Baseerat Online News Portal

بعض اُردوتفاسیرپرمفتی محمداشرف صاحب قاسمی کاتبصرہ ( قسط 20)

پیشکش:ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی

آلوٹ،رتلام،ایم پی

 توضیح القرآن( ہندی )

ہمارے بعض رفقاء حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب (حفظہ اللہ من شرورالمشرکین والکفار) کی رہنمائی میں غیروں میں دعوت کا کام کرتے تھے،(جو کہ فی الحال بالکل موقوف ہے،انا للہ واناالیہ راجعون)۔اُس وقت کبھی کبھی مجھے بھی کسی محروم الا یمان سے دعوتی موضوع پربات کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔ میں انھیں ہندی میں ترجمہ وتفسیرقرآن بطورِتحفہ دینے کے لیے اپنے بزرگوں کی طرف دیکھتا تو اپنے بزرگوں کاکوئی ہندی ترجمہ مجھے نظرنہیں آتا۔اس لیے ’’جناب محمد فاروق خاں صاحب‘‘ کاہندی ترجمہ انھیں دستیاب کراتا۔
اسی تلاش وجستجو کے دوران کسی نے ہندی میں
مجھےحضرت مفتی محمد تقی صاحب عثمانی دامت برکاتہم کی تفسیر’’ توضیح القرآن‘‘ لاکر دی، جس کی ابتداء میں صراحت تھی کہ: اس کو ہندی میں شائع کرنے کے لیے حضرت مفتی  صاحب سے اجازت مانگی گئی توحضرت نے اُردو ہی ترجمہ کوہندی رسم الخط میں تبدیل کرکے شائع کرنے کی اجازت دی ہے۔اس وجہ سے رسم الخط کی تبدیلی کے ساتھ اردو زبان ہی میں وہ شائع کی گئی۔ ناشر نے آ خرمیں اردو الفاظ کے ہندی معانی کی فہرست بھی شائع کی ۔
میرے خیال سے اس طرح اس کی طباعت پر صرف روپیہ ضائع کرناہے ، کیونکہ جو لوگ اردو جانتے ہیں وہ ہندی کا مطالعہ نہیں کرتے ہیں ، اورجو ہندی جانتے ہیں وہ ہندی رسم الخط میں اردو پڑھ کر کتاب ہی سے متنفر ہوجاتے ہیں۔
اس کی ایک مثال ذیل میں لکھنا مناسب سمجھتا ہوں :
ایک بار اپنے گاؤں جانے کے لیے میں اُجین سے ٹرین میں سوارہوا، اتفاق کی بات یہ کہ اس کوچ میں تمام کی تمام سیٹوں پرغیرمسلم ہی تھے جو’’ مہاکال مندر ‘‘میں پوجا پاٹ اوردرشن (زیارت) کے بعد واپس ہو رہے تھے۔ میرے پاس میری کتاب’’ شادی اورشریعت ‘‘(ہندی )کی کئی کاپیاں تھیں اور اسی کے ساتھ خالص ہندی مترجم’’ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ تھی۔ پہلی کتاب کے آ خرمیں کچھ علاج اور طبی رہنمائی بھی میں نے لکھ رکھاتھا ، اس لیے راغب کرنے لیے علاج طبی رہنمائی کے بہانے اپنی کتاب آمنے سامنے لوگوں کو بطورتحفہ دی۔ تھوڑے سے وقفہ کے بعد غیرمسلم رفقائے سفر کے چہروں سے محسوس ہوا کہ وہ اُکتا رہے ہیں۔ پھر میں نے کہا کہ یہ کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوامیں ‘‘ شدھ(خالص) ہندی میں ہے۔کچھ لوگوں کو میں نے اس کی کاپیاں دیں۔ میں اولاً ڈر رہا تھا کہ کہیں یہ لوگ ناراض نہ ہوجائیں؛ لیکن ایسا نہیں ہوا؛ بلکہ اس کی خالص ہندی زبان اور تعلیمات سے لوگ کافی متاثر ہوئے،دوسرے لوگوں نے بھی مانگنا شروع کردیا،اوراس کی تمام کاپیاں میرے پاس سے ختم ہوجانے کے بعد مطالعہ کے لیےمطالعہ کے بعدوہ ایک دوسرے کو منتقل کرنے کا وعدہ کرنے لگے۔ اور میری پہلی کتاب چھوڑ کر اسی کے مطالعہ میں سب مصروف ہو گئے۔ اس کتاب کی تقسیم کامادی فائدہ یہ ہواکہ تمام غیرمسلم رفقائے سفرنے پورے سفر میں میراکافی اکرام کیا۔
اس لیے رسم الخط تبدیل کرکے ہندی میں حضرت کی تفسیرکی اشاعت کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔کچھ دنوں تک میرے پاس ہندی کتابت والی تفسیر’’ توضیح القرآن ‘‘کا یہ نسخہ رکھا رہا ، لیکن اس کو دیکھنے کے لیے طبیعت راغب نہیں ہوتی تھی، کیوں کہ ہندی رسم الخط میں اردو زبان کی قرأت(Reading) بہت بھاری محسوس ہوتی تھی۔ پھرنامعلوم کہاں میں نے اسے رکھوا دیا۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.