Baseerat Online News Portal

بعض اُردوتفاسیرپرمفتی محمداشرف صاحب قاسمی کاتبصرہ( قسط16)

پیشکش:مولانا محمد فاروق قاسمی

مدرس:جامعہ اصحاب صفہ،مکسی،ضلع: شاجاپور،ایم پی۔

بیان القرآن
میں نے بچپن میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی بعض تحریروں میں پڑھا تھا کہ:
’’ عام لوگوں کو بغیر علماء کی نگرانی کے ترجمہ قرآن نہیں پڑھناچاہئے۔‘‘

حضرت نے اپنے اس خیال پرمعقول دلائل بھی پیش فرما ئے ہیں ۔
جب کہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ نے عام مسلمانوں کوقرآن مجید ترجمہ کے سا تھ پڑھنے وپڑھانے اور سننے وسنانے کی تحریک شروع کرنے کاارادہ ظاہرفرمایاتھا۔
مجھے اپنے پچپن میں حضرت حکیم الا مت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ اگرعام لوگ ترجمۂ قرآن مجید نہیں پڑھ سکتے ہیں۔ توپھراُردو تراجم کیوں لکھے گئے؟ کیوں کہ علماء کو ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے وہ توبغیرترجمہ کے قرآن مجید کو سمجھتے ہیں ، اور پھراہل عرب میں غیرعلماء تو براہ راست قرآن کے معانی ومفاہیم کوکسی قدر سمجھتے ہیں ۔اگر عام لوگوں کو ترجمہ قرآن پڑھنا مناسب نہیں ہے توغیر عالم اہل عرب کی تلاوت پر بھی اشکال ہو گا؟
لیکن حضرت کی تفسیر’’ بیان القرآن ‘‘کا مطالعہ کرنے کے بعد احساس ہوا کہ حضرت نے اپنے ترجمہ اور تفسیر کی جامعیت کی وجہ سے ایسا خیال ظاہرفرمایا ۔ کیوں کہ آپ کا ترجمہ اگر چہ اُس زمانہ کے لحاظ سے سلیس ہے ، لیکن نصوص ،احادیث نبویہ یافقہی تصریحات وغیرہ کی رعایت میں مضاف یا مضاف الیہ ،دیگربین القوسین عبارتوں کا اضافہ وغیرہ جس انداز میں فرمایا ہے اسے سمجھنا عام مسلمان کے لیے مشکل ہے۔ جب کہ
فضلائے مدارس کواس ترجمہ و تفسیر کے مطالعہ کے دوران جلالین وبیضاوی جیسی جامعیت کا احساس ہوتا ہے۔ یعنی حضرت کے ترجمہ وتفسیر سے استفادہ کرنا عام مسلمان کے لیے دشوار ہے،اس لیے حضرت نے باربار تراجم قرآن پڑھنے کے لیے علماء کی نگرانی کولازم قرار دیا ہے۔
میرے خیال میں اُردو تراجم وتفاسیر میں سب سے زیادہ جامع اور مفیدتفسیر ’’بیان القرآن‘‘ ہے۔
کسی عالم نے’’آسان بیان القرآن ‘‘ کے نام سے اس کی تسہیل کی کوشش کی ہے ۔ اس تسہیل میں یہی نہیں کی تفسیر کی روح نکل گئی ہے بلکہ دوسرے لفظوں سے بعض جملوں کی ترجمانی اس طورپر کی گئی ہے کہ اصل لفظ وجملے کے معنی ومصداق کچھ سے کچھ ہو گئے ہیں، گویا یہ کام غیر شعوری طورپر سہی؛ تسہیل کے بجائے تحریف کے مترادف بن گیا۔
جاری۔۔۔۔۔

Comments are closed.