ظلم کی ٹہنی کبھی پھَلتی نہیں 

           لگے گی آگ تو آئیں گے گھرکئی زَد میں                یہاں صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے 

? ظفر امام

___________________________________

کَل سے لگاتار دلی کے جہانگیر پوری کی لُٹی پِٹی تصویریں دیکھ دیکھ کر آنکھیں ڈبڈبا آتی ہیں،جب جب تصویروں کے وہ مناظر ذہن کے پردے پر نمودار ہوتے ہیں تب تب دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتا ہے،آنکھوں میں آنسوؤں کا سَیل سمائے جہاں یہ تصویریں بزبان حال اپنا روح فرسا درد بیاں کر رہی ہیں،وہیں ہندوتوا اور بھگواپوشوں کے انسانیت سوز اور پُرسفاک چہروں کو بھی بے نقاب کر رہی ہیں،اور عقل و شعور رکھنے والے انسانوں کو یہ سوچنے پر بھی مجبور کر رہی ہیں کہ کیا ایک انسان جس کے خمیر میں قدرت نے ” انس“ کا خمیر رکھا ہوا ہے وہ اتنا بڑا ظالم بھی ہوسکتا ہے؟۔

پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی ہے ہمارے اس وطن عزیز کو کہ جس کی فضاؤں میں کبھی محبت کی راگنیاں بجا کرتی تھیں آج ان فضاؤں میں نفرت کی آندھیاں چل پڑی ہیں اور آندھیاں بھی ایسی کہ محبت کے نام کو بھی اب یہ مٹی ترس گئی ہے،ظلم و بربریت کے ننگے ناچ سے پوری فضا مسموم ہوگئی ہے،ہر طرف شور ہی شور،خون ہی خون ہے، اور ظلم مجنوں بنا پھر رہا ہے، لوگ پریشان حال ہیں،اپنی نسلوں کے بارے میں متفکر ہیں، لیکن یہ وحشی درندے نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں کہ وہ نہ خود محبت سے جیتے ہیں اور نہ دوسروں کو چین سے جینے دینا چاہتے ہیں۔

نہ جانے کتنا خون پسینہ بہاکر اور کتنے تنکے جوڑ کر ان غریبوں اور لاچاروں نے اپنےآشیانے بنائے تھے،کتنی جمع پونجی کرکے اپنی دوکانیں لگائی تھیں،اور نہ معلوم کتنے لوگوں کے پیٹ اور رہائش کا مسئلہ ان آشیانوں اور دوکانوں سے جڑا تھا،مگر قوتِ افراد اور طاقتِ حکومت کے نشے میں دُھت ان ظالموں نے یہ جانتے ہوئے کہ ان آشیانوں کے اجڑ جانے کے بعد یہ ننھے منے بچے،یہ بے آسرا عورتیں اور یہ بے سہارے بوڑھے بےخانما ہوجائیں گے،ان کے سروں سے چھت کا سایہ ختم ہوجائےگا،ان کے آشیانوں پر بلڈوزر چڑھا دئے، ان کی دوکانوں کو زمیں دوز کردیا،ان کی کمائی کی سبیل پر میخیں گاڑ دیں،حد تو یہ ہے کہ ان ظالموں نے خدا کے گھر کو بھی نہیں بخشا،خدا کے گھر کی دیواروں کو اس لئے منہدم کردیا کہ اس میں خدا کا نام بلند کیا جاتا ہے، قرآن پاک کی تلاوتیں کی جاتیں اور رب کے حضور سر بہ سجود ہوا جاتا ہے، وہیں انہوں نے مندر کو چھیڑا تک نہیں۔

اور یہ سب انہوں نے اس لئے کیا کہ یہ مسلمانوں کی املاک ہیں،نہ جانے کیوں مسلمان ان کی آنکھوں میں خار بن کر چبھ رہے ہیں،پتہ نہیں کیوں وہ مسلمانوں سے اتنا بیر کھائے ہوئے ہیں،لیکن کہتے ہیں نا کہ تم دوسروں کے گھروں کو اجاڑنے کی کوشش کرو گے تو وہیں تمہارے گھر بھی اجڑنے سے نہ بچ پائیں گے،دوسروں کے نشیمن جلانے کی کوشش کرو گے تو تمہارے نشیمن بھی راکھ ہوں گے،اسی جہانگیر پوری کا واقعہ ہے کہ انہوں نے اپنی برادری کی دوکانوں اور مکانوں کو بھی نہیں بخشا اور اس پر بھی بلڈوزر چڑھا دئے،ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم نے کیا خوب کہا تھا۔

لگے گی آگ تو آئیں گے کئی گھر زَد میں

یہاں صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

یہ بلڈوزر چلانے والے دنگائی وہ ہیں جو اپنے اور اپنے مذہب کو دنیا کا سب سے پوتر اور پاک مذہب سمجھتے ہیں،خود کو امن و شانتی اور محبت و الفت کا پیامبر گردانتے ہیں اور مسلمانوں کو دہشت گرد،ٹیریریسٹ اور دیش دشمن سمجھتے ہیں،مگر ان دیش بھکتوں کے کرتوت دیکھئے،سربازار کس طرح آتنک پھیلائے پھر رہے ہیں ،امن و امان اور محبت و الفت کو کس طرح نفرت کی بھٹی میں جھونک رہے ہیں، طاقت کے زعم میں چور کس طرح بے کس انسانوں کو ہراساں کر رہے ہیں،کس طرح دیش کی جائیداد کو روند رہے ہیں،اور یہ کرتے ہوئے انہیں نہ خود سے شرم آتی ہے اور نہ اپنے ماننے والے ایشور سے ان کی آنکھیں لجاتی ہیں۔

ظاہر میں تو یہ بلڈوزر مسلمانوں کی املاک پر چلایا گیا ہے، مسلمانوں کی مسجدوں کو تارگیٹ کیا گیا ہے،مگر حقیقت میں یہ بلڈوزر ہندوستان کی ڈیموکریسی پر چڑھایا گیا ہے،یہاں کی قدیم جمہوریت کو زمیں دوز کیا گیا ہے،یہاں کی گنگا جمنی تہذیب اور بھائی چارگی کو ڈھایا گیا ہے،معاف کیجیے گا میں نے گنگا جمنی تہذیب اور بھائی چارگی کے الفاظ لکھ کر شاید ان الفاظ کو شرمسار کردیا ہے،وہ تو کب کی ہی گنگ و جمن کے دھاروں میں بہہ چکی ہیں،اب یہاں وہ تہذیب اور بھائی چارگی کہاں جو پہلےکبھی ہوا کرتی تھیں،جب ایک ہی طشت میں ہندو،مسلم،سکھ اور عیسائی بیٹھ کر کھاتے تھے،ایک ہی تالاب میں سب اکٹھے نہاتے تھے،اب تو یہاں تہذیب کی جگہ دنگائیوں کی دھینگا مشتی اور بھائی چارگی کی جگہ فسادیوں کی ہاتھا پائی نے لے لی ہے۔

مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام کے ساتھ یہ دست و گریبانی کوئی نئی بات نہیں ہے،بلکہ دست و گریبانی کا یہ سلسلہ اسی وقت سے چالو ہے جب سے فاران کی چوٹی سے اسلام کی شمع روشن ہوئی ہے،اور قیامت تک یہ شرار بولہبی چراغ مصطفوی کو بجھانے کے لئے سر توڑ کوشش کرتے رہیں گے،خدائے ذوالجلال نے ابتلاء و آزمائش کو اسلام کے ماننے والوں کے مقدر کردیا کردیا ہے،ابھی کی مصیبت تو کچھ بھی نہیں،پہلے کے دور میں انبیاء کرامؑ پر ظلم کے ایسے پہاڑ توڑے جاتے تھے کہ چٹانوں سے بھی بڑھ کر مضبوط ارادے اور فولاد سے زیادہ سنگین عزائم رکھنے والے انبیاء بھی چیخ اٹھتے تھے ” متی نصرُ اللہ “ اللہ کی مدد کب آئے گی۔

ایسے وقت میں مسلمانوں کو چاہیے کہ اب زبانی جمع خرچ کو چھوڑ کر عملی طور پر اللہ کی طرف رجوع کریں،اللہ سے اپنا لو لگائیں،اور اس کے سامنے اسی طرح گڑگڑائیں جس طرح اللہ کے نبی ﷺ نے بدر کے دن گڑگڑا یا تھا، سچائی اور وفا شعاری کی راہوں کو اپنائیں،اسلام کُش ماحول سے باہر نکلیں،صبر و ضبط کا دامن تھامے رکھیں،ساتھ ہی ساتھ اپنے عزم اور اپنے ارادے بھی مضبوط کریں،ہر وقت دفاع کے لئے تیار رہیں،اور خدا پر یہ امید باندھے رکھیں کہ ایک نہ ایک دن ظلم کے یہ بادل چھٹیں گے اور ظلم کے اس اندھیارے سے ہمدردی کا ایک ایسا آفتاب طلوع ہوگا جو پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں امن و اماں،اور محبت و الفت کی کرنیں کھلائے گا،ان شاء اللہ ۔

اور نہتھے اور بے کس لوگوں پر ظلم ڈھانے والوں کو بھی سوچ لینا چاہیے کہ ” ظلم پھر ظلم ہے،بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے “ اور ”ظلم کی ٹہنی کبھی پھَلتی نہیں “ آج تمہارے ظلم کا عروج ہے،اس عروج کا مطلب ہی یہ ہے کہ اسے بہت جلد زوال ہونا ہے،خدا کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں،تم مسلمانوں سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے خدا سے دشمنی مول لے رہے ہو،جس کی طاقت کا ابھی تمہیں اندازہ نہیں،جب وہ اپنی طاقت تمہیں دکھانے پر آئے گا تو تمہیں آنیوالے لوگوں کے لئے نشانِ عبرت اور قصۂ نصیحت بنا کر چھوڑے گا،اور تمہارا وجود تختۂ دنیا سے یوں مٹ جائے گا جیسے پانی کا بُلُبلہ کچھ دیر بُھربُھرانے کے بعد ہمیشہ کے لئے پانی کی سطح بن کر نابود ہوجاتا ہے۔

 

ظفر امام،کھجور باڑی

دارالعلوم بہادرگنج

19/ رمضان ؁1443ھ

Comments are closed.