عدم مساوات کامشترکہ مسئلہ

سمیع اللہ ملک
دنیابھرمیں عدم مساوت پائی جاتی ہے لیکن دنیاکی دوبڑی طاقتوں امریکااورچین کواپنے اپنے معاشرے میں شدیدنوعیت کی روزافزوں عدم مساوات کے مشترکہ مسئلے کاسامنا اور شدیدالجھنوں کاشکارہیں۔ دونوں بڑی طاقتوں کی دوعشروں کی معاشی نموسے توقع تھی کہ تمام ہی کشتیاں رواں رکھنے کی راہ ہموارہوگی۔امریکااورچین میں تیزی سے پنپتے ہوئے متوسط طبقے کی بہبودیقینی بناناجوبائیڈن اورشی جن پنگ کاترجیحی ایجنڈارہاہے۔ دونوں کواچھی طرح اندازہ ہے کہ ان کے سیاسی مفادات داؤپرلگے ہوئے ہیں۔دونوں معاشرے میں عدم مساوات کاگراف نیچے لاکرپریشان حال لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بہبودسے ہم کنارکرناچاہتے ہیں۔دونوں ممالک کے فرق کوبھی ذہن نشین رکھناہوگا۔امریکااورچین میں دومختلف حکومتی سسٹم رائج ہیں میں ۔امریکی صدرمتوسط طبقے کی بہبودکانعرہ لگاتے ہیں جبکہ چینی صدرپورے معاشرے کے مشترکہ مفاد کوزیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
جوبائیڈن اورشی جن پنگ بڑی فرمز(بالخصوص ہائی ٹیک)کوکنٹرول کرناچاہتے ہیں۔یہ معاملہ غیرمعمولی حدتک سیاسی ہوچکاہے۔ امریکامیں ہائی ٹیک ایریایعنی سلیکون ویلی اب بھی ڈیموکریٹس کی طرف جھکاؤرکھتاہے۔اس کے باوجودکوشش کی جارہی ہے کہ قومی معیشت کیلئے شناخت کادرجہ رکھنے والے ادارے سیاسی معاملات پراثراندازنہ ہوں۔مشکل یہ ہے کہ بائیڈن اورشی جن پنگ کی اپنی اپنی پالیسیوں کی ’’پریسکرپشنز‘‘ایک دوسرے کے یکسرخلاف ہیں۔بائیڈن چاہتے ہیں کہ مینوفیکچرنگ کی ملازمتیں گھرلائی جائیں۔شی جن پنگ چاہتے ہیں کہ اندرونِ ملک ملازمتیں پروان چڑھائی جائیں۔عدم مساوات ختم کرنے کے بائیڈن کے ایجنڈے میںسب سے پہلے امریکاکاٹرمپ کالگایاہوانعرہ نمایاں ہے ۔ ڈیڑھ دوعشروں کے دوران امریکاکی بہت سی ملازمتیں آوٹ سروس کردی گئی تھیں یعنی دنیابھرمیں بیٹھے ہوئے تربیت یافتہ افرادامریکی اداروں کیلئے کام کررہے تھے اور امریکیوں کوبیروزگاری کاسامناتھا۔اب امریکی صدراس امرکیلئے کوشاں ہیں کہ ان ملازمتوں کوواپس لایاجائے یعنی امریکیوں کیلئے روزگارکے زیادہ مواقع پیداکیے جائیں۔اپنے ملک کے لوگوں کواولیت دینے کیلئے کئے جانے والے اقدامات کہیں نمایاں ہیں اورکہیں چھپے ہوئے۔بائیڈن انتظامیہ امریکی تجارت اورسرمایہ کاری کوبھی تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے گوکہ بہت سے امریکی سرمایہ کاراس پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے۔یہ متوسط طبقے کوذہن میں رکھتے ہوئے تیارکی جانے والی خارجہ پالیسی کاحصہ ہے۔
عالمی سیاست وسفارت اورمعیشت میں ایک دیرینہ سوال یہ ہے کہ امریکااورچین میں متوسط طبقے کافروغ ایک دوسرے کیلئے موزوں اورکارگرثابت ہوسکتاہے۔اس کے نتیجے میں بھی عالمی سیاست میں تبدیلیاں رونماہوتی ہیں۔عالمی سیاست میں بھارت کے بعد امریکااورچین ایسی سب سے بڑی معیشتیں ہیں جن میں سماجی عدم مساوات نمایاں ہے۔اس سلسلے میں جِنی انڈیکس بروئے کارلایا جاتاہے،جس میں مکمل مساوات کیلئیصفراورمکمل عدم مساوات کیلئیایک ہوتاہے۔امریکاکاعمومی اسکور410،چین کا 470، یورپی یونین کا 380اوراوای سی ڈی کااسکور350ہے۔چین کی صورتِ حال آبادی میں معمرافرادکی بڑھتی ہوئی تعدادکے باعث زیادہ پریشان کن ہے۔پھرطبقاتی ڈھانچے کامعاملہ بھی ہے۔ معاملات اندرکی طرف پلٹ رہے ہیں اوریہ کیفیت ایسی ہے جیسے اہرام کو الٹ دیاجائے۔
2022کے موسمِ خزاں میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگریس سے قبل(جس میں وہ اپنے لیے ممکنہ طورپرصدرکاتاحیات عہدہ چاہتے ہیں)شی جن پنگ نے مشترکہ خوش حالی کانعرہ دیاہے۔وہ ممکنہ طورپراعلی سطح کی ملازمتوں کیلئے وقت کی وہ پابندی یاقیدختم کرناچاہتے ہیں جوچیئرمین ماو زے تنگ نے عائدکی تھی۔شی جن پنگ کی ٹول کِٹ میں بلند شرح والے ٹیکس،زائد آمدن والے شہریوں کی طرف سے قومی خزانے میں زائدعطیات،سماجی بہبوداورتعلیم کے پروگرامات کیلئیزیادہ فنڈنگ،بڑی نجی اجارہ داری کے خلاف سخت پابندیاں اورنئی ٹیکنالوجی تک آسان رسائی شامل ہیں۔ایساکچھ بھی نہیں ہے کہ چین میں فلاحی ریاست کے تصورکووسعت دی جارہی ہے یانجی کمپنیوں کوقومی تحویل میں لینے کی تیاری کی جارہی ہے۔شی جن پنگ کی سوچ چینی معاشی نظام میں ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتی ہے۔اب کوئی چاہے تو اِسے ریاستی سرمایہ دارانہ نظام کہے یاپھرچینی خصوصیات کاحامل سوشل ازم قراردے۔چینی صدرچاہتے ہیں کہ بڑے کاروباری ادارے اپنی مارکیٹ ویلیومیں تھوڑی کمی کردیں۔اس دوران شی جن پنگ ہاوسنگ کے شعبے میں تھوڑی سی مہم جوئی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ پراپرٹی جائنٹ ایورگرینڈکے ہاتھوں پیداہونے والے بحران کے غبارے سے ہوانکالی جاسکے۔ہاں،یہ بات اب تک واضح نہیں کہ معیشت کونئی سمت دینے کی کوشش میں وہ بحران کس طورٹالاجاسکے گا،جوامریکااوراسپین سمیت کئی معیشتوں میں دس پندرہ برس کے دوران ابھراہے۔
چینی صدرمتوسط طبقے کومضبوط ترکرناچاہتے ہیں۔یہ طبقہ بھی کم وبیش40کروڑنفوس پرمشتمل ہے۔وہ اس طبقے کی مجموعی آبادی2035تک80کروڑکرناچاہتے ہیں۔ جوبائیڈن نے کچھ ایساہی ہدف متعین کیاہے۔چین میں فرق صرف تعدادکاہے۔آسٹریلیاکے سابق وزیراعظم کیون رِڈچینی امورپرخاصی گہری نظررکھتے ہیں۔ان کاکہناہے کہ چینی صدرایسی معاشی کیفیت چاہتے ہیں،جس میں لوگوں کوزیادہ سے زیادہ ملے یعنی وہ ہاوسنگ اوردوسرے اہم شعبوں میں اجارہ داری کوبرداشت کرنے کے موڈمیں نہیں اوروہ ہاؤسنگ سمیت کسی بھی شعبے میں سٹہ بازی کوبالکل پسند نہیں کرتے۔ان کے نزدیک یہ سب کچھ محض فرضی معیشت ہے۔ مینوفیکچرنگ،ٹیکنالوجی اوربنیادی ڈھانچے جیسے حقیقی شعبوں میں سٹہ بازی کے خلاف جانے کی سوچ محض چینی صدراور کمیونسٹ پارٹی کی نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے خیال میں حقیقی معیشت ہی چین کوہراعتبارسے عالمگیربرتری دلائے گی۔ یہ بنیادی سوچ ہی سیاست پربھی اثراندازہوگی اوررواں صدی کے دوران امریکااورچین کے درمیان ٹیکنالوجی کے شعبے میں برتری یقینی بنانے کی دوڑمیں بھی فیصلہ کن کردارادا کرے گی۔
چین میں حکومت نجی تعلیمی مراکزاورمختلف سطحوں پرپرائیویٹ کلاسزکے خلاف کریک ڈاون بھی کررہی ہے۔اس معاملے میں علی باباکے مالک جیک ماکوبھی استثنیٰ حاصل نہیں۔شی جنگ پنگ تعلیم کے شعبے کوقابومیں رکھ کراسے ایک خاص سوچ یا نظریے کے ساتھ چلاناچاہتے ہیں۔امریکی صدربھی امریکامیں سماجی بہبودکے پروگرام کے تحت معیشت کاتوازن بحال کرناچاہتے ہیں۔انہوں نے اپناہدف گھٹاکر1750/ارب ڈالرمحدودکردیاگیاہے۔اس میں مفت تعلیم کی بنیادیں وسیع کرنا،جامعات کے طلبہ کیلئے قرضے نرم بنانااورچند ملازمین کیلئے کم ازکم اجرت میں اضافہ شامل ہیں۔جوبائیڈن کاسماجی بہبودکاایجنڈاری پبلکنزکے حلق سے اترنہیں رہا کیونکہ اس ایجنڈے کی کامیابی سے ڈیموکریٹس کی پوزیشن مستحکم اورجوبائیڈن کے دوبارہ صدرمنتخب ہونے کی راہ ہموارہوسکتی ہے۔حیرت کی بات اگرہے تویہ کہ جوبائیڈن کوخود انہی کی پارٹی کے بعض سرکردہ ارکان کی مخالفت کاسامنا ہے ۔

Comments are closed.