ نگاروں کے مقالات پر سیر حاصل تبصرہ کیا ، ڈاکٹر افروز عالم کی نظامت کی تعریف کرتے ہوئے کہا: آپ کی آواز میں کھنک ، لفظیات و تراکیب شاندار ہیں ، خود اعتمادی دیکھ کر حیران ہوں، کئی برسوں کے بعد ایسی نظامت سنی ہے ،،۔۔ انہوں نے رباعی کے حوالے سے کہا : بعض شعراء رباعی گو کہلانے کے لئے رباعی کہتے ہیں ،مگر وہ رباعی کے فنی تقاضوں کی طرف دھیان نہیں دیتے ، لیکن سنجے مصرا شوق ایسے رباعی گو شاعر ہیں جن کو نہ صرف رباعی گوئی سے ذہنی مناسبت ہے ؛بلکہ فنی تقاضوں کو خوب خوب نبھاتے ہیں،سنجے مصرا نے بعض رباعیوں میں ہندی لفظوں کو اس ہنر مندی سے استعمال کیا ہے کہ ان میں جاں نثار اختر اور فراق گورکھپوری کا رنگ جھلکتا ہے ۔ انہوں اخوت ، محبت ، یکجہتی اور اصلاحی رباعیات کی بھرپور تعریف کی ،صدر محفل نے کہا:سنجے مصرا کے رباعیات میں موضوعات کا تنوع بھی ہے اور مضامین کی رنگا رنگی بھی ، داخلی احساسات کی گرمی بھی ہے اور خارجی ماحول کی عکس بندی بھی ، زندگی کی تلخی اور ترشی بھی ہے اور معاشرہ کے اخلاقی زوال پہ کڑھن بھی ، انہوں نے سیاست حاضرہ کی مکاریوں اور منافقوں کے پردوں کو بھی چاک کیا ہے تو معاشرہ کو راہ مستقیم بھی سجھائی ہے ،،۔

محفل اختتام کو پہنچ چکی تھی ؛چنانچہ صدر محفل کے بعد اس پروگرام کی ٹیکنیکل کورڈنیٹر نازنین علی نے اردو سفر کوکن کی جانب سے تمام مقالہ نگاروں ، سامعین اور منتظمین کا فردا فردا نا م لے کر شکریہ ادا کیا ،ساتھ ہی صاحب اعزاز سنجے مصرا شوق اور بہترین نظامت کے لئے ڈاکٹر افروز عالم کو مبارکبادی پیش کی ۔ اس پروگرام کے کنوینر حبیب ندیم ،عمان سے اور مبصر منصور قاسمی ،ریاض سعودی عرب سے تھے ۔ واضح رہے کہ سنجے مصرا شوق گاہے گاہے حسب حکم ناظم اپنا کلام سنا رہے تھے، سوچلتے چلتے آپ بھی ان کے کچھ اشعارسے لطف اٹھائیے !

موت کی کوکھ سے پھوٹی نئی جیون دھارا جشن گریاں بھی جشن بہاراں سے الگ

ہم ایسے لوگ ہیں خاک جاں سنبھالتے ہیں ہمیں تو شہر کے آوارگاں سنبھالتے ہیں

امن کے آخری پرچم کو اٹھائے ہوئے ہم کہیں کی آگ کہیں کا دھواں سنبھالتے ہیں

گدائے شہر کے کاسے میں تاج ڈال دیا وہ آنکھیں پھٹ گئیں جو سمجھی تھیں بخیل مجھے

پگھل رہا تھا محبت کا آہنی پیکر کھرچ کھرچ کے مجھے جنگ سے نکالا گیا

سانس لیتے ہوئے پتھر ہیں میرے چاروں اور کیا ترے شہر میں انسان نہیں ہے اے دوست!

خرد کی راہ میں ہر موڑ پر دھوکے نکلے بساط امن پر بھی جنگ کے نقشے نکلے

لفظوں کی ترازو میں نہ تولا جائے جب مسئلہ ہو، دل کو ٹٹولا جائے

الجھی ہوئی اک ایک گرہ کھل جاتی آنکھوں کی طرح ذہن بھی کھولا جائے

[email protected]

Comments are closed.