آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
مسلمان خواتین اور نرسنگ
سوال:- آج کل ہندوستان میں مریضوں کی خدمت اور تیمارداری کے لیے نرسز رکھی جاتی ہیں ، کیا نرسنگ کا کام مسلمان عورتوں کے لیے جائز ہے ؟ ( فائزہ تسنیم،دلسکھ نگر(
جواب:- معتدل اور عام حالات میں کسی عورت کے لیے اجنبی مرد کی تیمارداری جائز نہیں ،کہ اس میں فتنہ کے اندیشے ہیں، اور انہیں اندیشہ ہائے دور دراز نہیں سمجھنا چاہئے ؛ بلکہ ہسپتالوں میں اس طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں؛ اس لیے اس بات کی تو گنجائش ہے کہ جو وارڈ خواتین کے لیے مخصوص ہوں ، ان میں خواتین نرس کا کام انجام دیں اور شرعی حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے فرائض پورے کریں ، مردوں کے وارڈ میں عورتوں کا بہ حیثیت نرس کام کرنا یا مرد ڈاکٹر کے ساتھ ان کی تنہائی یا ان کے ایسے لباس یا یونیفارم میں رہنا جو اسلامی حجاب کے تقاضا کو پورا نہ کرتے ہوں ، جائز نہیں، یہ مسلمان بہنوں کے لیے قید و بند نہیں؛ بلکہ ان کی حفاظت و صیانت کی کوشش ہے ، غیر معمولی حالات جیسے اچانک کسی آفتِ سماوی کا آجانا جس سے بہت سے لوگ ہلاک ہوجائیں ، یا جنگی حالات کا معاملہ ، اس سے کسی قدر مختلف ہے ، ایسے مواقع پر اگر زخمیوں کی تیمارداری کے لیے مرد فراہم نہ ہوں تو خواتین بھی شرعی حدود کی ممکن حد تک رعایت کے ساتھ تیمار داری کرسکتی ہیں؛ چنانچہ امام بخاری ؒ نے ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نقل کیا ہے کہ ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( جنگ کے موقع پر ) پانی لاتے تھے ، زخمیوں کا علاج کرتے تھے ، اور مقتولوں کو منتقل کرتے تھے ، بخاری کے حاشیہ پر اس کے ذیل میں لکھا ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے موقع پر اجنبی عورت اجنبی مرد کا علاج کرسکتی ہیں :فیہ جواز معالجۃ المرأۃ الأجنبیۃ للرجل الأجنبي للضرورۃ (حاشیۃ علی صحیح البخاری : ۱/۴۰۳ ) لیکن جیسا کہ مذکور ہوا کہ خصوصی اور غیر معمولی حالات پر عام حالات کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔
جنون کے علاج کے لیے اسقاط حمل
سوال:- میری ایک شادی شدہ لڑکی ہے، جو تقریبادوماہ کی حاملہ ہے؛ لیکن بد قسمتی سے اسے اب دماغی خلل کا عارضہ ہوچکاہے، اوروہ اکثر خود کشی کے متعلق سوچاکرتی ہے ، حتی کہ ایک مرتبہ اس نے اقدام خود کشی بھی کرلی، جو اتفاقاََ ناکام ہوئی اوراب خاتون ماہر نفسیات (جس کاعلاج چل رہا ہے ) کا کہناہے کہ جب تک لڑکی کا حمل ساقط نہ کیاجاسکے ، تب تک اس کا علاج ممکن نہیں ، اگرحمل برقرار رکھناہے تو اس علاج کوروکناپڑے گا ، ورنہ پیٹ میں بچے پر اس کے برے اثرات مرتب ہوں گے ، ایسی صورت میں حمل ساقط کروانا شرعاً کیساہے ؟ (تسنیم کوثر، ہمایوں نگر)
جواب:- جو صور ت آپ نے لکھی ہے ، اس میں لڑکی کی صحت اور دماغ کی حفاظت کے لیے اسقاط ضروری ہے اور چوں کہ ابھی سولہ ہفتے نہیں گزرے ہیں؛ اس لیے روح نہیں پیداہوئی ہے ؛ لہذا اسقاط حمل کی گنجائش ہے ؛ تاہم مناسب ہے کہ اس سلسلہ میں ایک سے زیادہ معتبرو ماہر مسلمان ڈاکٹر وں سے مشورہ کرلیاجائے ، اگر ان کی رائے ہوکہ اسقاط حمل ضروری نہیں ہے ، عورت کی دماغی کیفیت ایسی ہوکہ وہ حمل کا بار اٹھاسکتی ہو ، پھر وضع حمل کے بعد اس کا علاج ممکن ہو،نیز جنین کے کسی خطر ناک مرض میں پیدائشی طور پر مبتلاہونے کاامکان نہ ہوتو بہتر ہے کہ اسقاط حمل نہ کرایاجائے ۔(جدید فقہی مسائل:۱؍۲۹۸)
کن صورتوں میں سلام کرنا منع ہے ؟
سوال:- سلام کرنا اسلامی شعائر میں سے ہے اور سلام میں سبقت کرنا بہترین عمل ہے ؛ لیکن کن صورتوں میں اور کن مقامات پر سلام کرنا منع ہے ؟ ( محمد مصطفیٰ، شامیر پیٹ)
جواب:- کن مواقع پر اور کن لوگوں کو سلام نہ کیا جائے فقہاء اور شارحین حدیث نے اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے ، علامہ حصکفی ؒ نے اس سلسلہ میں صدر الدین غزی کے سات اشعار نقل کئے ہیں اور اس پر اپنے ایک شعر کا اضافہ کیا ہے ، ان اشعار میں بڑی حد تک ان لوگوں کو جمع کر لیا گیا ہے جن کو سلام نہیں کرنا چاہئے ، ان اشعار میں جن لوگوں کا ذکر ہے ، وہ یوں ہیں : نماز ، تلاوت قرآن مجید اور ذکرمیں مصروف شخص ، جو حدیث پڑھارہا ہو ، کوئی بھی خطبہ دے رہا ہو ، مسائل فقہ کا تکرار و مذاکرہ ، جو مقدمہ کے فیصلہ کے لئے بیٹھا ہو ، اذان دے رہا ہو ، اقامت کہہ رہا ہو ، درس دے رہا ہو ، اجنبی جوان عورت کو بھی سلام نہ کرنا چاہئے کہ اس میں فتنہ کا اندیشہ ہے ، شطرنج کھیلنے والے اور اس مزاج و اخلاق کے لوگ جیسے جو لوگ جوا کھیلنے میں مشغول ہوں ، جو اپنی بیوی کے ساتھ بے تکلف کیفیات میں ہو ، کافر اور جس کا حصۂ ستر کھلا ہوا ہو ، جو پیشاب پائخانہ کی حالت میں ہو ، اس شحص کو جو کھانے میں مشغول ہو ، ہاں اگر کوئی شخص بھوکا ہو اور توقع ہو کہ سلام کی وجہ سے وہ شریک دسترخوان کر لے گا تو اس کو سلام کر سکتا ہے ، گانے بجانے اور کبوتر بازی وغیرہ میں مشغول شخص کو بھی سلام نہیں کرنا چاہئے (الدرالمختار علی ہامش الرد : ۲/۷۵-۲۷۳) اس کے علاوہ اور صورتیں بھی اہل علم نے ذکر کی ہیں ، خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ کسی اہم کام میں مشغول ہوں ، جو لوگ فسق و فجور میں مصروف ہوں ، جن کو سلام کرنا تقاضۂ حیا کے خلاف ہو اور جن کو سلام کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو ، ایسے لوگوں کو اور غیرمسلموں کو پہل کر کے سلام نہ کرنا چاہئے ۔
اکسیڈنٹ کامعاوضہ
سوال:-لاری یابس حادثہ میں کوئی آدمی مرجائے تو عدالت مہلوک کے ورثاء کو رقم دلاتی ہے ، اس رقم کا لینا جائز ہے یانہیں ؟ (مستفیض الرحمٰن، کریم نگر )
جواب:- شریعت نے قتل کی صورت میں قاتل پر دیت واجب قرار دی ہے ، احکام کے اعتبار سے قتل کی تین صورتیں ہیں : قتل عمد ، شبہ عمد ، اور قتل خطاء ، قتل عمد یہ ہے کہ قتل ہی کے ارادہ سے ایسے ہتھیار کے ذریعہ کسی شخص کو ہلاک کردیاجائے جو عام طور پر قتل کے لیے استعمال کیا جاتاہے ، جیسے تلوار ، بندوق ، شبہ عمد یہ ہے کہ مقصود تو مہلوک پر وار کرناہی ہو؛ لیکن جوہتھیار استعما ل ہووہ عام طور پر قتل کا باعث نہیں ہوتا، جیسے لاٹھی ، گھونسہ وغیرہ ، قتل خطاء یہ ہے کہ حملہ کا ارادہ ہی نہ ہو؛ لیکن کوئی شخص اس کے ہاتھوں ہلاک ہوجائے ، کسی قدر فرق کے ساتھ دیت ، قتل کی ان تینوں صورتوں میں واجب ہوتی ہے ۔(الھدایۃ :۴/۵۵۹ )
ایک شخص موٹر چلارہاہواو ردوسرا شخص ا س کی زد میں آکر ہلاک ہو جائے اور کوتاہی گاڑی چلانے والی کی ہو ، تو یہ صورت بھی قتل خطاء کے زمرہ میں آتی ہے اور اس میں بھی شرعادیت یعنی مہلوک کامالی ہرجانہ واجب ہوتاہے ، شرعاََدیت سو اونٹ مقرر کی گئی ہے ، جس کی اچھی خاصی قیمت ہوتی ہے؛ اس لیے اس رقم کالینا اور اس کا استعمال کرنادرست ہے ۔
مال رہن کو فروخت کرنا
سوال:-ہم لوگ یہاں خدمت خلق کے نقطۂ نظر سے کچھ سامان رکھ کر بلا سودی قرض دیتے ہیں، لوگ سامان رکھ کر برسوں نہیں آتے ، انتظار کے بعد ہم انہیں فروخت کردیتے ہیں ، کیا یہ جائز ہے ؟ ( ابو طلحہ، سنتوش نگر)
جواب:- آپ قرض دیتے وقت ان سے لکھا لیا کریں کہ اگر میں نے مقررہ تاریخ پر قرض ادانہیں کیا تو ادارہ کو حق ہوگا کہ وہ میرا رہن رکھا ہوا سامان فروخت کر کے اپنا قرض وصول کرلے ، ایسی صورت میں آپ کے لیے یہ بات جائز ہوگی کہ سامانِ رہن فروخت کردیں اور قرض وصول کرلیں اور باقی رقم محفوظ کردیں، جب وہ آئے تو اسے ادا کردیں، رہن رکھنے والا مقروض ہی سامان کا اصل مالک ہوتا ہے ؛ اس لیے جب تک اس کی اجازت نہ ہو سامان فروخت نہیں کیا جاسکتا:و لیس للمرتھن أن یبیعہ إلا برضاء الراھن ؛ لأنہ ملکہ و ما رضی بیعہ (الھدایۃعلی ھامش فتح القدیر : ۵/۵۳۸ )
کیا دو سال کے بعد دودھ کا رشتہ ثابت ہوتا ہے ؟
سوال:- زید کا رشتہ اس کی خالہ کی لڑکی سے طے ہوا؛ مگر اسکے خاندان کے تمام افراد کی متفقہ گواہی ہے کہ زید کی خالہ نے زید کی والدہ کا دودھ پیاہے ؛ مگر اس وقت زید کی خالہ کی عمر نہیں بتاپا رہے ہیں ، صرف ایک خاتون جو زید کی والدہ کی سگی چچی ہیں، وہ پختہ گواہی دے رہی ہیںکہ اس وقت اس کی عمر ڈھائی سال تھی ، زید حنفی مسلک سے تعلق رکھتا ہے اور احناف کے نزدیک ڈھائی برس کے بعد دودھ پینے سے رضاعت قائم نہیں ہو تی ، تو سوال یہ ہے کہ کیا :
(۱) اسلام میں صرف ایک خاتو ن کی گواہی کافی ہے؟
(۲) کیاامام اعظم ابو حنیفہؒ کے نزدیک ڈھائی برس کے بعد دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے ؟ (عبدالرب، راجندر نگر )
جواب:- تمام لوگ گواہی دے رہے ہیں کہ زید کی خالہ نے زید کی والدہ کا دودھ پیاہے ، اس لحاظ سے زید کے لئے وہ لڑکی رضا عی بھانجی قرار پاتی ہے؛ البتہ عمر کے بارے میں صحیح اندازہ نہیں ہے، صرف ایک خاتو ن کا کہناہے کہ اس وقت زید کی خالہ ڈھائی سال کی ہوچکی تھی؛ لیکن عمرکے اندازہ میں عام طور پر غلطی رہتی ہے؛ اس لئے اس صورت میں زید کانکاح اسکی خالہ کی لڑکی سے نہیں کیا جائے؛ کیوںکہ جب حلال وحرام دونوں کااحتمال ہو تو حرمت کے پہلو کو ترجیح دی جاتی ہے ،( الأشباہ و النظائر للسیوطی: ص : ۱۰۵ ، الأشباہ و النظائر لابن نجیم : ص : ۱۰۹ )اس لئے اس رشتہ کو ترک کردینا چاہئے ، دین کامزاج یہ ہے کہ حرام سے ہی نہیں؛س بلکہ مشکوک ومشتبہ چیزوں سے بھی اپنے آپ کو بچایا جائے ۔
مسواک اور مسواک کا طریقہ
سوال:- مسواک کس طرح کرنا چاہئے ؟ مسواک کیسی ہو؟ اور مسواک کرتے ہوئے اسے کیسے پکڑا جائے؟( محمد حمزہ، ملک پیٹ)
جواب :- مسواک کے سلسلہ میں بہتر ہے کہ نرم ہو، لکڑی میں جوڑ نہ ہو، انگلی کے بقدر موٹی ہو، ایک بالشت لمبی ہو، پیلو کی ہو، یا کسی کڑوی لکڑی کی ہو، مسواک کا طریقہ یہ ہے کہ دانت کے اوپری حصہ پر بھی کیا جائے، اور نچلے حصہ پر اور ڈاڑھوں پر بھی ، دائیں جانب سے مسواک کی ابتداء کرے ، کم سے کم تین بار اوپر تین بار نیچے پانی کے ساتھ مسواک پھیرنی چاہئے ، مسواک چوڑائی میں یعنی دائیں حصہ سے بائیں حصہ کی طرف کرنی چاہئے ، طول میں مسواک کرنا بہتر نہیں، کہ اس سے مسوڑھے زخمی ہوسکتے ہیں، مستحب ہے کہ مسواک کو دائیں ہاتھ سے پکڑا جائے، اور مسنون طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کو مسواک کے نیچے حصہ میں اور انگوٹھے کو اگلے حصہ میں مسواک کے نیچے اور باقی تینوں انگلیوں کو مسواک کے اوپر رکھ کر مسواک کی جائے، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے یہی طریقہ مروی ہے ، (البحر الرائق : ۱/۴۲، کتاب الطھارۃ) لیٹی ہوئی حالت میں مسواک کرنا مکروہ ہے، اسی طرح اگر قئ کا اندیشہ ہو تو مسواک نہیں کرنی چاہئے، —– مسواک کے بارے میں یہ تمام تفصیلات مشہور فقیہ علامہ ابن نجیم مصری ؒ نے تحریر فرمائی ہے۔ (البحر الرائق : ۱/۲۱-۲۰، کتاب الطھارۃ)
نماز میں ترجمہ پر توجہ
سوال:- نماز ہی میں سورئہ فاتحہ اور سورتوں کا ترجمہ سونچنااور اس پر غور و فکر کرنا کیسا ہے؟اگر اس طرح کیاجائے تو دھیان ادھرادھر نہیں جاتا؟ (محمد فردوس، حمایت نگر)
جواب:- اگر کوئی شخص ترجمہ سے واقف ہو،اور کلمات ِ قرآنی کو پوری توجہ سے سنتے ہوئے اپنے ذہن کو اس کے معانی کی طرف متوجہ رکھے تو کچھ حرج نہیں؛کیونکہ قرآن کی بالخصوص جہری تلاوت کامقصد ظاہر ہے کہ صرف الفاظِ قرآنی سے کان کو محظوظ کر نا نہیں؛بلکہ اس کے معانی ومقاصد بھی مطلوب ہیں،اگر قرآن کے معانی پر بھی توجہ ہو ،تو نماز میں خشوع اور انابت الیٰ اللہ کی کیفیت بڑھ جاتی ہے؛اس لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ،ہاں معانیٔ قرآن کے سواء دوسری باتوں کی طرف قصداًذہن کومتوجہ رکھنا مکروہ ہے؛لیکن نماز اس سے بھی فاسد نہیں ہوتی ،علامہ ابن نجیم مصریؒ لکھتے ہیں کہ اگر نماز میں غور وفکر کرے اور شعر اور خطبہ یادکر لے ،اور ان د ونوں کو دل ہی دل میں پڑھ لے ،زبان سے اس کا تکلم نہ کرے ،تو نماز فاسدنہیں ہوگی: فقرأ ھما بقلبہ و لم یتکلم بلسانہ ، لاتفسدصلاتہ (البحر الرائق:۲/۱۴)
Comments are closed.