Baseerat Online News Portal

تذکرۂ علمائے مدھوبنی

نام کتاب:تذکرۂ علمائے مدھوبنی
مرتب:عنایت اللہ ندوی
ناشر:بصیرت آن لائن ممبئی
صفحات:144
سائز: مکمل لیٹر پیڈ سائز طول وعرض 8/50×11
کاغذ : متوسط(قیمت درج نہیں ہے)
تبصرہ: مفتی محمدشرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجد انوارشیواجی نگر،گوونڈی ممبئی
ریاست بہار میں ضلع مدھوبنی کی سرزمین نے بیسویں صدی کے وسط سے علمی وادبی جہتوں میں بہت تیز رفتاری سے ترقی کی ہے، اس صدی میں بہت سی عظیم المرتبت شخصیات اس خطے سے اٹھیں،اور اپنی علمی،ادبی،تعلیمی دعوتی اور اصلاحی خدمات اور تاریخ ساز کارناموں سے نہ صرف خطے علاقے بلکہ ملکی پیمانے پربھی انھوں نے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، ان کے علمی و فکری کمالات،اخلاقی اوصاف اور متنوع خدمات کا تقاضا تھا کہ انہیں ضبط تحریر میں لاکر دنیا والوں کے سامنے اجاگر کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں ان نقوش کی روشنی میں ارتقاء کی راہیں طے کرسکیں۔
اس چیز کا احساس بہت پہلے سے ہمارے فاضل دوست مولانا غفران ساجد صاحب قاسمی ایڈیٹر بصیرت آن لائن کو تھا کہ مدھوبنی خطے کی شخصیات پر ایک جامع تاریخ مرتب ہونی چاہیے تاکہ علمی وفکری ہستیوں کے زریں نقوش زمانے کی دستبرد سے ایک طرف محفوظ ہوجائیں تو دوسری طرف رہروان شوق کے لئے منزلوں تک رسائی کا سامان بھی میسر ہوجائے۔
احساس وجذبات کی اس شدت نے بالآخر عملی صورت اختیار کی اور پانچ دسمبر 2021کو مدھوبنی میں ہی نہایت تزک و احتشام سے سیمینار کا انعقاد کرکے مولاناغفران ساجد قاسمی صاحب نے اپنی طرح بے شمار لوگوں کے خوابوں کو خوبصورت تعبیر کی سوغات عطا کردی ، یہ سیمینار ماضی قریب کی چار شخصیات فقیہ ملت مولانا زبیر احمد صاحب قاسمی، مولانا قاضی حبیب اللہ صاحب قاسمی، مولانا وصی احمد صاحب صدیقی اور مولانا مکیں احمد صاحب رحمہم اللہ کی حیات وخدمات پر منعقد ہوا جس میں قلمی صلاحیتوں سے آراستہ شاگردان رشید کے علاوہ ملک کے اصحاب قلم نے مذکورہ شخصیات کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی ہے، اور ان کے مخصوص اوصاف اور ممتاز جہتوں کو آشکارا کیا ہے۔

نام کتاب:تذکرۂ علمائے مدھوبنی
مرتب:عنایت اللہ ندوی
ناشر:بصیرت آن لائن ممبئی
صفحات:144
سائز: مکمل لیٹر پیڈ سائز طول وعرض 8/50×11
کاغذ : متوسط(قیمت درج نہیں ہے)
تبصرہ: مفتی محمدشرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجد انوارشیواجی نگر،گوونڈی ممبئی

اس موقع پر لکھے گئے مضمون نگاروں کے تمام مضامین کو مولانا عنایت اللہ ندوی صاحب نے عمدہ طریقے سے مرتب کردیا ہے اور پھر اسے کتابی شکل دے کر استفادہ کی راہیں ہموار کردی ہیں، اس خطے میں شخصیات کی تدوین اور ان پر منظم انداز میں کانفرنس کے حوالے سے یہ پہلا سیمینار تھا اب تک اس حوالے سے اس نوعیت کا کام نہیں ہوا تھا یقیناً یہ محترم غفران ساجد صاحب قاسمی کے جوش جنوں کا نتیجہ ہے۔
کتاب چار حصوں میں منقسم ہے، پہلا حصہ فقیہ ملت حضرت مولانا زبیر احمد صاحب قاسمی کی حیات سے متعلق ہے جس میں مقالہ نگاروں نے تقریباً ان کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے، مولانا مرحوم کے سوانحی کوائف سے لیکر ان کی فنی خوبیوں تک،
اور فکری وعلمی تبحر سے تدریسی کمالات تک، نیزاخلاقی اوصاف سے لیکر ذوق ومزاج کی خصوصیات تک کے تمام گوشوں سے یہ حصہ قارئین کو واقف کراتا ہے۔
دوسرا حصہ مدھوبنی کی محبوب اور علمی شخصیت حضرت مولانا قاضی حبیب اللہ صاحب قاسمی شاگرد رشید عارف باللہ حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی نوراللہ مرقدہ سے متعلق ہے، جس میں ان کے علمی وادبی گہرائی، تعلیمی وتدریسی جد وجہد، فقہ وفتاویٰ میں ان کی بصیرت،اور دینی علوم کی ترویج واشاعت کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے ان کی فکر وتڑپ کا تفصیلی ذکر ہے، اس باب میں حضرت قاضی صاحب سے متعلق دس مقالے ہیں جن میں ان کی زندگی کے خد وخال، تعلیمی سرگرمیاں، علمی گہرائی وگیرائی، اکابرین اسلاف سے الفت ومحبت، دینی ودعوتی جد وجہد کے ساتھ ساتھ ذاتی اوصاف وکمالات اور بلند کردار واخلاق کے جلوے موجود ہیں، راقم کے لئے مسرت کی بات یہ ہے کہ حضرت قاضی صاحب سے متعلق راقم کا لکھا ہوا مضمون بھی اس حصے میں شامل ہے جو یقیناً سعادت کی بات ہے۔
تیسرا حصہ حضرت مولانا وصی احمد صاحب صدیقی قاسمی کی حیات سے وابستہ ہے اور سات مقالات پر مشتمل ہے اور ہر مقالہ مستقل موضوع سے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے، حضرت مولانا صدیقی علم میں کس قدر وسعت رکھتے تھے، ان کے ذریعے علاقے میں دین کا کس قدر مزاج وماحول پیدا ہوا، ان کے حسن انتظام وانصرام کے ذریعے اور حسن تدبیر کے نتیجے میں چشمۂ فیض ململ نے عروج واقبال کی کتنی منزلیں طے کیں،نیز ان کے اخلاق وکردار نے کتنے قلب ونظر کو جلا بخشی،ان تمام گوشوں پر یہ حصہ بھر پور روشنی ڈالتا ہے۔
آخری حصہ میں مولانا صدیقی قاسمی کے معاون مہتمم مدرسہ چشمہ فیض ململ، کا تفصیلی تذکرہ ہے اور یہ تذکرہ پانچ مقالوں میں پھیلا ہوا ہے، جس میں ان کی تعلیم وتدریس کے علاوہ حسن انتظام، حسن تدبیر،دین کی اور تعلیم دین کی فکر وتڑپ اور اس سلسلے میں ان کی جہد مسلسل،کے نقوش آگہی حاصل ہوتی ہے، بصیرت کے اس مخصوص نمبر کے شروع میں روایت کے مطابق مولانا غفران ساجدقاسمی صاحب کا مبسوط اداریہ ہے جس میں سیمینار کے انعقاد کی تحریک، اس کی غرض وغایت،اور پروگرام کے انعقاد سے لیکر کتاب کی اشاعت میں تعاون کا بنیادی کردار ادا کرنے والے احباب کرام کا تفصیلی ذکر ہے جبکہ آخری صفحہ پر بصیرت کا تعارف،اغراض ومقاصد،عزائم ومنصوبے کے ساتھ ساتھ اس کی صحافتی وعلمی سرگرمیوں کے نقوش ثبت ہیں۔
کتاب کا سرورق نہایت خوبصورت اور جاذب نظر ہے،تحریر بھی صاف ستھری ہے،زبان وادب کے لحاظ سے تمام مضامین قابل قدر ہیں،البتہ مولانا عمر فاروق قاسمی صاحب کی تحریر میں متعدد جگہ،لفظ توجہ اور وجہ ’’کے بعد بجائے’’سے‘‘،’’کر‘‘کا استعمال ہوا ہے اس کی وجہ سے دوران مطالعہ کچھ عجیب سا لگتا ہے بہت غور کیا مگر یہ ترکیب سمجھ میں نہ آسکی، مجموعی طور چار شخصیات کی زندگی سے پردہ اٹھانے والی یہ کتاب ایک قیمتی دستاویز ہے، محترم فاضل دوست مولانا غفران ساجد قاسمی صاحب کی خدمت میں اس اہم کارنامے پر ہدیہ تہنیت پیش ہے۔

Comments are closed.