چندایام کتاب”رحمۃ للعالمین”کے سائے میں

ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
خادم تدریس
جامعہ نعمانیہ ویکوٹہ،آندھرا پردیش
ماضی قریب میں عالم اسلام کے عبقری اور عالمی شہرت کے حامل شخصیت مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ اللّٰہ (سابق ناظم مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ) گزرے ہیں، فاطرِ ہستی نے آپ کو ان گنت خصوصیتوں سے نوازا تھا، مولانا رحمہ اللہ کی ایک کتاب عربی میں”الطریق الی المدینہ” ہے اس کا اردو ترجمہ”کاروان مدینہ” کے نام سے ہے، عربی کتاب کا پہلا عنوان”الکتاب الذی لا انسی فضلہ”ہے اس کا اردو ترجمہ "وہ کتاب جس کا احسان میں بھول نہیں سکتا”ہے۔
اس عنوان کے تحت حضرت مولانا ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
*آج میں اس کتاب کا ذکر کروں گا جس کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے اور میں اس کے صاحب دل اور عاشق رسول مصنف کے لئے خدا کے حضور دل سے دعا کرتا ہوں جنہوں نے اپنی اس کتاب کے ذریعے مجھے ایک ایسی دولت سے آشنا کیا جو میرے نزدیک ایمان کے بعد سب سے قیمتی چیز بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں ایمان ہی کا ایک حصہ ہے اس کتاب کا نام” رحمۃ للعالمین” ہے،اور اس کے مصنف مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔*
حضرت مولانا ندوی رحمہ اللہ نے اس کے بعد اس کتاب کے خریدنے اور مطالعہ کرنے سے متعلق بڑی دلچسپ کہانی تحریر فرمائے ہیں اس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے:
*مولانا ندوی اپنی عمر کی گیارہویں بارہویں منزل میں تھے، والد محترم مؤرخ ہند حضرت مولانا سید عبد الحی حسنی رحمہ اللہ انتقال فرماچکے تھے، اس وقت آپ کے بڑے بھائی حضرت ڈاکٹر سید عبدالعلی صاحب رحمہ اللہ مربی اور سب کچھ تھے، بچپن سے ہی مطالعہ کا شوق و رغبت دلانے لگے ، اور ان کی خواہش تھی کہ پہلے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کرے تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے خاص لگاؤ پیدا ہوجائے، اسی عمر میں مولانا ندوی رحمہ اللہ نے فہرست کتب میں "رحمۃ للعالمین” کا نام دیکھا جو "شبلی بکڈپو لکھنؤ” سے شائع ہوئی تھی، مولانا نے مکتبہ کو آڈر بھجوادیا، اور ڈاک سے کتاب "تکیہ کلاں رائے بریلی” آگئی، لیکن مولانا ندوی رحمہ اللہ کے پاس ڈاک چھرانے کے لیے روپے نہیں تھے، اور والدہ محترمہ کے ہاتھ بھی خالی تھا، بس مولانا ندوی رحمہ اللہ بچوں کے منوانے کا طریقہ اپنایا والدہ کا دل نرم ہوا اور کوشش کرکے کہیں سے رقم لاکر مولانا کو حوالہ کی اور پھر مولانا نے کتاب حاصل کی۔* اب اندازہ لگائیں جو کتاب اس طرح حاصل کی گئی ہوگی اس کا مطالعہ کرنے کا جذبہ اور شوق کیا ہوگا نیز اس کتاب سے الفت و محبت کس قدر ہوگی، اور پھر دوران مطالعہ کتاب کا کیا اثر ہوا ہوگا ،اس لئے مولانا ندوی رحمہ اللہ نے کتاب کے بارے میں لکھا” وہ کتاب جس کا احسان میں بھول نہیں سکتا” ۔
راقم الحروف نے جب یہ قصہ دوران طالب علمی "کاروان مدینہ”میں پڑھا تھا اسی وقت اس کتاب سے محبت سی ہوگئی، اور کئی بار سوچا کہ اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے لیکن آج کل میں ٹلتا رہا تاآنکہ یکم جنوری 2022/ سے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر مطالعہ شروع کیا اور 31/جنوری 2022/کو مکمل مطالعہ کرلیا، اس وقت یہی کتاب "رحمۃ للعالمین” میرے سامنے ہے۔
یہ تین جلدوں پر مشتمل ہے، اور اکثر وبیشتر تینوں جلدیں الگ الگ شائع ہوتی ہیں، موجودہ دور میں سب سے عمدہ نسخہ” مرکزالحرمین الاسلامی،فیصل آباد،پاکستان” کا شائع کردہ ہے، اس نسخہ پر تخریج و تعلیق "میاں طاہر صاحب” کا نوک قلم سے ہے نیز موصوف کے ہی گہربار قلم سے شروع کتاب میں کتاب اور صاحب کتاب قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ کا عمدہ تعارف بھی ہے۔
یہ نسخہ ہمارے ملک ہندوستان میں چھپا ہے یا نہیں اس سے راقم الحروف ناواقف ہے، میرے سامنے اس وقت جو نسخہ ہے اور جسے مجھے مکمل مطالعہ کرنے کا شرف حاصل ہوا وہ تینوں جلدیں ایک ساتھ ہے، سن اشاعت 2001/ء ہے، اور یہ ہاتھ کی تحریر ہے کاتب غالباً ماضی قریب کے شہرہ آفاق کاتب شاہ نفیس الحسینی رحمہ اللہ(خلیفہ حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمہ اللہ) ہیں،(غالباً اس لیے لکھا کہ کاتب کا نام میں کہیں نہیں ہے البتہ ایک جگہ حاشیہ میں شاہ نفیس الحسینی رحمہ اللہ کا نام ہے حاشیہ ملاحظہ فرمائیں: *یہاں جناب مصنف علیہ الرحمہ سے تسامح ہوا ہے حضرت سید محمد گیسو دراز رحمہ اللہ کا سلسلہ نسب سیدنا زید بن علی بن حسین بن علی رضی اللہ عنھم تک پہنچتا ہے جس کی صراحت خود حضرت خواجہ گیسو دراز رح کی تصانیف میں موجود ہے۔۔۔۔نفیس الحسینی۔۔۔۔۔* (جلد 2/ صفحہ 114/کتاب ہذا) اسی حاشیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کی کتابت شاہ نفیس الحسینی رحمہ اللہ کے دست سے ہے۔واللہ اعلم باالصواب
ناشر : اعتقاد پبلشنگ ہاوس،کوتانہ اسٹریٹ،سوئیوالان ،نئی دہلی/ 2، ہے۔
پہلی جلد 289/صفحات پر ہے،جس میں ایک مقدمہ اور پانچ ابواب ہیں۔
عنوان :مقدمہ، قرب زمانہ بعثت،بعثت و نبوت۔
(1)باب اول: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے استحکام امن کے لئے بین الاقوامی معاہدے
(2)باب دوم: مختلف مذاہب اور مختلف ممالک میں دعوت اسلام
(3)باب سوم: وفود کا آنا
(4)باب چہارم: مدینہ میں دس سال کے اہم واقعات
(5)باب پنجم: خلق محمدی صلی اللہ علیہ وسلم
پانچوں ابواب مدنی زندگی اور” قرب زمانہ بعثت” اور ” بعثت و نبوت” مکی زندگی پر مشتمل ہے۔
مصنف رحمہ اللہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تین کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے (1) مختصر، "مہر نبوت” نام سے کتاب 88/صفحات پر مشتمل ہے، مجھے پی ڈی ایف کی شکل میں دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملا ہے کبھی فرصت میں مکمل مطالعہ کریں گے۔ان شاءاللہ
(2) متوسط، کتاب ہذا یعنی”رحمۃ للعالمین” تین جلدوں میں ہے
(3)مطول، مصنف رحمہ اللہ نے یہ کتاب تحریر فرمائے یا نہیں، فدوی اس سے نا آشنا ہے۔
مصنف رحمہ اللہ جلد اول میں ابتدائیہ کے تحت کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
*میں جانتا ہوں کہ میری یہ کتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محامد و محاسن کا اظہار اسی قدر کرسکتی ہے جس قدر ذرہ بے مقدار آفتاب عالم تاب کے انوار کو آشکارا کرسکتا ہے تاہم میں اس کتاب کے پیش کرنے کی جرأت صرف اس لیے کرتا ہوں کہ شاید کسی ایک انسان ہی کو اس کے مضامین سے فائدہ پہنچ سکے، مضامین کتاب کی نسبت اس قدر عرض کردینا ضروری ہے کہ میں نے صحیح روایات ہی کے اندراج کرنے میں پوری کوشش و سعی کی ہے۔*
تعارف کتاب میں جو عاجزی کا اظہار ہے اسی میں اس کی مقبولیت کا راز مضمر ہے، تقریباً ایک صدی سے یہ عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سرمہ بصیرت بن کر آنکھوں کو نور اور دل کو سرور پہنچارہی ہے۔
دنیا کے مشہور اور زندہ زبانوں میں ترجمہ کردی گئی ہے مجھ بے مایہ کو اس کے عربی ترجمہ بھی "پی ڈی ایف”کی شکل میں دیکھنے اور پڑھنے کا شرف حاصل ہے۔
جلد اول، اس انداز سے لکھی گئی ہے کہ اس میں پوری سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سمو دی گئی ہے آگر کوئی صرف جلد اول کا مطالعہ کرلے تو بھی اس کے سامنے پوری سیرت آجائے گی، جیسا کہ مصنف رحمہ اللہ جلد دوم کے تمہید میں خود لکھتے ہیں: *میں نے حصہ اول کو صرف ایسے مالا بد منہ حالات مبارکہ پر اختصار کے ساتھ محتوی رکھا تھا کہ اگر بقیہ جلدیں شائع بھی نہ ہوسکیں تب بھی وہ نقش ناتمام کی صورت میں غیر مکمل نظر نہ آئے۔*
جلد دوم! 273/صفحات اور آٹھ ابواب پر مشتمل ہیں،
(1)باب اول،النسب، شجرہ طیبہ،اس میں سیدنا آدم علیہ السلام تک کا نسب ہے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آل و اولاد کا بھی نسب ہے بلکہ ہمارے ملک ہندوستان میں جو حسنی و حسینی اور عثمانی وغیرہ ان کا بھی تذکرہ ہے، البتہ ہمارے ملک میں سب سے قدیم اور صحیح ترین حسنی خاندان”خانوادہ علم اللہی”(حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کا خاندان)کا تذکرہ نہیں ہے،میں نے اس سلسلے میں اپنے استاذ محترم حضرت مولانا محمد فیصل صاحب ندوی بھٹکلی دامت برکاتہم (استاذ مادر علمی: دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ) سے رابطہ کیا حضرت نے فرمایا کہ شاید اس وقت ان کے ذہن میں یہ بات نہ آئی ہو،کیونکہ ہر چیز کا مستحضر رہنا ضروری نہیں ہے، یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت حضرت مولانا عبد الحی حسنی رحمہ اللہ(صاحب”نزہۃ الخواطر” و سابق ناظم: دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ)کا شہرہ نہ ہوا ہو۔
(2)باب دوم،امہات المؤمنین ،اس باب کے شروع میں کثرت زوجات پر مدلل گفتگو ہے، اس میں امہات المؤمنین کے علاوہ دیگر انبیاء کرام کی کثرت زوجات کو بھی دکھایا گیا ہے، اسی طرح ایشیا کے مشہور مذہبی شخصیتوں کی کثرت زوجات کو بھی پیش کیا گیا ہے۔
(3)باب سوم، غزوات و سرایا،اس میں غزوات و سرایا کو نقشہ کے ذریعہ سمجھایا گیا جو بہت ہی کام کی چیز ہے،اسی طرح دوسرے ادیان و ملل کے لڑائیوں سے موازنہ بھی کیا گیا ہے۔
(4)باب چہارم، اساطیر کے معنی، اس میں دیگر انبیاء کرام کا واقعات دیگر آسمانی تحریفی کتابوں سے پیش کیا گیا ہے اور پھر ان واقعات کا قرآن مجید میں ذکر کردہ واقعات سے موازنہ کیا گیا ہے۔
(5) افضلیت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم، اس باب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء علیہم السلام کے فضائل ہیں اور پھر موازنہ بہت ہی ادب و احترام کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، تنقیص کا ذرہ برابر بھی نام و نشان نہیں ہے۔
(6) باب ششم، رحمۃ للعالمین، اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھایا گیا ہے کہ آپ ہی عالمیان کے باعث رحمت ہیں۔
(7) باب ہفتم، حب النبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا نبی کریم سے عشق و وارفتگی کو پیش کیا گیا ہے۔
(9) باب ہشتم، اس باب میں دنیا کے مشہور سنین کی تاریخیں اور ہر تاریخ کا ھجری تاریخ سے تطابق کیا گیا ہے،اور آخیر میں جدول واقعات مشہورہ سیرت نبوی بتایا گیا ہے۔
جلد سوم یہ 420/صفحات اور تین ابواب پر مشتمل ہیں
(1)باب اول، خصائص النبی صلی اللہ علیہ وسلم، اس کے تحت مشہور انبیاء کرام کی مختصر حالات زندگی بھی درج ہے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں اور اہم معجزات بھی ہیں۔
(2)باب دوم،خصائص القرآن،اس کے ضرورت قرآن،فصاحت و بلاغت قرآن، تاثیر قرآن، قبولیت قرآن،اور پھر قرآن مجید کی پیشگوئیاں بھی ہیں۔
(3) باب سوم، اسلام ہی دین توحید ہے، اس کے تحت عالم انسانیت پر اسلام کا جو احسان عظیم ہے اس کو اجاگر کیا گیا ہے چند عنوان اس طرح سے ہیں
اسلام ہی روحانیت کا مذہب ہے،اسلام ہی اخلاق حسنہ کا معلم ہے، اسلام ہی علم اور علماء کا حامل ہے،اسلام ہی مساوات کا بانی ہے،اسلام ہی دین الحسن والجمال ہے۔
اس جلد پر مقدمہ بزم شبلی کے تاجدار قلم و قرطاس کے بادشاہ علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کے عطر بیز قلم سے ہے، تیسری جلد کی اشاعت مصنف رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد ہوئی ہے جیساکہ علامہ سید رحمہ اللہ مقدمہ میں لکھتے ہیں:
*مرحوم نے اسلام کے فضائل میں اور تفسیر و تاریخ میں اپنے بعد اپنی متعدد یادگار چھوڑیں،مگر ان سب میں بہتر اور جامع ان کی تصنیف” رحمۃ للعالمین” ہے جس کے دو حصے خود ان کی زندگی میں چھپ چکے تھے اور اب یہ تیسرا حصہ ان کے بعد شائع ہورہا ہے۔*
عجیب اتفاق ہے کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اردو زبان میں دو عظیم ترین کتابیں ایک مطول "سیرت النبی” صلی اللہ علیہ وسلم (علامہ شبلی علامہ سید سلیمان ندوی رحمہم اللہ) ہے اور دوسری کتاب متوسط "رحمۃ للعالمین” (قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللّٰہ) ہے، ان دونوں کتابوں کی تکمیل علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کے حصہ میں آئی، اس بارے میں علامہ سید صاحب رحمہ اللہ کتاب ہذا کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
*آج سے بیس سال پہلے کا واقعہ ہے کہ مولانا شبلی مرحوم نے اپنی سیرۃ نبوی کی تجویز اہل ملت کے سامنے پیش کی تھی،اس کے جواب میں ہر طرف سے تائید کی آوازیں بلند ہوئیں،صرف ایک آواز مخالفت میں اٹھی یہ مولوی انشاء اللہ خان مرحوم ایڈیٹر”وطن” کی آواز تھی۔انہوں نے لکھا کہ قاضی محمد سلیمان صاحب چونکہ اس کے لکھنے کا ارادہ کررہے ہیں،اس لیے مولانا شبلی کو تکلیف کی ضرورت نہیں،اس کے بعد خاموشی سے بیس برس گزر گئے اور دونوں مصنفوں کی تصنیفوں کی کئی جلدیں ارباب شوق کے سامنے پیش ہوئیں اور دونوں نے قبولیت کی عزت پائی، پھر یہ کس کو خیال آسکتا تھا کہ یہ دونوں مصنف آگے پیچھے اس دنیا کو خیر باد کہیں گے”اور ان دونوں کے بعد ایک تیسرا شخص آئے گا جو فیوض و برکات کے ان دو مختلف سوتوں کو ملاکر ایک چشمہ بنادے گا،خدا کے سامنے میں(علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ) اس کی دی ہوئی اس عزت پر نازاں ہوں کہ اس نے بزرگوں کے متروکات کی تکمیل کی سعادت میرے حصہ میں رکھی”۔*
سچ فرمایا علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کے نام ور خلیفہ شیخ غلام محمد کچھی نے اپنے اشعار میں ایک بند میں کہتے ہیں:
*اے سلیماں آہ! پیغمبر کی سیرت نگار*
*تجھ پہ نازاں ہند تھا اور فخر کرتا تھا بہار*
تینوں جلدوں کی ترتیب اس قدر دلچسپ اور دل کش و دل نشیں بلکہ صحیح الفاظ میں تینوں جلدوں میں اس قدر یگانگت ہے کہ ایک کے بعد دوسری جلد اور پھر تیسری جلد تک پہنچ کر ہی قاری کو سکون ملتا ہے گویا کہ قرآنی الفاظ میں "ھل من مزید” کی صدا آتی ہے،اور قاری مکمل طور پر مسحور ہوکر رہ جاتا ہے۔
کتاب آج سے ایک صدی پہلے لکھی گئی ہے لیکن آج بھی اس میں روز اول کی طرح ہی شبابیت برقرار ہے کہنگی کا شائبہ تک محسوس نہیں ہوتا، زبان و بیان شیریں اور دلکشی سے مملو ہے، اسلوب نگارش دل چسپ، شگفتہ،رواں دواں اور دل آویز ہے۔
لیکن افسوس کہ حضرت مولانا نظام الدین اسیر ادروی رحمہ اللہ اس کی زبان و بیان پر نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
*زبان و بیان میں قدامت کا رنگ ہے۔* (کاروان رفتہ:112)
مولانا اسیر ادروی رحمہ اللہ نے کس بنا پر اس کی زبان وبیان پر یہ نقد کی ہے معلوم نہیں، فدوی نے اس سلسلے میں اپنے استاذ محترم حضرت مولانا محمد فیصل صاحب ندوی بھٹکلی دامت برکاتہم(استاذ مادر علمی: دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ) سے رابطہ کیا اور ان سے "رحمۃ للعالمین” کی زبان و بیان کے بارے میں گفتگو کی ، نیز مولانا ادروی کی نقد کا بھی ذکر کیا اس پر مولانا ندوی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ مولانا ادروی کی نقد درست نہیں ہے بلکہ *”رحمۃ للعالمین”کی زبان و بیان بڑی ہی دلکش و دلفریب ہے۔*
کتاب کے بارے میں عالم اسلام کی معروف علمی اور فکری شخصیت مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ اللہ اپنا تأثر لکھتے ہیں:
*میں نے بڑی ہی محبت و عقیدت توجہ انہماک سے اس عظیم کتاب کا مطالعہ کیا اور آج میں برملا اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ”رحمۃ للعالمین”اپنی منفرد جاذبیت،عناوین کی ترتیب اور خوبصورت پیرایہ اظہار کے باعث ان عظیم کتب میں سرفہرست ہے جنہوں نے اپنی مقناطیسیت اور کشش کے باعث نہ صرف میرے دل و دماغ کو جھنجھوڑا بلکہ میری تصنیفی اور تالیفی صلاحیتوں کو بھی جلاء اور رہنمائی بخشی۔*(کاروان زندگی)
مقدمہ کتاب میں علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ مصنف کا عشق رسول اور پھر کتاب میں جو اس کا اثر ہے اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
*ناظرین دیکھیں گے کہ ایک عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قلم نے عشق و محبت کے نشۂ سرور میں علم و عقل کی فرزانگی اور ہوشیاری کے ساتھ نکتہ رسی اور دیدہ وری کی کیا کیا صنعت کاریاں کی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے یقین ہے کہ جب تک ہندوستان میں اسلام کا دریا لہریں لیتا رہے گا "رحمۃ للعالمین”کے یہ کاغذی سفینے مسلمانوں کی سلامتی ایمان کے لیے اس میں چلتے پھرتے تیرتے ابھرتے رہیں گے۔*
کتاب کی صحت بیان اور اس کے معتبریت کے بارے میں حضرت مولانا مودودی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
*اگر چہ اردو میں سیرت النبی کے موضوع پر بے شمار کتابیں شائع ہوچکی ہیں تاہم ان کتب میں چند ہی ایسی ہیں جن کے اندر واقعات کی صحت کا کما حقہ لحاظ رکھا گیا ہے،ان گنی چنی کتب میں قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ کی "رحمۃ للعالمین”سرفہرست ہے۔*
کتاب کا انداز بیان مناظرانہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنف توراۃ و انجیل پر بھی عبور رکھتے تھے اس لئے جگہ جگہ اسلام کا دوسرے ادیان سے موازنہ بھی کرتے ہیں، لیکن مکمل متانت و سنجیدگی کے ساتھ بحث کرتے ہیں علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
*مناظرانہ طریق تصنیف میں سنجیدگی اور متانت کا برقرار رکھنا سخت مشکل کام ہے،مگر جس طرح خود مصنف مرحوم اس وصف میں ممتاز تھے، اسی طرح کی یہ تصنیف بھی اس وصف میں امتیاز خاص دکھتی ہے،پوری کتاب مناظرہ اور احقاق حق کی رودادوں سے لبریز ہے،تاہم کہیں تہذیب اور مذاق سلیم کو حرف گیری کا موقع نہیں مل سکتا،ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔*
اہل کتاب یہود و نصارٰی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بھی اس میں بڑی کام کی چیزیں ہیں، اہل کتاب کے ہوائی دعووں کا ٹھوس اور مسکت جواب بہت ہی خوش اسلوبی اور عمدہ پیرایہ میں جواب دیا گیا یہ بھی اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت ہے علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ اس بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
*”رحمۃ للعالمین”کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ مصنف کے ذوق کے مطابق سوانح اور واقعات کے ساتھ غیر مذاہب کے اعتراضات کے جوابات اور دوسرے صحف آسمانی کے ساتھ موازنہ اور خصوصیت سے یہود و نصاری کے دعاوی کا ابطال اس میں جابجا ہے مصنف مرحوم کو توراۃ اور انجیل پر کمال عبور حاصل تھا،اور عیسائیوں کے مناظرانہ پہلوؤں سے اس کو پوری واقفیت تھی،اسی بناء پر اس کی یہ کتاب ان معلومات کا پورا خزانہ ہے۔*
اللہ تعالیٰ نے مصنف کے تمام کتابوں میں سب سے زیادہ اسی کو مقبولیت بخشی ہے، اور اسی کتاب نے مصنف رحمہ اللہ کے نام کو ہمیشہ کے لئے زندہ و تابندہ کردیا، اللہ تعالیٰ مصنف رحمہ اللہ کو جنت کا مکیں بنائے۔(آمین)
Comments are closed.