Baseerat Online News Portal

إلى ولدي – ایک دلچسپ اور بیش قیمت کتاب

مطالعہ کی میز پر

محمد رضی الرحمن قاسمی
ینبع، مدینہ منورہ

ماضی قریب کے مشہور عربی ادیبوں میں ایک نمایاں نام احمد امین کا ہے ۔ دوسرے انسانوں کی طرح وہ بھی انسان تھے، آپ ان کی بہت ساری باتوں سے اختلاف کر سکتے ہیں اور علماء اور محققین نے کیا بھی ہے؛ لیکن دو باتوں میں شاید اختلاف نہ کیا جا سکے: ایک تو یہ کہ وہ زبان نہایت ہی سبک، رواں اور دل میں اتر جانے والی لکھتے ہیں، دوسرے یہ کہ ان کی تحریروں میں زبان کی چاشنی کے ساتھ معانی و مطالب کی بھی ایک دنیا آباد ہوتی ہے۔

ان کی مشہور کتابوں میں ان کی خود نوشت "حياتي” ہے، جس کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے، اسی طرح "فجر الاسلام، ضحى الاسلام اور عصر الاسلام ” ان کی بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سے ہیں۔ ان کی ایک نسبتاً غیر معروف کتاب "إلى ولدي” ہے، جو پہلی بار1951 ء میں طبع ہوئی تھی، میرے علم میں نہیں ہے کہ اس کی دوسری مرتبہ طباعت ہوئی بھی ہے یا نہیں؟

اس ڈیڑھ سو صفحات کی کتاب کا قصہ یہ ہے کہ مصر کے اس وقت کے مشہور زمانہ ماہنامہ "الہلال” نے 1949 ء کے اواخر میں احمد امین سے یہ کہا کہ وہ چند مضامین اور آرٹیکلز "رسالة إلى ولدي” کے مرکزی عنوان کے تحت لکھیں۔ چنانچہ انہوں نے 1950ء کے بارہ مہینوں میں "الہلال” کے بارہ شماروں کے لئے بارہ آرٹیکلز ز مذکورہ عنوان کے تحت لکھے۔ اس وقت اتفاق سے ان کا لڑکا انگلینڈ میں زیر تعلیم تھا ، احمد امین نے ذہن میں اسی کو رکھ کر کر یہ سارے خطوط یا یا آرٹیکلز لکھے ہیں۔

پھر دوستوں کے مشورے پر ان خطوط کوایک مختصر کتاب کی شکل میں میں شائع کرنے کا ارادہ کیا، تو ناشر نے کہا کہ حجم اور صفحات کے اعتبار سے یہ بطور کتاب بہت ہی مختصر محسوس ہورہی ہے، کیوں نہ ایسا کریں کہ چند اور خطوط کا اضافہ کر دیں، احمد امین نے سوچا کہ کچھ اور باتیں جو میں اپنے بیٹے سے اور اس کو واسطہ بنا کر ملت کے ہر بیٹے سے کہنا چاہ رہا تھا، اور جو ان بارہ خطوط میں سمو نہیں سکے ہیں، ان کا بھی اضافہ کر دیا جائے، چنانچہ انہوں نے چند خطوط کا اضافہ کردیا، جن میں ایک خط شادی کے بعد یورپ جانے والی اپنی فرضی بیٹی کے نام اور ایک خط بیٹے کی طرف سے والد کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

ان خطوط کو لکھے ہوئے تقریبا 72 سال ہوگئے ہیں؛ لیکن ان کو پڑھنے پر پر بالکل تروتازہ محسوس ہوتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ عہد کے نوجوان نسل سے یہ خطوط خطاب کر رہے ہیں اور ان ہی کے لئے لکھے گئے ہیں۔

ایک دوست کی مہربانی سے اس کتاب کی پہلی طباعت 1951ء والا نسخہ مجھ تک پہنچا، جب اس کتاب کو پڑھا، تو دلچسپ اور مفید معلوم ہوئی، پڑھنے کے بعد خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے قارئین تک بھی اس مختصر لیکن مفید کتاب کے بارے میں معلومات پہنچا دوں، اور عربی زبان کے جاننے والے اور عربی زبان کے طلباء و اساتذہ دونوں سے یہ سفارش کروں کہ وقت نکال کر اس کتاب کو ضرور پڑھیں، جہاں زندگی کے روزمرہ کے حقائق پر سوچنے اور غور کرنے کا ایک نیا زاویہ ملے گا ، وہیں یہ کتاب زبان و بیان کو بھی صیقل کرے گی اور آپ کے ذوق کے لئے سامان تسکین فراہم کرے گی۔

یہ کتاب ہلکے پھلکے انداز میں میں بیش قیمت افکارونظریات اور تجربات سے بھری ہے۔ آئیے! ان میں سے چند اقتباسات بطورنمونہ کے پڑھتے اور لطف لیتے ہیں:

قلة العلم مع الأمل و الطموح خيرٌ من كثرته مع اليأس و القنوط.

علم کچھ کم ہو؛ لیکن حوصلے بلند ہوں اور انسان پر امید رہے، یہ اس سے بہت زیادہ بہتر ہے کہ علم تو کسی کے پاس خوب ہو؛ لیکن وہ مایوس اور حوصلہ ہارا ہوا ہو۔

إن الذوق عمِل في تربية الأفراد والجماعات أكثر مما عمل العقل، فالفرق بين إنسان و ضيع و إنسان رفيع، ليس فرقا في العقل وحده؛ بل أكثر من ذلك فرق في الذوق.

افراد اور جماعتوں کی تعمیر و ترقی میں عقل سے زیادہ بڑا رول اچھا ذوق ادا کرتا ہے، ایک گھٹیا اور بہترین انسان کے درمیان صرف عقل ہی کا نہیں؛ بلکہ اس سے کہیں زیادہ ذوق کا فرق ہوتا ہے۔

لا تكن مغرورا ، تعتقد أنك على حق مطلق، و أن غيرك -إن خالفك- على باطل مطلق؛ بل وسع صدرك فاجعل حقك يحتمل الخطأ و باطل غيرك يحتمل الصواب.

و قلما يعرف احد الحق كل الحق، ويقع أخوه في الباطل كل الباطل، فحقك مشوب بباطل كثير ، و باطل غيرك مشوب بحق كثير، فأصغ إلى رأيه و أعمل عقلك فيه، و استخرج منه خير ما فيه. ولاتشمئز من ذلك، فالحق يعلو و لا يعلى عليه. إنك إن فعلت ذلك نجحت.

دھوکے میں مت پڑو، اور اس زعم میں مت مبتلا ہو جاؤ کہ تم بالکل برحق ہو، اور دوسرا جو تمہاری مخالفت کررہا ہے، وہ بالکل ہی غلط ہے اور باطل پر ہے؛ بلکہ کشادہ دلی اختیار کرو، ہو سکتا ہے کہ اصل میں تمہاری سچائی ، سچائی نہ ہو اور دوسرے کی غلطی اصل میں غلطی نہ ہو۔

بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی سو فیصد درست ہو اور اس کا مخالف سو فی صد غلط، آپ کا درست اور حق بھی بہت سارے غلط سے گھرا ہوتا ہے اور دوسرے کی غلطی اور خطا میں بہت سی اچھائیاں ہوتی ہیں۔ دوسرے کی رائے بھی سننی چاہئے اور اس میں سے خیر و بھلائی کو لے لینا چاہئے۔ اس سے بدکنے کی ضرورت نہیں، آخرش حق سربلند رہتا ہے اور اس پر غلبہ نہیں پایا جا سکتا۔ اگر تم نے اوپر مذکور روش اختیار کی تو کامیابی تمہاری قدم چومے گی۔

یہ تین اقتباسات بطور نمونہ کے ذکر کئے گئے ہیں، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ پوری کتاب ہی ہلکے پھلکے انداز میں قیمتی نصیحتوں، مشوروں اور تجربات سے بھری ہے، ایک نسل سے سے دوسری نسل کے زمانہ کے مختلف ہونے پر، حقوق و فرائض پر، اور فطری تقاضوں کی رعایت اور بے لگام خواہشات کے پیچھے اندھا دھند چل نکلنے کے فرق پر بڑی عمدہ گفتگو کی گئی ہے۔ عقلی اور منطقی طور پر دین و اخلاق کی ہماری زندگی میں لزوم اور ضرورت پر ، قربانی اور دوسروں کے لئے جینے کی اہمیت پر، پچھلی اور موجودہ نسل دونوں میں سنجیدگی اور لہو و لعب کے معاملات میں عدم توازن پر اور اپنے موضوع پر اختصاص یعنی اسپیشلائزین کے ساتھ مثقف اور کلچرڈ بن کے رہنے کے لئے مطالعہ اور نیا سیکھتے رہنے پر بڑی نفیس باتیں اس کتاب میں ذکر کی گئی ہیں۔ اس کتاب میں اسباب اختیار کرنے اور توکل کے مفہوم کو، اچھی چیزیں جہاں سے ملے، اسے لے لینے کو؛ لیکن ساتھ ہی یورپ کی اندھی بہری تقلید سے گریز کرنے کو، نیزعلم و تحقیق اور صرف ڈگری کے حصول کی کوشش کے بیچ کے فرق کو اور فائدے نقصان کو بڑے ہی آسان اسلوب میں بیان گیا ہے۔

پڑھئے، اس کتاب کو ضرور پڑھئے، زبان کا لطف لیجئے، مشوروں اور تجربات سے فائدہ اٹھائیے اور زندگی کے روزانہ کے معمولات میں سے ایک کام پڑھنا اور نیا سیکھنا بنایئے۔

{ معاً، من أجل مستقبل وضّاء }

محمد رضي الرحمن القاسمي
أستاذ اللغة العربية وآدابها
رضوى العالمية ينبع،
المملكة العربية السعودية

Comments are closed.