Baseerat Online News Portal

ملک ہندمیں خواتین کی حالتِ زار، فرانسیسی محقق ڈاکٹرگستاؤلی بان کی زبانی

مفتی محمداشرف قاسمی مہدپور،اُجین،ایم پی 

ہندوستانی معاشرے میں توعورتوں کی حالت زار ناقا بل بیان رہی ہے ۔ایک طرف یہاں شوہر کی موت کے بعد عورت کو اپنے شوہر کی چتا کے ساتھ زندہ جل کر مرنے کے لیے مجبور کیا جاتا رہاہے ، تعلیم سے انھیں محروم رکھاجاتا،وراثت میں ان کا کو ئی حصہ نہیں تھا، دختر کشی، نوعمری کی شادی ، کثرت البعول و کثرت ازواج وغیرہ رسومات کومعاشرہ میں کافی گہرائی تک نفوذ حاصل رہا ہے ۔اسی کےسا تھ دوسری طرف عورتوں کو اس قدر مقدس وافضل سمجھا گیا کہ انھیں قابل پرستش قراردے کر معاشرے وسماج سے جدا کرنے کا مذہبی تصور موجود رہاہے ۔
فرانسیسی محقق ڈاکٹر گستاؤلی بان نے ایک ہندوستانی قوم ’’ٹوڈون‘‘ کی رسم شادی کا تذکرہ کرتے ہو ئے تحریر کیا ہے کہ اس قوم کی شادیاں بڑی سادہ ہو تی ہیں ۔ لیکن لڑکی اسی وقت بیوی مانی جاتی ہے جب وہ سات ما ہ کی حاملہ ہو جائے۔ اس وقت میاں بیوی جنگل میں جا کر ایک درخت کےنیچے ولادت کراتے ہیں ، اور بچے کی پیدائش کےبعد شوہر درخت کا پتہ توڑتا ہے اور اس کو ایک دونہ بنا کر اس میں پانی ملا کر اس سے اپنی زبان کو تر کرتے ہیں ۔ اور پھر خاندانی سلسلہ شروع ہوتا ہے۔اسی سلسلے روایت کوبیان کرتے ہوئے لڑکی والوں کی اہانت وتذلیل اورلڑکی کی خرید وفروخت کی یہ تفصیل پیش کی ہے کہ شادی کے لیے جب کوئی لڑکا کسی لڑکی کو پسند کرتا ہے تو لڑکی کا باپ داماد کے پیرکو اپنے سر پر رکھتا ہے اوراسی وقت لڑکی سنواری جاتی ہے اور پھر لڑکی شوہر کے کے پیر پر گرتی ہے۔ لکھتے ہیں :
’’ جس وقت کسی نوجوان نے اپنی ذات کی کوئی لڑکی پسند کرلی تو وہ لڑکی کے باپ کو اس کی ایک قیمت دیتا ہے اور اور باپ داماد کے پیر کو اپنے سر پر رکھ لیتا ہے۔ س کے بعد لڑکی سنواری جاتی ہے اور باجے کے ساتھ دولہ کے گھر آ تی ہے۔ اُس وقت وہ دولہ کے قدموں پر گرتی ہے اور دولہ اپناپاؤں اِ س کے سر پر رکھتا ہے ور اسی طرح اس کے ماں باپ بھی بیٹی کے سرپر پیر رکھتے ہیں۔بعد اس کے دولہن سے پانی کا گھڑا اُٹھوایا جاتا ہے اور وہ اس دن سے گویا اس گھر کی باندی بن جاتی ہے۔ لیکن یہ شادی ناتمام ہے، اس کی تکمیل اُسی وقت ہوجاتی ہے جب عورت کوساتواں مہینہ لگے۔‘‘
(تمدن ہند،ص113؍ڈاکٹرگستاؤلی بان،اردو ترجمہ، ازمولوی سیدعلی بلگرامی۔مطبع شمسی آ گرہ،1913ء)
اس کے علاوہ ایک عورت کے کئی کئی شوہر ہو سکتے ہیں، تمام سگی بہنوں کو ایک ہی آ دمی قیمت دے کر اپنی بیوی بنا سکتاہے۔ اوران سب کی قیمت کی وہی ہو تی ہے جو پہلی بیوی کے لیے دیی گئ ہے۔ ڈاکٹرگستاؤلی بان لکھتے ہیں :
’’ ٹوڈون میں کثرت البعول اورکثرت الا زواج کی رسمیں ساتھ ہی ساتھ موجود ہیں ۔ لیکن اس طورپر ایک خاندان کے سب بھائی دوسرے خاندان کی کُل بہنوں سے شادی کر لیتے ہیں۔ اور ہر مرد کی کئی ازواج ہیں،جوآ پس میں بہنیں ہیں ، جب کوئی نوجوان شادی کرتا ہے تو وہ نہ صرف اپنی بی بی ہی سے شادی کرتا ہے بلکہ اپنی بی بی کی کل بہنوں سے بھی شادی کرتا ہے۔ یہ جیوں جیوں بلوغ کو پہنچتی ہیں اس کی ملک ہو تی جاتی ہیں اوروہ ان میں سے ہر ایک کے لیے وہی قیمت دیتاہے جوبڑی بہن کے لیے مقرر ہوئی تھی۔ اس طرح سب اس کے حقیقی بھائی اس کی بیبیوں میں شریک ہیں ۔ اور مقررہ قیمت دینے میں اس کی مدد کرتے ہیں‘‘
(تمدن ہند،ص112؍ ڈاکٹرگستاؤلی بان،اردو ترجمہ، ازمولوی سید علی بلگرامی۔مطبع شمسی آ گرہ، 1993ء)
معاملہ یہی نہیں رکتا ہے بلکہ مشترکہ عورت سے پیدا ہونے والے بچوں کو بھیڑ بکری کی طرح باہم تقسیم کیاجاتا ہے۔ اس تقسیم کی صورت کو بیان کرتے ہوئے گستاؤلی بان لکھتے ہیں :
’’ بچے اپنی عمروں کے لحاظ سے مختلف شوہروں میں تقسیم ہوجاتے ہیں،بڑا بچہ تو اصلی شوہر کا ہوتاہے اوراس کے بعد کا بچہ سب سے بڑے چچا کا اور علی ہذا القیاس۔ اور ان میں وہ اشخاص جو خوش حال ہیں اور ایک بی بی کی پوری قیمت دے سکتے ہیں وہ اپنی بی بی پر پورا قبضہ بلا شرکت غیرے رکھتے ہیں اور کثرت البعول کی رسم کونیچے طبقات کے لیے چھوڑ دیتے ہیں ۔‘‘
(تمدن ہند،ص112؍ گستاؤلی بان، اردو ترجمہ، ازمولوی سید علی بلگرامی۔ مطبع شمسی آ گرہ، 1913ء)
آ ریہ قوم میں خوا تین کی حالا ت تحریر کرتے ہیں :
ابتدائی دور میں آ ریہ سماج میں خواتین کو عزت کے ساتھ یا کیا جاتا ہے۔ اسی لیے شادی کے سلسلے میں لڑکی کی رائے کو فوقیت اور اہمیت حاصل تھی اس کی مرضی ، مزاج ومذاق کے خلاف شادی کا رواج نہیں تھا۔ چنانچہ اس کی شادی کے سلسلے میں جب متعدد نوجوان امید اور ہوتے توشوہر کی خو بی ولیاقت بتا نے کے لیے ان میں شمشیر زنی، نیزہ بازی ، گھوڑ سواری، کشتی وغیر ہ کا مقابلہ کرایاجاتا جو غالب اور فاتح ہوتا اسے لائق مند اور قابل خیال کیا جاتا ۔ لیکن اس کے باوجود ایسا نہیں تھا گھر والے یا کوئی بھی لڑکی پر اصرار کرے ک وہ فاتح کے ساتھ ہی شادی کرے ، بلکہ لڑکی کو اختیار ہوتا تھا اگر وہ چاہتی تو مفتوح سے بھی شادی کرسکتی تھی۔گستاولی بان کہتے ہیں :
’’ لڑکیوں کو اپنے شوہروں کے انتخاب میں پوری آزادی تھی اور جب کبھی کئی مرد ایک عورت کے لیے میدان میںمقابلہ پر آ مادہ ہوتے توجنگ کے لیے لڑکی کی اجازت ضروری ہوتی اور وہ ہرگز مجبور نہ ہو تی کہ خواہ مخواہ شخص غالب ہی کے سا تھ شادی کرے۔‘‘
تمدن ہند،ص191؍ گستاؤلی بان، اردو ترجمہ، از مولوی سید علی بلگرامی۔ مطبع شمسی آ گرہ، 1913ء)
اسی طرح آبا واجداد کی پوجا میں مان کو بھی شریک کرنے کا رواج تھا، جس سے معلوم ہو تاہے کہ اس قوم میں عورت کو مرد کے مساوی ہونے کا تصور موجودتھا۔ گستاولی بان لکھتے ہیں :
’’ خیال کیاجاتا ہے کہ اُس زمانے میں عورت کی حیثیت مساوات کی تھی، جس طرح ویدوں می عورت کا ذکر ہوا ہے ، خوا ہ بحیثیت لڑکی کے یا بحیثیت منسوبہ،یا بی بی یامان کے ، اس سے صاف ظا ہر ہے کہ اس وقت عورت ایسی ذلیل اور بد نہیں سمجھی جا تی تھی جیسی منو شاستر میں دکھائی گئی ہے۔ ‘‘
(تمدن ہند،ص190؍ گستاؤلی بان، اردو ترجمہ، از مولوی سید علی بلگرامی۔ مطبع شمسی آ گرہ، 1913ء)
دور قدیم میں آ ریہ قوم میں کثرت ازدواج کے بجائے یک زوجگی کا رواج تھا، بعد میں ان لوگوں نے دوسری اور پھر کئی ایک شادیاں کرنا شروع کردیں جن کے پہلی بیوی سے اولاد ذکور نہیں پیدا ہوئے تھے ، اور اولا د ذکور کے لیے ایک کے بعد ایک کئی شادیاں کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی دور میں آ ریہ قوم میں خوا تین کو اگر عزت وکرامت حاصل تھے لیکن اس وقت بھی لڑکیوں کی بہ نسبت لڑکوں کو فوقیت حاصل تھی۔ آ گے چل کریہی تصور تعدد ازدواج اور پھر خواتین کے استخفاف وتذلیل کا باعث بن گئی ۔چنانچہ یہی نہیں تدریجی طور پر عورت پر مرد معاشرے کو فوقیت حاصل ہوگئی اور فوقیت اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ گویاگھر یامعاشرہ کے اصلاح وقیام میں خوا تین کا کوئی کردار ہی نہ ہو۔ گستاولی تحریر کرتے ہیں :
’’ بلا بیٹا چھوڑے ہوئے مرجانا بھی نہایت درد ناک نتائج پیدا کرتا تھا، بیٹے سے آ با واجداد ک ارواح کی حیات جاودانی ملتی ہے ۔ کیونکہ وہ ان کی پرستش کرتا اور نھیں چڑھاوا چڑھاتا ہے،۔۔۔ لڑکیاں تو شادی کے ساتھ ہی دوسرے خاندان کے دیوتاؤں کی پرستش کرنے لگتی ہیں اور جن پرکھوں ک ووہ مانتی ہیں وہ ان کے شوہروں کے پرکھے ہوتے ہیں اورباب کے خاندان کے قیام پر ان کاکو ئی اثر نہیں پڑتا ۔ پس جو شخص بغیر بیٹا چھوٹڑے مرجائے ، ہمیشہ کے لیے مرجاتا ہے اور نہ صرف وہ خود حیات جاودانی کو کھودیتا ہے بلکہ اپنے ساتھ اپنے پرکھوں کے دور دراز سلسلہ کو بھی لے مرتا ہے۔‘‘
(تمدن ہند،ص188؍ گستاؤلی بان، اردو ترجمہ، از مولوی سید علی بلگرامی۔ مطبع شمسی آ گرہ، 1913ء)
اوربا پ کو خاندان کا سردار اورسلطان وحاکم تسلیم کیاجاتا تھا۔
برہمنیت تمدن میں عورت
آریہ دور کے بر خلاف برہمنی دور میں خواتین کی عزت وعزمت سب گھٹ گئیں اور اس کا وقار پور طرح مجروح ہوگیا۔ عورت اتنی ذلیل ہو گئی کہ ملک خانہ کے ساتھ ہی چروہا کے ساتھ رشتہ زوجیت میں شریک قرار دی گئی۔ منو کے حوالے سے گستاولی با ن نقل کرتے ہیں:
’’ عورتوں کو وجود صرف اس لیے ہے کہ بچے دین ، ان کی پرور ش کریں اور ہر خانہ داری کے کام میں مصروف رہیں۔ ( منو شاستر، نوان باب ص 24؍)‘‘
(تمدن ہند،ص234؍؍ گستاؤلی بان، اردو ترجمہ، از مولوی سید علی بلگرامی۔ مطبع شمسی آ گرہ، 1913ء،منو شاستر، نواں باب ص 27؍)
دوسری جگہ منوشاستر کے حوالہ سے لکھتے ہیں :
’’ اگرچہ شوہر بدچلن اور اوصاف حمیدہ سے خالی ہو اور عیاش ہو ،تاہم زوجہ کو چاہئے کہ دیوتا کہ طرح اس کی پرستش کرے ۔ جو زوجہ شوہر کے فرائض کو پورا نہ کرے وہ مرنے کے بعد رسو ہوگی اور گیڈر کے پیٹ میں جنم لے گی۔ اس گناہ کی پاداش میں وہ انواع اقسام کے امراض میں مبتلاء ہو گی۔( منو شاستر ،پانچواں باب 154؍اور164؍)‘‘
(تمدن ہند،ص235؍ گستاؤلی بان، اردو ترجمہ، از مولوی سید علی بلگرامی۔ مطبع شمسی آ گرہ، 1913ء، منو شاستر ،پانچواں باب 154 ؍ اور164؍)
منو میں سخت ترین تین سزاؤں کے قوانین ہیں۔ خوا تین کے سلسلے میں درج ذیل سزا قابل ذکر ہیں:
’’اگرکوئی بی بی جو اعلی خاندان کی ہے اپنے شوہر سے دغاکرے تو باد شاہ اسے عام مقام پر کتوں توڑ وا ڈالے گا۔ اور جس مرد نے اسے خراب کیا وہ سلگتے ہوئے لوہے کے بسترپر لٹایا جائے گا۔اور اس کے نیچے آ گ سلگائی جائے گی یہاں تک کہ وہ جل کر خاک ہوجائے۔(منو شاستر آ ٹھواں باب، ص371،و372؍)
(تمدن ہند،235؍ گستاؤلی بان، اردو ترجمہ، ازمولوی سید علی بلگرامی۔ مطبع شمسی آ گرہ، 1913ء، منو شاستر ،پانچواں باب 371 ؍ اور372؍)

شوہرکے فرائض میں اپنی بیوی کو خوش رکھنے کے ساتھ تین بانوں کی بنیاد پر اوہ اسے رزتہ زوجیت سے جدا کرسکتا ہے ۔ پہلا یہ کہ اسے اپنی بیوی سے نفرت ہوجائے۔ دوسرا یہ کہ عورت بانجھ ہو تیسرا یہ کہ عورت صرف لڑکی ہی جنے۔ اس اختیار میں بھی خواتین کے ساتھ انصاف وانسانیت سے مغائر ہدایت دی گئی ہے۔
البتہ ماں ہو نے کی صورت میں باپ کے ساتھ ماں کی عزت کا حکم دیا گیا ، نیز شادی کے کے موقع پر شودرباپ کو اس بات سے منع کیا گیاکہ اپنی بیٹی کو کسی شخص کےسا تھ رشتہ زوجیت میں منسلک کرتے وقت اپنے داماد یا سمدھی سے بیٹی کی قیمت وصو ل کرے۔( منو شاسترنواں باب ص89؍)
ڈاکٹرگستاولی بان لکھا ہے کہ بیواؤں کو اپنے شوہروں کے ساتھ جلانے کا ذکر منو شاتروں میں نہیں ہے ۔ لیکن معلوم ہو تا ہے کہ یہ رسم ہندوستان میں عام ہو چلی تھی۔ یونانی مؤرخین اس کا ذکر کیا ہے۔ ستی کی رسم کا اصل محرک خواتین کے ساتھ نہ قابل برداشت مظالم اور غیر انسانی اخلاق ہیں۔ ڈاکٹر گستاولی بان اس قسم کے روح فر سا احوال ذکر کرکے بعد کہتے ہیں کہ ستی کا اصل محرک یہی مظالم ہیں ، کیوں کہ اگر ستی کی رسم نہ ہوتوبھی حالات تند وتیز ہواؤں سے متاثر ہو کرخواتین خود کشی کرنے مجبور ہوتی تھیں، ستی نے انھیں ایک راستہ فراہم کردیا، اور خواتین کے سا تھ غیر انسانی سلوک روارکھنے والوں کو اس میں اپنے بہیمیت کی تسکین کاسامان فراہم ہوا اس لیے انھوںنے بھی اس کوخوب بڑھاوادیا۔ عورتوں کی حالت زار کو ڈاکٹر گستاولی بان لکھتے ہیں:
’’ ہندو عورت بالکل جاہل ہوتی ہے، اور ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا جاہل رہنا بہتر ہے ورنہ اس کی عزت میں فرق آئے گا، تعلیم پانا یا مرد کی برابری کر نا ارباب نشاط کی تقلید ہے۔۔۔۔ بچوں کی منگنی گہوارے ہی کردی جاتی ہے اور عموما بارہویں یاتیرہویں برس میں لڑکیا بیاہ دی جاتی ہیں، ہندو عورت کے لیے شادی کے سوا کو ئی دوسر ی زندگی نہیں ہے۔پیدا ہونے کے ساتھ ہی ماں باپ ان کے شوہر تجویز کر دیتے ہیں۔اب گویا وہ اس کی شخص کی ملک ہو گئی،خوا ہ وہ شوہ ربد شکل ہو ، ظالم ہو ، بے رحم ہو، اس بے چاری کی شادی اسی کے سا تھ ہو گی اور اگر نہ ہوئی تو وہ کہیں کی نہ رہے گی، کیوں کہ بن بیاہی عورتو اور بیواؤں کا ہندومعاشرت میں مطلق کوئی حصہ نہیں ہے، اور بیواؤں میں بہت سی ایسی کنواری لڑکیاں شامل ہیں جن کے منگے ہوئے شوہر ان کے بچپن ہی میں مر گئے ہیں ، لڑکی کے لیے اس سے زیادہ کوئی بدنصیبی نہیں ہو سکتی اور اس کا درجہ پاریوں سے بھی گھٹ جاتا ہے، مسٹر ملا باری لکھتے ہیں:ہندو کا مرنا اس کی زوجہ کے لیے ایک ایسی مصیبت ہے جو ہر روز بڑھتی جاتی ہے، وہ کبھی سر نہیں اٹھا سکتی ۔ اورمرتے دم تک یہ مصیبت اس کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کاشمار انسانوں میں نہیں رہتا ہے او سکی نظر منحوس سمجھی جاتی ہے اور جس چیز کو وہ ہاتھ لگاتی ہے نجس ہوجا تی ہے۔ ذلیل وخوار زندگی اس کو وبال ہو جاتی ہے، اسے کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے خیال کو ناپاک کرے یا ایک مصیبت اور تنہائی کی زندگی کو بسر کرے۔‘‘
(تمدن ہند،ص470؍ گستاؤلی بان، اردو ترجمہ، از مولوی سید علی بلگرامی۔ مطبع شمسی آ گرہ، 1913ء)
اس تقریر کے بعد ڈاکٹرگستاولی بان کہتے ہیں کہ اب سمجھ میں آ گیا بیوہ عورت کیوں شوق کے ساتھ اپنے شوہر کی چتا پر جل کر مرنے کے لیے تیارہوجا تی ہے؟ کیوں کہ زندگی کی صورت میں ذلت ورسوائی سے بچنے کا ایک اچھا راستہ اس سجھتی ہیں ۔ اس لیے خواتین یہی نہیں اس رسم کو با قی رکھنے میں اپنی عافیت سمجھتی ہیں بلکہ انگریزی حکومت کی طرف سے اس رسم کو موقوف کرنے کا حکم جاری ہوا تو ایک مدت تک خفیہ طور پر اپنے شوہروں کی چتاؤں پر جل کر خواتین اپنی جانیں گنواتی رہیں اور نیپال میں خواتین کی مزاحمت واحتجاج کی وجہ سے انگریزی سرکا ر کورسم رستی کو ختم کرنے میں
کامیا بی نہیں مل سکی۔ اس رسم کے اجراء واستمرار کے سلسلے میں ڈاکٹر گستاؤلی بان لکھتے ہیں :
’’ مذہبی اعتقادات جو صدیوں سے جال ہل اقوام کی فطرتوں میں مستحکم ہو گئے ہیں ، اور وہ مصیبت جس کا سامنا ملک ملک رسم کی وجہ سے ہر بیوہ کو کرنا پڑتا ہے ، ستی کے اصلی اسباب ہیں ۔ مذہب ہی وہ چیز ہے جو انسان سے اس قسم کےمعجزے کراتا ہے ۔۔۔۔یہ نہیں پتہ لگتا کہ ستی کی رسم کس زمانے سے جاری ہے ۔۔۔ اگر چہ بہت دنوں بعد برہمنوں نے وید کی ایک ’رچا‘ کے غلط معنی لگاکر اس رسم کی قدامت ثابت کی ہے۔‘‘(تمدن ہند،ص471؍ گستاؤلی بان، اردو ترجمہ، از مولوی سید علی بلگرامی۔ مطبع شمسی آ گرہ، 1913ء)
اسی معاشرے میں تعدد ازدواج بھی عام تھی، جس میں کمزور برادریوں اور مزدوروں کی بیٹیا رئیسوں کےگھروں میں بیوی بنا اوربتا کرعیاشی کے لیے داخل کی جاتی رہیں اور کمزور طبقات اپنی کمزوری میں اس قسم کے رشتوں کو بڑا سہارخیال کرکے اپنی بیٹیوں ور بہنوں کی شادیاں کئی کئی بیویوں کے مالک رئیس وزمینداروں سے کرنے میں عافیت محسوس کرتے رہے ۔ ڈاکٹر گستاؤلی بان جس معاشرے میں عورتوں کی اس قسم کی حالت زار کی باتیں بیان کررہے ہیں اس وقت بے اولاد عورتوں کی کو ئی عزت نہ تھی ۔ اس معاشرے میں عورت کو نہ میراث میں حصہ ملتا تھا اور نہ تعلیم کا حق تھا۔
اسلام نے ورتوں کو معاشرے باعزت حصہ بنا یا اور یہ حکم دیا کہ اگر ان کی کمزوری تمہیں نظر ائے تو بھی ان کے ساتھ بہتر زندگی گزارو۔ ( سورہ نساء، آیت نمبر19)
ملک میں اولا مسلم سلاطین نے خواتین پر ہونے والے مظالم کو روکنے کی حتی المقدور سعی کی۔ جنوبی ہندمیں خواتین کو پستان ڈھکنے کا حق نہیں تھا۔ اگر کوئی خاتون اپنے پستان ڈھکنے کی کوشش کرتی تو اسے پستان ڈھکنے کا ٹیکس دینا ہوتا تھا۔ وہاں حضرت سلطان ٹیپو شہد نے بڑی اہم کامیابی حاصل کی۔
ملک کے مختلف حصوں جاری رسم ستی کو حضرت اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے روکنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی۔ اسلامی تعلیمات کے زیر اثرخو اتین کو ماں ،باب بھائی، بیٹا،شوہر وغیرہ کی وراثت میں حصے کی حقدار ٹھہریں۔ بیوہ ہوجانے کے بعد نکاح ثانی کے لیے آزاد قرار دی گئیں۔ مطلقہ کی خدمت وپرورش کو رواج ملا۔
آخر میں انگریزوں نے بڑی قوت اور شدت کے ساتھ ستی وغیرہ رسومات کو موقف کرایا۔ ان پہلووں پر کسی دوسرے موقع پر میں لکھوں گا۔ ان شاءاللہ
یہاں اتنا بتانا ضروری ہے کہ اسلام،مسلمان اورمسلم حکمرانوں سے اس ملک میں ایک خاص طبقے کو صرف اس لیے عداوت ہے کہ اسلام، مسلمان، اور گزرے ہوئے مسلم حکمراں ان کے ظالمانہ عزائم میں ہمیشہ مزاحم رہے ہیں۔ اوران کی طرف سے صدیوں سے خواتین و کمزور طبقات پر ہونے والے مظالم کو اسلام، مسلمان اور مسلم حکمرانوں نے موقوف کردیا۔
کتبہ:محمداشرف قاسمی
20رمضان المبارک1443ھ،
مطابق 22اپریل2022ء۔
[email protected]

Comments are closed.