۱۷/رمضان تاریخِ اسلام کا ایک سنہرا دن

ظفر امام قاسمی
17/رمضان کا دن اسلام کا ایک خاص دن ہے،اس دن کو تاریخِ اسلام کی جھرمٹ میں وہی مقام حاصل ہے جو مقام مہتابی رات میں ستاروں کے بیچ چاند کو حاصل ہوتا ہے، اس دن کا امتیاز یہ ہے کہ اسی دن کھلم کھلا اسلام کا حق ہونا اور کفر کا باطل ہونا ثابت ہوا تھا،یہ دن وہ ہے جس دن اسلام کے نہتھے ساربانوں نے باطل کے ہتھیار بند قافلے کے دانت کھٹے کر دئے تھے،ایوانِ باطل میں اسلام کے قوت شکن میزائل اسی دن داغے گئے تھے،خدائے پاک نے اس دن کو اپنے کلام مقدس میں ” یوم الفرقان “ کے نام سے یاد کیا ہے۔
آج سے ٹھیک 1441سال پہلے یعنی 2ھ کے 17/ رمضان کی صبح کا وقت تھا،اس سے ایک دن قبل ہی مشرکین اور مسلمانوں کی جماعت اپنی قوتِ بازو کے زور پر اپنی برتری ثابت کرنے اور اپنی شجاعت و بسالت پر ابدی مہر ثبت کرنے کے لئے بدر کے میدان پر خیمہ زن ہوچکے تھے،فجر کی نماز کے بعد رسول اللہ ﷺ کے جہاد کی تلقین و ترغیب سے صحابۂ کرامؓ کی جماعت صف بستہ ہوگئی،ادھر کفار مکہ بھی قطار بند ہوگئے۔
ایک طرف 313 کی مٹھی بھر جماعت تھی تو دوسری طرف ایک ہزار کی تعداد،ایک طرف پیادوں کا کارواں تھا تو دوسری طرف سواروں کا قافلہ،ایک طرف آہنی خَود اور جنگی زرہوں سے لیس بدمست سانڈ تھے تو دوسری طرف نہتھے اور فاقہ کش انسان،ایک طرف تکبر و تفاخر تھا تو دوسری طرف تخشع و تواضع،ایک طرف نام و نمود تھا تو دوسری طرف اخلاص و احسان،ایک طرف اپنے ہتھیاروں پر ناز و اذعان تھا تو دوسری طرف خدا کی ذات پر توکل و ایقان،ایک طرف ہبل کے ترانے تھے تو دوسری طرف تکبیر کے زمزمے،ایک طرف شیطان کے چیلے تھے تو دوسری طرف رحمٰن کے بندے،ایک طرف عزٰی کے شیدائی تھے تو دوسری طرف خدا کے فدائی۔
الغرض کفارِ مکہ ہر طرح کے جنگی ہتھیاروں سے لَیس اور سماں میں ارتعاش بپا کر دینے والے ہر قسم کے ساز و آہنگ سے آراستہ ہو کر میدان بدر میں فروکش ہوئے تھے،اور ادھر مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ صحیح طور سے ان کے پاس لڑنے کو ایک ہتھیار بھی میسر نہ تھا،بس لے دے کر وہی دو چار خستہ حال تلواریں اور گنتی کی چند سواریاں،مگر کفار باطل کے پروردہ تھے،کفر ان کے دلوں میں موجیں مار رہا تھا جبکہ مسلمان حق کے پرستار،اسلام کی شمعیں ان کے سینوں میں بال و پر کھلا رہی تھیں۔
جنگ کا بگل بجا،اِدھر ابوجہل کفر کے کمانڈر نے اپنے ہاتھوں کو سوئے آسمان بلند کیا اور کہنے لگا ” خدایا ہم دونوں میں سے جو حق پر ہو اس کو آج غالب اور فتحمند کیجیو“ اور اُدھر اسلام کا جرنیل محمد رسول اللہ ﷺ عریش میں جاکر سر بسجود ہوکر گڑگڑا نے لگے،آنسؤوں کی روانی میں آپ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ نکل کر بہنے لگے ”أللُھمَّ إِنْ تُھْلَکْ ہٰذِہِ الْعَصَابَۃُ لَمْ تُعْبَدْ فِی الْاَرْضِ أَبَدًا “ ( اے اللہ اگر یہ مٹھی بھر جماعت آج کفار کے کام آگئی تو پھر قیامت تک اس دھرتی پر تیرا نام کوئی بلند کرنے والا نہیں ہوگا) ادھر رسول اللہ کی زبان سے رک رک کر الفاظ پھسل رہے تھے اور ادھر اس رسول کے خدا کے لب مسکرا رہے تھے،آپ مسلسل روئے جارہے تھے اور اپنے آنسوؤں کا نذرانہ خدا کے حضور پیش کئے جا رہے تھے،مسلمانوں کی بےسروسامانی اور کفار کی فراوانی کو دیکھ کر رہ رہ کر آپ پر گریہ طاری ہورہا تھا حتی کہ آپ کی ہچکیاں اس حد تک بندھ گئیں کہ آپ کے شانۂ مبارک سے چادر سرک کر نیچے کو ڈھلک گئی،حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آکر آپ کو دلاسہ دیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ” آپ اب بس کر دیجیے،خدا آپ کو کبھی پس پا نہیں کرے گا “ ۔
اپنے رسول کی یہ زار و نزار حالت زیادہ دیر خدا سے دیکھی نہ گئی، فورا جبرئیل امین کو اپنے رسول کے پاس بھیجا کہ جاؤ اور میرے پیارے رسول سے کہہ دو کہ ” آج جیت اسی مٹھی بھر جماعت کے مقدر کر دی گئی ہے،آج کی یہ مٹھی بھر جماعت رہتی دنیا تک کی نسلوں کے لئے نمونہ بنے گی،قیامت تک آنیوالے لوگ اس کی دیدہ دلیری اور ہمت و بہادری کے قصیدے گائیں گے “ اس خوشخبری کا سننا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کا مرجھایا ہوا چہرہ گُلنار ہوگیا،آپ پُرمسکان چہرے کے ساتھ عریش سے باہر آئے اور مسلمانوں کی جیت کی خوشخبری سنائی۔
دستور کے مطابق پہلے انفرادی لڑائی ہوئی حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے اپنے مد مقابل (عتبہ اور ولید) کا کام پہلے ہی وار میں تمام کردیا،حضرت عبیدہؓ کے مد مقابل ( شیبہ) نے آپ کو زخمی کردیا،یہ دیکھتے ہوئے حضرت حیدر کرارؓ شیبہ کی طرف بڑھے اور اپنی حیدری ضرب سے شیبہ کو واصل جہنم کردیا اور حضرت عبیدہ کو اٹھا کر رسول اللہ ﷺ کے قدموں لے جا ڈالے۔
سورج رفتہ رفتہ اپنی آنکھیں کھولتے ہوئے کفر کے دیوانوں اور اسلام کے فرزانوں کی داد شجاعت اور میدانِ جنگ کے ہوش رُبا منظر کا نظارہ دیکھنے کو اوپر اٹھ آیا،چند ہی لمحے گزرے تھے کہ بدر کے میدان میں گھمسان کا رَن پڑگیا،اجتماعی مقابلے شروع ہوگئے،تلواروں سے تلواریں ٹکرانے لگیں،نیزوں سے نیزے متصادم ہونے لگے،انسانی چیخوں سے زمین دہل اٹھی،گھوڑوں کی ہنہناہٹ سے میدان لرز اٹھا، گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑتی ریت نے فضائے بسیط کو اپنی آغوش سمو لیا،چشم فلک گَرد کے پردے میں چھپ گیا۔
ابھی دوپہر بھی ڈھل نہ پائی تھی کہ نصرتِ موعود اتر آئی،مسلمانوں کے ننگے جسم آہن پوش بدن بن گئے،ان کی ٹوٹی ہوئی تلواریں صیقل ہوگئیں،کُند شمشیریں دھاردار بن گئیں،اب میدان کا منظر یہ تھا کہ اسلام کے جیالے جس طرف کو گزرتے تھے کفر کے پرستاروں کی لاشوں کے پُشتے لگاتے چلے جاتے تھے،کفار کے بدن ان کی تلواروں کے آگے گاجر مولی سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے تھے،آن کی آن میں خدائی نصرت نے طاغوتی منصوبوں پر پانی پھیر دیا،وہی کفار جو جنگ شروع ہونے سے پہلے مسلمانوں کو حقیر نگاہوں سے تاڑ رہے تھے، اور اس خوش فہمی میں مبتلا ہوکر کہ ”اس مٹھی بھر جماعت کو زیر کرنا تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے“،پھولے نہیں سمارہے تھے،حواس باختہ ہوکر جدھر کو رخ پا رہے تھے ادھر ہی پاؤں سر پر رکھ کر بھاگ کھڑے ہو رہے تھے،ابوجہل،عتبہ،شیبہ اور امیہ بن خلف سمیت سترنخوت کے پلندے کمزور اور نہتھے مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے اور ستر مسلمانوں کی گرفت میں آئے جبکہ مسلمانوں میں چودہ کے نصیبہ میں شہادت کا جام آیا۔
خدائے قادر نے اس دن دنیا والوں کو دکھادیا کہ تعداد کی قلت اور کثرت اصل چیز نہیں ہے بلکہ اصل چیز ہے خدا کی نصرت،اور یہ نصرت انہی لوگوں کے مقدر ہوتی ہے جن کے دلوں میں قندیل رہبانی اور شمع ایمانی روشن ہوتی ہے،اگر دلوں میں ایمان کی حرارت ہو تو وہ حرارت کفر کے سینکڑوں آدمیوں کو جلا کر بھسم کرنے کے لئے کافی ہے۔
آج یومِ بدر پر چودہ صدیاں بیت چکی ہیں مگر اسلام کے ان فرزندوں اور دینِ ہدی کے ان سچے جانبازوں نے اس دن جو تاریخ رقم کی تھی اس کے اَن مٹ نقوش آج بھی ہر صبح و مساء بدر کے میدان میں گونجتے ہیں،جو وہاں سے گزرتے ہر مسافر کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ارادوں کی پختگی،ہمتوں کی بلندی اور جذبوں کی پاکیزگی کبھی مات نہیں کھاتی اگرچہ ہاتھ ہتھیاروں سے خالی اور جسم اوزاروں سے عاری ہی کیوں نہ ہو۔
آج جب کہ ظلم و بربریت کا دور دورہ ہے،سفاکیت و حیوانیت کا تانڈو مچلتا پھر رہا ہے،وحشت و نفرت کا ننگا ناچ ہو رہا ہے،شقاوت و عداوت سر چڑھ کر بول رہی ہے،قومی تعصب اور نسلی برتری نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے،اسلام کو جڑ سے مٹانے کے لئے صفحۂ عالم پر پھر سے وہی خونی ڈرامے کھیلے جا رہے ہیں جو کبھی مکہ کے گلیاروں میں کھیلے جا رہے تھے،بالخصوص ہمارے ملک ہندوستان میں اسلام کے نام لیواؤں کو جبر و اکراہ کی چکیوں میں دھکیلا جا رہا ہے،نہتھے غریب مسلمانوں پر سینکڑوں ہتھیار بند بھیڑئے ٹوٹ کر زندگی سے اس کا رشتہ توڑ دے رہے ہیں،آئین و قانون سے بالا ہو کر بھگواپوش درندے مسلمان ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت و عفت کو تار تار کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہے ہیں،جنگ بدر کی اہمیت فزوں تر ہوجاتی ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان بزدلی اور کم ہمتی کی چادر سے باہر نکلیں،آپسی رسہ کشی،باہمی کھینچا تانی اور رنگ و نسل کے مصنوعی بتوں کو توڑ کر ایک لڑی میں پرو جائیں اور کفر کے ایوانوں میں کود کر ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں،اپنی قلت سے ہرگز نہ گھبرائیں اور ان کی کثرت سے کبھی خوف نہ کھائیں،بلکہ ایمان کے ان سرفروشوں کی دادہائے شجاعت سے سبق حاصل کریں کہ انہوں نے کس طرح بےسر و سامانی کی حالت میں بھی ہتھیار بند کفار کے پرخچے اڑا دئے تھے، ساتھ ہی ساتھ مسلمان اپنی نئی پود کو بھی اپنے اسلاف کی قربانیوں کے تذکرے سے روشناس کرائیں،ان کے سامنے ان کے وفاؤں کے قصوں کو دوہرائیں اور ان کی سوئی ہوئی دینی حمیت اور قومی غیرت کو بیدار کر کے ان کو دینِ حق کی نگہ داری و پاسبانی کے لئے آمادہ کریں۔
آج مسلمانوں کے پٹنے اور پسنے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنا بھروسہ خدا پر سے اٹھا لیا ہے،اپنے ماضی سے انہوں نے اپنا رشتہ کاٹ کاٹ لیا ہے،خدا کی ذات سے ان کی نگاہ پھر کر مادیت کی طرف چلی گئی ہے،جاہ و منصب، عہدہ و رتبہ اور روپیہ و پیسہ کے فولادی شکنجوں میں وہ کَس گئے ہیں،متاع دنیا اور حصول مال میں وہ اتنے محو ہوگئے ہیں کہ اسلام بس ان کی زندگی میں نام کا ہی رہ گیا ہے،کل وہ تین سو تیرہ تھے تو ان سے زمانہ لرزتا تھا اور آج کروڑوں ہو کر بھی مسلمان بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں۔
آج بھی اگر مسلمان اپنی پست ہمتی اور بزدلی کے خول سے باہر آ جائیں،تفرق و تشتت کی راہوں سے دور ہوکر توحد و تجمع کے راستے کو اپنائیں،اپنے اندر ایمانی شان اور مخلصانہ کردار پیدا کریں تو وہ دن دور نہیں کہ مسلمان کھلی آنکھوں خدائی نصرت اور غیبی مدد کا مشاہدہ کریں گے،فرشتے ان کی اعانت کو آسمان سے اتریں گے اور فتحیابی و ظفر مندی ان کا مقدر بنے گی۔۔۔۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
ظفر امام،کھجور باڑی
دارالعلوم بہادرگنج
17/رمضان 1443ھ
Comments are closed.