محمد ﷺ غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں

تحریر: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی
چیف ایڈیٹر: ہفت روزہ آبِ حیات بھوپال، ایم پی
رابطہ: 9826268925

انسان کی بیرونی زندگی کے احوال جو عام لوگوں کے سامنے گزرتے ہیں زندگی کے اس حصے کی معلومات وشواہد عام طور سے مل جاتے ہیں مگر انسان کے داخلی واندرونی اور گھریلو زندگی کے بارے میں عام طور سے بہت کم معلومات حاصل ہو پاتی ہیں اور صحیح معنوں میں انسان کے اخلاق عادات کی صحیح پوزیشن کا پتہ گھر کے اندورنی حالات سے ہی چلتا ہے اور گھر کے اندرونی حالات کے بارے میں صحیح معلومات گھر والوں سے ہی ہوتا ہے اور اس میں بھی انسان کی صحیح زندگی کا اندازہ کرنے کے لئے سب سے اہم کسوٹی اس کی شریک حیات ہوتی ہے۔ کیونکہ ہر آدمی اپنے گھر کی چہار دیواری میں آزاد ہوتاہے۔
ہمیں اس بابت منصفانہ غور کرنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا 55 سال سے لے کر 59 سال تک کا زمانہ ایسا گزرا ہے جس میں آپ نے متعدد نکاح فرما کر ازواج مطہرات سے حجرے آباد فرمائے اور یہ حجرے دراصل امہات اور معلمات کے تھے جہاں سے عورتوں کے متعلق شریعت کے احکام کی تبلیغ و اشاعت کا کام ہوتا تھا مثلاً حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہی احکام و مسائل اخلاق و آداب اور سیرت نبوی کے متعلق 2210 روایات مروی ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی اس داخلی زندگی کے بارے میں آپ کے منصب نبوت پر سرفراز ہونےکے بعد آپ کی شریک حیات حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا تأثر سیرت کی کتابوں میں ان الفاظ میں ملتا ہے: ” کلا واللہ ما یخزیک اللہ ابدا، انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم، وتقری الضیف، وتعین علی نوائب الحق۔
خدا کی قسم! اللہ رب العزت آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا،بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں،آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں، اور ناتواں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، آپ ناداروں کے لیے کماتے ہیں، آپ مہمان نوازی کرتے ہیں، آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، آپ لوگوں کی ان حوادث پر مدد کرتے ہیں جو حق پر ہوتے ہیں۔(صحیح بخاری) ابن جریر کی روایت میں ہے کہ حضرت خدیجہ نے فرمایا:” مااتیت فاحشۃ قط” اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی فاحشہ کے پاس پھٹکے۔”
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی معصوم زندگی قریش مکہ کے سامنے جو آپ کے سخت ترین دشمن تھے اس طرح گزری کہ پچیس سال کی عمر تک آپ نے کسی سے نکاح نہ فرمایا اور عنفوان شباب کا وہ دور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت پاکیزگی اور کمال تقوی کے ساتھ گزارا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے آپ پر جادوگر، شاعر، مجنوں اور جھوٹے ہونے کا تو الزام لگایا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معصوم زندگی پر کوئی ایسا الزام نہ لگایا جس کا تعلق نفسانی خواہشات اور جنسی بے راہ روی سے ہو،ذرا غور تو کریں کہ 25 سال سے 50 پچاس سال تک کی عمر کا زمانہ ایک ایسی عورت کے ساتھ گزارا ہے جو پہلے بھی تو شوہر کی بیوی رہ کر کئ بچوں کی ماں بن چکی ہیں، اور عمر میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے 15 سال بڑی ہیں ان کے ساتھ نہایت دلبستگی کے ساتھ زندگی بسر فرمائی ہے اور ان کی وفات کے بعد بھی ہمیشہ ان کی یادوں کو سینے سے لگا کے رکھا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نفسانی خواہشات کے لیے نکاح نہیں فرمایا آپ میں نفسانی خواہش کی کوئی بھی دلیل یا علامات نہیں پائی جاتیں خاص طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشادجوبروایت سہل بن احمد دارمی میں منقول ہے کہ مالی فی النساءمن حاجۃ”یعنی مجھے عورتوں کی کوئی حاجت نہیں اس علت کی واضح مثال ہے۔
جہالت وتعصب کے شکار وہ بد باطن اور اسلام دشمن لوگ جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کے خلاف زہر اگلتے ہیں انہیں جھوٹا الزام اور افترا پردازی کرنے سے پہلے اپنے بزرگوں اور عزیزوں کے اعتراف حقیقت پر غور کرنا چاہیے آخر ایسے لوگ انصاف پسندانہ جائزہ تو کریں کہ کتنے غیر مسلم مفکرین بلا جبر واکراہ بغیر کسی طمع ولالچ کے خود اپنی عقلوں سے حقیقت پسندی کا اظہار واعترف کیا ہے۔
اس جگہ چند غیر مسلم مفکرین کی آراء اس ارادے سے نقل کررہا ہوں تاکہ کوئ غیر مسلم یا ایسے افراد جو اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں اپنے مربی ومفکر کی اعتراف حقیقت کو پڑھ کر راہ راست پر آجا ئے۔ کیونکہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم صرف مسلمانوں کے لیے ہی نبی بناکر نہیں بھیجے گئے بلکہ آپ سارے عالم کے بسنے والوں کے لیے نبی ورسول مبعوث کے گئے تھے۔
اب ذیل میں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بعض مشہور غیر مسلموں کے اعترافات قلمبند کرتے ہیں:
یہ بات اکثر لوگوں کے علم میں ہوگی کہ1970 میں امریکہ کا مشہور قانون داں علم طبعیات کا ماہر نہایت قابل وکیل جو علم ریاضی میں بھی اپنا جواب نہیں رکھتا تھا ممتاز امریکی مصنف ڈاکٹر مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی کتاب تاریخ عالم کی سو عظیم ترین شخصیات اور ان کے کارہائے نمایاں کو یکجا کیا ہے فاضل مصنف نے ان عہد ساز شخصیات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کو سرفہرست رکھا یعنی اول نمبر پر خود عیسائی ہونے کے باوجود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تیسری بہترین شخصیت قرار دیا۔آنحضرت صلی اللہ وسلم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
"محمد صلی اللہ علیہ وسلم مسلم دنیا کی تاریخ کی وہ واحد شخصیت ہیں جو مذہبی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں کامیاب و کامران ہوئے، دنیا میں جتنے لوگوں نے انقلابی کام کیے اور کارنامے انجام دیے وہ ان کے بغیر بھی رونما ہو سکتے تھے لیکن اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو اتنا عظیم کارنامہ (ہدایت دنیا کا) کبھی انجام نہ پاتا۔”
فاضل مصنف نے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ میں مذہباً عیسائی ہوں علمی اعتبار سے ایک سائنس داں ہوں لیکن اس کے باوجود میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تاریخ کے سب سے اعلیٰ شخصیات میں پہلا درجہ عطا کرتا ہوں وہ لکھتا ہے کہ میرے اس انتخاب پر کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی سب سے زیادہ ذی اثر شخصیت ہیں بہت سے لوگوں کو تعجب ہوا ہے لیکن میں صاف اعلان کرتا ہوں کہ محمد ہی وہ ہستی ہیں جنہوں نے دنیا سے علم نہیں پایا بلکہ دنیا کو ایسا علم عطا کیا کہ اس جیسا علم نہ پہلے کسی نے عطا کیا اور نہ بعد میں کوئی عطا کرے گا۔”
کتاب کا آغاز ہی اس نے اس طرح کیا ہے
ترجمہ: یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کی ایسی بے مثال شخصیت ہیں جو مذہبی اور سیکولر دونوں سطح پر شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوئے اور اگر ان کی زندگی کی ساری تفصیلات کو اگر دیکھا جائے تو ساری دنیا ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئےہوئے نظر آتی ہے۔”
حکم چند کمار لکھتے ہیں کہ: "عالم شباب میں آپ صلی وسلم کی یہ حالت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تازہ شادی کے بعد کئی کئی روز تک گھر سے غیر حاضر رہ کر تزکیہ نفس اور ریاضت میں مشغول رہتے تھے۔ حضرت عائشہ کے سوا جتنی خواتین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں،سب کی سب بیوہ تھیں۔ ان حالات پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شادیاں نکاح کی خاطر نہ تھیں بلکہ کسی اخلاقی ذمہ داری کی ادائیگی کی خاطر تھیں۔”
ایک غیر مسلم محقق بی ایس کشالیہ ،ای لندن لکھتا ہے:” حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرت ازدواج کے متعلق بہتان باندھا گیا ہے لیکن یہ محض غلط ہے۔ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئ بیویاں کی تھیں مگر زمانے کے برے رواج کو مٹانے کے لئے اور لوگوں کو ترغیب دینے کے لئے تاکہ وہ لوگ بھی بیوہ،کنواری،باندی اور لاوارث عورتوں کو اپنے نکاح میں لائیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کی پیروی کریں۔”

سوامی برج نرائن سنیا سی بی اے: حقیقت حال کا اظہار فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "حقیقت بہرحال حقیقت ہے۔ اگر بغض وعناد کی پٹی آنکھوں سے ہٹادی جائے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا نورانی چہرہ ان تمام داغ دھبوں سے پاک صاف نظر آئے گا جو بتلائے جاتے ہیں
سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ خدا نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام کائنات کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور کائنات میں عالم انسان، عالم حیوان، عالم نباتات،اور عالم جمادات سب شامل ہیں۔(نقوش رسول صفحہ487)
کملا دیوی بی اے بمبئی لکھتی ہیں:
"اے عرب کے مہاپرش آپ وہ ہیں جن کی شکشا سے مورتی پوجا مٹ گئی اور ایشور کی بھکتی کا دھیان پیدا ہوا۔ بےشک آپ نے دھرم سیوکوں میں وہ بات پیدا کردی کہ ایک ہی سمے کے اندر جرنیل کمانڈر اور چیف جسٹس بھی تھے اور آتماکے سدھار کا کام بھی کرتے تھے۔
آپ نے عورت کی مٹی ہوئی عزت کو بچایا اور اس کے حقوق مقرر کیے۔ آپ نے اس دکھ بھری دنیا میں شانتی اور امن کا کا پرچار کیااور امیر غریب سب کو ایک سبھا میں جمع کیا۔”
(الامان دہلی17جولائی 1932)
مشہور دشمن اسلام ریمنڈ اعتراف حقیقت کرتے ہوئے لکھتا ہے:
” نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم اس معاشرہ اور بین الاقوامی انقلاب کے بانی ہیں، جس کی نظیر اس سے پہلے دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی انہوں نے ایک ایسی حکومت کی بنیاد ڈالی جسے تمام کرۂ ارض پر پھیلنا تھا اور جس میں سوائے عدل واحسان کے کسی قانون کو رائج نہیں ہونا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم مساوات باہمی تعاون اور عالمگیر اخوت پر مبنی تھی۔”
(نقوش 483/4)
پروفیسر بینوا یونیورسٹی ایڈورڈ مومنٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا ان الفاظ میں اعتراف کرتا ہے کہ!
"محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلاح اخلاق اور سوسائٹی کے متعلق جو کامیابی نصیب ہوئی اس کے اعتبار سے آپ کو انسانیت کا محسن اعظم ہونا یقین کرنا پڑتا ہے۔”

بدھ مذہب کے عظیم پیشوا مانگ تونگ کہتے ہیں:
” حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور بنی نوع انسان پر خدا کی ایک رحمت تھا۔ لوگ کتنا ہی انکار کریں، مگر آپ صلی اللہ وسلم کی اصلاحات عظیمہ سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ ہم بدھی لوگ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے محبت کرتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں۔”

مؤرخ آروینگ، لائف آف محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں لکھتے ہیں:
"نبی آخرالزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بلند ترین اخلاق کے حامل،مفکر بے مثال اور بہت ہی صاحب الرائے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو معجزا نہ ہوا کرتی تھی۔آپ بہت بڑے بزرگ اور مقدس ترین نبی تھے۔”
*گاندھی*: "وہ (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) روحانی پیشوا تھے بلکہ ان کی تعلیمات کو سب سے بہتر سمجھتا ہوں۔ کسی روحانی پیشوا نے خدا کی بادشاہت کا ایسا جامع اور مانع پیغام نہیں سنایا جیسا کہ پیغمبر اسلام نے۔”( ایمان پٹی ضلع لاہور اگست 36 19)
ڈاکٹر شیلے:
"حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم گزشتہ اور موجودہ سبھی انسانوں سے افضل اور اکمل تھے اور آئندہ ان کی مثال پیدا ہونا محال ہے۔ (نقوش رسول)

پروفیسر بارسوتھ اسمتھ اپنی کتاب میں لکھتاہے:
” میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ صفات اور تمام کارناموں پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالتا ہوں کہ آپ کیا تھے اور کیا ہو گئے آپ کے پیروکار جن میں آپ نے زندگی کی روح پھونک دی تھی ان لوگوں نے کیا کیا کارنامے دنیا کے سامنے انجام دئیے توآپ مجھے سب سے بزرگ سب سے اعلیٰ اور برتر اپنے آپ ہی دکھائی دیتے ہیں۔”
انگریز مؤرخ مسٹرٹھامس کارلائل سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم کو نبیوں کا ہیرو قرار دیتا ہےاور لکھتا ہے:
"حضور صلی اللہ علیہ وسلم بلند پایہ اخلاق پاکیزہ خیالات اور آپ مقبولیت ومحبوبیت کے نمونہ تھے کیونکہ آپ کے خیالات نہایت پاکیزہ اور نہایت اعلیٰ تھے اور آپ ایک سر گرم اور پر جوش ریفارمر تھے اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے گمراہوں کی ہدایت کے لئے مقرر فرمایا تھاآپ کا کلام خود خدائی کلام تھا آپ نے انتھک کوششوں کے ذریعہ حق کی اشاعت وتبلیغ کی اور دنیا کے گوشے گوشے میں آپ کے متبعین موجود ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب آپ کی صداقت کا نتیجہ تھا-”
مزید لکھتا ہے:
"وقت آ گیا ہےکہ ہم اسلام پر لغو الزامات لگانے سے بازآجائیں۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھنے کے لئے ہمیں اپنے تعصبات کو ترک کرنا ہو گا۔اگر کسی انسان کی پوری زندگی دیانت داری سے تعبیر کی جا سکتی ہے، تو وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں وہ جو محمد (صلی اللہ وسلم) کو طامع، لالچی، اقتدار پسند قرار دیتے ہیں،میں ان سے شدید اختلاف کرتا ہوں۔ جب دنیا جہاں کی نعمتیں اور دولت آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قدموں میں تھی، تب بھی آپ نے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ اپنی ضرورت کے لیے بھی جولیتے وہ بہت معمولی اور حقیر ہوتا،حالانکہ اس زمانے میں (اور اب بھی) حکمران ریاست کے تمام ذرائع اپنی ذات پر صرف کر دیتے ہیں۔”

مشہور مستشرق لین پول لائف آف دی پرافٹ محمد 1882میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمہ کی گواہی ان الفاظ میں دیتا ہے!
” یہ کہنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بندہ ہوس تھے۔ غلط ہے ان کی روزمرہ کی زندگی ان کا تخت، بوریا جس پر وہ سوتے تھے، ان کی معمولی غذا،کمتر سے کمتر کام اپنے ہاتھ سے انجام دینا ظاہر کرتا ہے کہ وہ نفسانی خواہشات سے بلندوبالا تھے۔ ان کی متعدد شادیاں ان بیواؤں سے ہوئیں جن کے شوہروں نے میدان جنگ میں اسلام کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں‌۔ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کشادہ دلی سے اپنی حفاظت و پناہ کا حق رکھتی تھیں۔ باقی شادیاں مصلحت کی بنا پر کی گئیں۔ سب سے پہلاثبوت ان کی پہلی بیوی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ انکی وفا شعاری ہے کہ شروع سے آخر تک اس میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا، ہلکی سی لرزش بھی نہ ہوئی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بعد اگرچہ انہوں نے متعدد شادیاں کیں لیکن انہیں کبھی نہ بھولے۔اور آخر وقت تک یاد رکھا یہ محبت بھری یاد ایک شریف الطبع انسان ہی میں ہو سکتی ہے نہ کہ ایک بندہ ہوس میں ۔”
ممتاز ہندو ادیب و سیرت نگار سوامی لکشمن پرشاد لکھتا ہے!
” تاریخی واقعات اس شاندار حقیقت پر شاہد ہے کہ سرور کائنات اور ام المؤمنین کی ازدواجی زندگی کا گلشن عدیم النظیر محبت کے سدا بہار پھولوں کی خوشبو سے ہمیشہ طبلا عطار بنا رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین خدیجہ کی حیات میں دوسرے نکاح کا نام تک نہیں لیااس پیرانہ سال عورت پر جس کا گلشن شباب پامال عمر ہو چکا تھا ہزار جان سے فریفتہ رہے۔روحانی محبت کا یہ وہ گلشن ہے جس کے پھولوں میں نفسانیت کی بو نہیں پائی جاتی۔
عورت! اس گلدستہ جمال، اس پیکر ناز وادا کی سحر خیز نگاہوں نے کتنے عابدان شب زندہ دار اور کتنے زاہدان ایمان پرست کے جامہ پرسائی کی دھجیاں اکھاڑکر رکھ دی ہیں۔ ان تجربات اورمشاہدات کی روشنی میں جب ہم مجسم استقلال و استقامت داعی حق نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں تو حق پسندی کا تقاضا ہمیں یہ کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ لاریب آپ مامور من اللہ تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ نو ر الہی سے مطلعِ انوار بنا ہوا تھا اس عقل انسانی کی بلند پروازیوں اور ادراک فلک پیمائیوں سے بھی بلند و بالاقوت جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا پیغام بصیرت افروز سنانے کے لئے نبوت کے عہدہ جلیلہ پر سرفراز فرمایا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو خواہشات سفلیہ اور جذبات نفسانیہ سے بھی پاک و صاف کر دیا تھا۔”

مشہور مستشرق لین پول لائف آف محمد میں لکھتے ہیں:
"حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے ملکوتی صفات سے نوازا تھا، آپ کی روحانی بلندی وعظمت کا کوئی حساب نہیں، اخلاق وعادات میں آپ حد درجہ سادہ تھے، البتہ اپنے معمولات میں بہت محتاط تھے، ان کا کھانا، پینا، ان کا لباس ودیگر استعمال کی چیزیں بہت ہی معمولی وسادہ تھا، آپ کے احساسات بے حد پاکیزہ تھے پردہ نشین کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ آپ شرمیلے اور باحیا تھے۔”
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں آپ کی عظمت کا یوں اعتراف کیا گیا ہےکہ! "آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر چہ امی تھے لیکن علمی ذہانت کا وافر حصہ آپ حاصل کر چکے تھے آپ کا مذہب حقیقتاً دین ابراہیم کا احیأ تھا، قانون ساز ماہر حرب منتظم اور جج آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو تھے،اس خوفناک قبائلی تعصب کا خاتمہ کرنا جس کی بنا پر ایک خون، طویل جنگوں کا باعث بن جاتا تھا، عورتوں کو ان کے حقوق خاص کر وراثت میں حصہ دلانا اور دختر کشی کا خاتمہ آپ کی عظیم اصلاحات ہیں-"

Comments are closed.