اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم (قسط18)

بقلم:مفتی محمداشرف قاسمی

دارالافتاء:مہدپور،اجین ایم پی

علامہ اقبالؒ کی نظر میں وطنیت

موضوع سے متعلق علامہ اقبال ؒ کے درد مندانہ کلام پر اپنامقالہ مکمل کرتاہوں۔ ع

فکر انساں بت پرستے، بت گرے
ہرزماں در جستجوئے پیکرے
باز طرحِ آزری انداخت است تازہ تر پروردگارے ساخت است
کاید از خوں ریختن اندر طرب
نامِ او رنگ است وہم ملک ونسب
آدمیت کشتہ شدچوں گوسفند
پیش پائے ایں بتِ ناارجمند

انسان کی سوچ بت پرست وبت گر ہے۔
ہرگھڑی کسی پری پیکر کی تلاش میں رہتا ہے، پھر آ زری (یعنی بت سازی) کی بنیادڈال کر نیا پروردگار بنالیتا ہے۔
اس فریبِ مستی میں خون بہانے کا بہانے چاہتے ہیں۔
اس بت کانام رنگ وعلاقہ (ملک)اور نسب ہے۔
اس نامبارک بت کے ستون کے سامنے انسانیت بھیڑ بکری کی طرح ذبح ہوگئی۔

لُرد مغرب آں سراپامکر وفن
اہل دیں راداد تعلیم وطن
او بفکرمرکز تو در نفاق بگذر از شام وفلسطین وعراق
تو اگر داری تمیزِخوب وزشت
دل نہ بندی با کلوخ وسنگ وخشت
چیست دیں برخواستن از روئے خاک
تا خود آ گاہ گرددجانِ پاک
می نگنجد آں کہ گفت اللہ ھو
درحدودِایں نظام چار سو
پرِکَہ از خاک وبرخیزدزخاک
حیف اگر درخاک میردجان پاک
گرچہ آدم بردمید از آب وگِل
رنگ ونم چوں گُل کشیدازآ ب وگِل
حیف اگردر آب وگِل غلطد مدام
حیف اگر برترنَپَرَّدْ دزیں مقام
گفت تن در شو بخاکِ رہگزر گفت جاں پہنائے عالم رانِگر
جاں نگنجد درجہات اے ہوشمند
مردِحُربیگانہ ازہر قیدوبند
حُرزخاکِ تیرہ آ ید در خروش
زانکہ زاباراں نیاید کار موش

(جاوید نامہ،علامہ اقبال ص 67 انتظامی پریس، چار مینار،حیدرآباددکن،1945ء کلیات اقبال،فارسی750مکتبہ دانیال،ندیم پرنٹرز)
1۔ (افغانی کہتا ہے) مغرب کے لارڈ نے، جو سراسر مکر وفریب ہے،اہل دین کو وطن کی تعلیم(نیشنلزم) دی ہے۔

2۔ یورپ نے مسلمانوں کو تو نظریہ دین سے دور کیا ہے، لیکن وہ خود مرکز(مرکزیت)کی فکر میں ہے اور تو نفاق میں پڑا ہوا ہے۔ تو(مسلمان) بھی شام اور فلسطین وعراق کی علیحدگی کی باتیں چھوڑ۔

3۔ اگرتو اچھے برے کی تمیز رکھتاہے توپھر اپنا دل مٹی، پتھر اور اینٹ سے نہ لگا۔

4۔ دین کیاہے؟خاک پر سے اوپراٹھنے کانام ہے،تاکہ جان پاک اپنے آپ سے آ گاہ ہوجائے۔

5۔ جو کوئی ”اللہ ھو“ کہتا ہے، وہ اس چارطرفوں والے نظام(زمان ومکان) کی حدود میں نہیں سماتا ہے۔

6۔گھاس کا تنکا اگر چہ خاک ہے،لیکن وہ خاک سے اوپراٹھتا ہے، افسوس ہے کہ اگرچہ جان پاک خاک میں ہی مرجائے۔

7۔ اگرچہ آدمی کی پیدائش پانی اور مٹی یعنی عناصر(چارعناصرآب،آتش، خاک وباد) سے ہوئی ہے، لیکن اس سے پھول کی طرح رنگ اور نمی حاصل ہے۔

8۔ لیکن یہ جائے افسوس ہے کہ اگر وہ (آدمی) ہمیشہ مٹی اور پانی ہی میں لوٹتا رہے اور وہ اس مقام سے بلند پروازی نہ کرے۔

9۔ جسم نے تو یہ کہاکہ تو راستے کی خاک میں مل جا جب کہ جان نے کہا کہ تو کائنات کی وسعت کی طرف دیکھ۔

10۔ اے صاحب ہوش وخرد! جان اطراف یعنی زمان ومکان کی حدود میں نہیں سماتی۔ آزادمرد یا (مرد ِحق) ہرطرح کی قید وبند سے آزاد ہوتا ہے۔

11۔ آزاد مرد سیاہ مٹی کے خلاف احتجاج کرتا ہے اس لیے بازوں سے چوہوں کاکام نہیں ہوتا۔

ترتیب:محمدفاروق قاسمی،
مدرس:جامعہ اصحاب صفہ، مکسی، ضلع:شاجاپور،ایم
پی۔
13جمادی الاخری1443ء
17جنوری2022ء

Comments are closed.