Baseerat Online News Portal

شوکت پردیسی اردو زبان کا ایک عظیم شاعر

اجود قاسمی
جونپور اتر پردیش

شوکت پردیسی 1924 میں ملیشیا میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصلی نام محمد عرفان تھا۔ ان کا آبائی گاؤں، جونپور شہر سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر موضع معروف پور تھا۔ ضلع جونپور کی ادبی و تاریخی سر زمین سے تعلق رکھنے والے شاعر و نغمہ نگار شوکت پردیسی کتابوں کے اوراق و صفحات میں پوشیدہ تھے۔
شوکت پردیسی کے بیٹے محمد ندیم نے اپنے والد کے اشعار و کلام کو یکجا کرنے کے بعد اسے کتابی شکل دے کر منظرِ عام پر لاکر ان کی شخصیت کو روز روشن کی طرح دنیا کے سامنے عیاں و بیاں کر دیا ہے تو وہیں محمد ندیم کی اس نیک پہل کو علمی و ادبی حلقوں میں کافی سراہا بھی جا رہا ہے ان کی اس کاوش کی وجہ سے اردو دنیا میں شاعر شوکت پردیسی کا نام دوبارہ زندہ و تابندہ ہو گیا۔
شوکت پردیسی نے بنیادی تعلیم ملیشیا سے حاصل کی، 12 سال کی عمر میں والدین کے ساتھ ہندوستان آ گئے۔ 2 سال تک لکھنؤ میں مقیم رہے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے بھی تعلیم حاصل کی۔ گرچہ سند فراغت حاصل نہ کر سکے۔ اس کے بعد جونپور شہر میں سکونت اختیار کر لی، شہر کے مشن اسکول حال راج کالج میں داخلہ لیا اور تعلیمی سلسلہ مڈل اسکول تک چلا۔ سنہ 1957 میں ممبئی سے لوٹنے کے بعد بقیہ زندگی کے ایام اپنے سسرال جمدہاں میں گزاری۔
شوکت پردیسی کا تعلق ادبی و علمی گھرانے سے تھا جس کا نتیجہ یہ رہا کہ وہ 14 سال کی عمر سے ہی شعر و سخن میں شغف رکھنے لگے تھے۔ کم عمری میں ہی ایک غزل کہی جس کا ایک شعر قارئین کی نظر ہے۔

ہم نشیں ابتدائے الفت میں
نظر انجام پہ نہیں جاتی

شوکت پردیسی کو ان کی حیات و زندگی میں وہ مقام حاصل نہ ہو سکا، جس کے وہ حقدار تھے وہ ایک خاموش طبع مزاج شخصیت تھے ان کو تشہیر بالکل پسند نہ تھی۔ شوکت پردیسی کی خاموش مزاجی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے بیٹے ماسٹر شمیم احمد بتاتے ہیں کہ خود ہم لوگوں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کی شاعری اس مقام و مرتبہ کی ہے۔اور اتنی خاموشی کے ساتھ وہ اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں لیکن اتنا علم تو ضرور تھا کہ ان کی شاعری اس وقت کے اردو حلقوں میں کافی مقبول تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت کے تقریباً ہر ادبی رسالے میں ان کے نظم و اشعار شائع ہوتے رہتے تھے شوکت پردیسی کو کثیرالاشاعت شاعر کہا جاتا تھا۔

شاعری کا موضوع
شوکت پردیسی کی شاعری میں ان کی انفرادی زندگی کے پر صعوبت ایام کی داستان سننے کو ملتی ہے۔ انہوں نے اپنے درد و پریشانیوں کو اپنی شاعری میں ڈھالا ہے۔ جب آپ ان کے اشعار پڑھیں گے تو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ حال صرف شوکت پردیسی کا انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔ اس حساب سے ان کے دکھ و درد سے پُر شاعری انفرادی نہ ہوکر اجتماعی شکل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ان کی شاعری کا موضوع نہ رومانی تھا اور نہ سیاسی بلکہ ان کی شاعری ماضی کے پرصعوبت ایام کی ترجمان تھی۔
ماسٹر شمیم احمد بتاتے ہیں کہ ہر میدان کے فنکار کو یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی حیات میں اس کے ہنر و فن کی پذیرائی کی جائے مگر وقت کی ستم ظریفی کہیے کہ شوکت پردیسی کی زندگی میں ان کا مجموعہ کلام منظرِ عام پر نہ آ سکا۔شمیم احمد کہتے ہیں کہ میں اپنے چھوٹے بھائی محمد ندیم کے حق میں دعا گو ہوں کہ جن کی محنت و کاوش سے والد صاحب کا کلام مجموعہ کی شکل میں منظرِ عام پر آ سکا ہے۔
خیال رہے کہ شوکت پردیسی نے اردو ادب کے تقریباً سبھی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ انھوں نے کئی افسانے اور کہانیاں بھی لکھیں جن میں سے چند کو رسائل و جرائد میں اچھا خاصا مقام حاصل ہوا۔شوکت پردیسی برسوں تک بطورِ صحافی عروس البلاد ممبئی کے مختلف اخباروں میں کالم نگاری کی خدمات انجام دیتے رہے اور بچوں کے ماہنامہ "منا” کی کئی برسوں تک اشاعت بھی کرتے رہے۔
شوکت پردیسی نے 1938 میں بطورِ قلم کار محمد عرفان جونپوری اور عرصہ بعد نشاط جونپوری کے نام سے شناخت بنائی۔ اس کے بعد 1948 میں نئے نام شوکت پردیسی کے ساتھ ادبی حلقوں میں کافی معروف و مقبول ہوئے۔

شوکت پردیسی کا فلمی سفر
شوکت پردیسی نے متعدد فلموں کے لئے نغمہ بھی لکھا پہلی فلم "خوبصورت” کے لئے لکھی غزل کو طلعت محمود کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے بعد "غلام بیگم بادشاہ” اور "شہید اعظم بھگت سنگھ” کے لئے نغمے لکھے جنہیں آشا بھونسلے اور محمد رفیع کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا۔ انہوں نے دو فلموں "غلام بیگم بادشاہ” اور "جھانسی کی رانی” کے لئے مکالمے بھی لکھے تھے۔اس کے علاوہ درجنوں نظمیں اور غزلیں طلعت محمود، مکیش منا ڈے، سی ایچ آتما، انوپ جلوٹا، دلراج کور، شیلندر سنگھ، شیام لالہ کی آوازوں میں ریکارڈ ہوئی، ان کے کئی گیت کافی مشہور ہوئے لیکن منا ڈے کی آواز میں ریکارڈ ہوا گیت "حیراں ہوں اے صنم کہ تجھے اور کیا کہوں” کو بالخصوص کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔شوکت پردیسی کی غزلوں اور نظموں کو بیسویں صدی عیسوی کی پانچویں چھٹی اور ساتویں دہائیوں میں ہندوستان کے بیشتر اردو جریدوں میں جگہ ملی۔

شائع شدہ کتب
شوکت پردیسی کی کل چار تصنیفات ان کے فرزندان کے ذریعے منظر عام پر آچکی ہیں۔ ‘تحفہ اطفال’ (ہندی،اردو) بچوں کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ ‘مضراب سخن’ ان کی نظموں اور گیتوں کا مجموعہ ہے۔ ”ساز نغمہ بار“ میں ان کی غزلیں، رباعیاں اور قطعات شامل ہیں۔ شوکت پردیسی کی چوتھی کتاب ”مضامین شوکت“ میں ان کی کچھ نثری تحریر شامل ہیں اس کے علاوہ حبیب سیفی کے ذریعہ تحقیق "شوکت پردیسی فکر و فن کے آئینے میں” کے عنوان سے منظرِ عام پر آچکی ہے۔

انعام و اکرام
اترپردیش اردو اکیڈمی نے 2014 میں "تحفہ اطفال” اور 2016 میں "ساز نغمہ بار” پر ایوارڈ سے نوازا ہے۔

وفات
شوکت پردیسی کی طبیعت عرصہ دراز تک خراب رہی اور بالآخر 14 ستمبر 1995 کو وہ اس دار فانی سے رخصت ہوگئے، انہیں جمدہاں میں دفن کیا گیا۔شوکت پردیسی کے بیٹے شمیم احمد کا کہنا ہے کہ والد ماجد شوکت پردیسی کے نام پر بطورِ یادگار کوئی نمایاں کام نہ ہونا باعث تشویش ہے۔ ضرورت ہے کہ ان پر کام کیا جائے ۔انھوں نے کہا کہ اگر کوئی صاحب شوکت پردیسی پر کام کرنا چاہیں، وہ ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔

 

Comments are closed.