Baseerat Online News Portal

بعض اُردوتفاسیرپرمفتی محمداشرف صاحب قاسمی کاتبصرہ ( قسط.21)

پیشکش:ڈاکٹرمحمد اسرائیل قاسمی

آلوٹ،رتلام،ایم پی

آسان تفسیرقرآن

فقیہ العصرحضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے خوردنوازی کا معاملہ فرماتے ہوئے اپنی یہ مبارک تفسیر بندہ کوبطور تحفہ عنایت فرمائی ہے جو کہ ناچیزکے لیے سرمہ بصیرت ہی نہیں بلکہ ذریعہ صلاح وفلاح بھی ہے۔
اس طرح اپنے بزرگوں کے دونئے تراجم ” توضیح القرآن” اور”آسان تفسیر”میرے پاس آگئے۔
اب کسی آیت کاترجمہ لکھنے یاآڈیوریکارڈ کے لیے اکثر ”آسان تفسیر“ کی طرف رجوع کرتاہوں ۔
میں نے رمضان المبارک میں ’’پیغام قرآن‘‘ عنوان سے تیس آڈیوز ریکارڈ کرنے کے لیے آیات کاترجمہ اسی سے نقل کیا ۔اِس وقت اس کے ساتھ ’’ توضیح القرآن‘‘ اور’’ معارف القرآن‘‘ تینوں سے استفادہ کرتاہوں۔
یہ ترجمہ و تفسیر دو جلدوں پرمشتمل ہے،میں نے اپنی کتاب "تعمیر مساجد اور انسانیت کی رہنمائی” کے ہندی ترجمہ کاذکرحضرت والا سے کیا توحضرت والانے اپنی مبارک ومسعودخواہش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاکہ:
"میں چاہتا ہوں کہ کسی ماہرِ زبان کے ذریعہ ہمارے اردو ترجمہ وتفسیرکا ترجمہ ہندی میں بھی ہوجائے”
حضرت کے اس حکم سے مجھے کافی خوشی ہوئی ،چونکہ اس وقت میرے روابط میں بیک وقت اردو ، ہندی،سنسکرت میں ماہر بعض ذی استعداد دیندار افرادتھے ، اس لیے حضرت کے حکم پر میں نے اس کی ہندی ترجمانی کے لیے آ مادگی ظاہر کردی؛ لیکن ایک دوسرے بڑے عالم جن کی میرے اوپر کافی شفقتیں اورتوجہات ہیں،انھوں نے پہلے ہی کسی دوسرے کواس کی ہندی ترجمانی کی ذمہ داری دے رکھی تھی،انھوں نے فوراًحضرت والا سے اپنے ذریعہ ہندی ترجمانی کاتذکرہ کیا، جس پرمیں خاموش ہوگیا۔
توضیح القرآن اورآسان تفسیردونوں میں سے کسی ایک کا ہندی میں ترجمہ ضرور ہوناچاہئے ، پہلے ترجمہ وتفسیر کی ہندی کتابت کاحشر اوپر بتا چکاہوں۔اسی کے ساتھ ایک دوسری بات یہ بھی ہے کہ حضرت مفتی محمد تقی صاحب عثمانی دامت برکاتہم تھانویؒ سلسلے کے فیض یافتہ ہیں،حضرت تھانویؒ علیہ الرحمہ نے اپنے زمانے کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے(غالباً استعدادِمقاومت کی صورت میں) مسلمانوں کو تعلیم فرمائی تھی کہ :
”کسی مقام پر پراگر(مخصوص)حلال جانور کے ذبیحہ پرروک لگائی جائے تو وہاں اس حلال
جانورکوضرورذبح کیاجائے۔“
بعد میں علماء ہند نے بھارت کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے دوسرا موقف اختیار کیا۔
حضرت مفتی محمد تقی صاحب عثمانی دامت برکاتہم نے جس دینی وسیاسی اورجغرافیائی ماحول میں اپنی تفسیر لکھی ہے ممکن ہے کہ اپنے ماحول وتربیت کے زیر اثر کہیں جرأت عمری سے کام لیتے ہوئے انھوں نے ایسا اسلوب یا تعبیر اختیار کرلیا ہوجو یہاں ہماری مقہوریت ومظلومیت میں مزید مشکلا ت کا سبب بن جائے۔اور شاید دعوتی لحاظ سے توضیح القرآن کا ہندی ترجمہ اس قدرمفیدنہ ہوجس قدر ”آسان تفسیر““کے ذریعہ امید کی جاسکتی ہے۔
ہمارے ملک میں معاندینِ اسلام نے آیاتِ جہاد کی انتہائی غلط تشریحات لکھیں اوربڑی مقدار میں یہاں کے لوگوں تک ان غلط تشریحات کو پہنچا کر یہاں کی اکثریت کو اسلام اور مسلمانوں سے متنفر کرنے کی کوششیں کی ہیں۔حضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے”چوبیس آیتیں“ نام سے مستقل کتابی صورت میں ان آیات کی قابلِ اطمینان منطقی تشریح وتوضیح پیش فرمائی ہے۔ اس لیے ہندی ترجمانی کے لیے حضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی دامت کا تہم کے ترجمہ وتفسیر کی طرف ہی ذہن جاتا ہے۔
ملک کے حالات جس طرح اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں تیزی کےساتھ تبدیل ہورہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے جلدازجلد اس ترجمہ وتفسیرکا ہندی ترجمہ ہوناچاہیے۔تاکہ ملک میں دعوتی کام کرنے والوں کوسہولت ہو. نیزاسلام کے خلاف شور وہنگاموں کے پردے میں اسلام کو صحیح طورپر سمجھنے والوں کو یہاں کے ماحول واشکالات وغیرہ کی مناسبت سے ہندی میں قرآن مجید کاترجمہ وتفسیر دستیاب ہوسکے۔
خدا کرے کہ جلد ازجلد اس کا ہندی ایڈیشن منظرعام پر آئے۔آمین ثم آمین
دونوں اردو تراجم( توضیح القرآن،آسان ترجمہ وتفسیر) میں ترجمہ نگاری کے فنی محاسن کے ساتھ ترجمۂ قرآن وتفسیر کے لیے مطلوب معیارکاپایاجانا محتاج بیان نہیں ہے۔ البتہ تقریباً سوسال کے بعد بھی ’’بیان القرآن‘‘ میں جوجامعیت اور کساؤ دیکھنے کو ملتا ہے وہ آج بھی علماء کے لیے باعث کشش ہے۔
جیسا کہ چند سطور قبل لکھ چکاہوں کہ تفہیم القرآن میں بعض مواقع پر ایسی عبارتیں ملتی ہیں جن سے قاری کے دل و دماغ میں علماء، فقہاء، اورائمۂ متبوعین کے سلسلہ میں سوء ظن پیدا ہوتا ہے۔نیز اس میں چونکہ جدید عصری تعلیم یافتہ طبقہ کے ذہن وفکرکوسامنے رکھتے ہوئے مشہوراہل علم وفن غیر مسلم شخصیات کے اقوال سے اپنے موقف پرثبوت و شواہد پیش کئے گئے ہیں ،اس لیے بسااوقات بعض غیراسلامی شخصیات کی عظمت بھی قاری کے ذہن میں قائم ہوجاتی ہے۔
جب کہ تفہیم القرآن کے برخلاف معارف القرآن میں علمائے اسلام ، فقہائے امت، ائمۂ متبوعین اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کاتذکرہ اس طورپر کیاگیا ہے کہ قاری کے دل و دماغ میں ان کی عزت، عظمت وبزرگی کانقش قائم جاتا ہے۔نیزکسی مسئلے میں غیرمسلم مفکرین وفلاسفرس کے اقوال سے اس طورپر استشہاد نہیں کیا گیا ہے کہ قاری کے ذہن میں ان کی عظمت قائم ہوجائے۔
اس لیے معارف القرآن میں تفہیم القرآن کی کمزوریوں وتسامحات کا علاج وتدارک بھی ملتا ہے۔
حکیم الامت حضرت تھانویؒ اور آپ کے سلسلے کے بعض بزرگوں نے میدانِ فقہ وتصوف میں جس طرح عظیم تجدیدی کارنامے انجام دئیے ہیں، اس طرح ملک بھارت میں برہمنی نظام کے تحت انسانوں کی طبقاتی تقسیم کے خلاف ان کے یہاں
خاطرخواہ توجہ دیکھنے کونہیں ملتی ہے۔اگرتھانویؒ سلسلے کے بزرگوں کی طرف سے غیربرادری میں شادی کی اجازت یا ہدایت جاری کردی جاتی توعین ممکن تھا کہ بھارت کے مظلوم مسلمان مشرکین وکفار کے برخلاف طبقاتی تقسیم سے محفوظ ہوکر آج ایک امت بن جاتے۔ یہی نہیں بلکہ اس سلسلے کے بزرگوں کی بعض عبارات سے اس نظام وتصورکو تقویت فراہم ہوتی ہے، خاص طورپرمسئلہ کفوء میں شادی کے لیے خاندان کی اہمیت پرجس طرح شدت اختیار کی گئی ہے وہ بھارتی مسلمانوں کے درمیان اسلامی مساوات ومواخات قائم کرنے کے لیے کسی طور پربھی مناسب نہیں ہے۔
کفوء کا مطلب زوجین کے درمیان مساوات قائم کرناہے، لیکن بھارت میں شادیوں کے لیے کفوء عنوان کے تحت زوجین جس طرح خاندان کو اہمیت دیتے ہیں وہ مساوات کے بجائے مشرکین وکفار کی طرح مسلمانوں میں اونچ نیچ اور طبقاتی تقسیم کے غیراسلامی تصور اور کفریہ فکر وسوچ کے استحکام کا قوی ذریعہ ہے۔
سورہ احزاب میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کی شادی کے سلسلے میں نص کے ذریعہ غیر برادری میں شادی کے جواز بلکہ تاکید وارد ہونے کے باوجود انھیں آیات کے ذیل میں معارف القرآن میں شادی کے لیے برادری کی اہمیت پرطویل تقریر کی گئی ہے۔
(غیربرادری میں شادی کو فروغ دینے کے لیے میرا، رسالہ” غیر برادری میں شادی کوفروغ دیا جائے“ قارئین میرے ٹیلی گرام چینل
https://t.me/joinchat/U2cuCarYg0LZ0e2l
سے لوڈ کرسکتے ہیں،یہ رسالہ جب میں نے حضرت مولاناخالد سیف اللہ صاحب رحمانی دامت برکاتہم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے فرمایا کہ: ہماری لڑکیوں کے ارتداد کی ایک وجہ خاندان میں شادیوں کا التزام بھی ہے۔اسی طرح دوسرے اکابر نے میرے اس رسالہ کو دیکھ کر اپنے تبریکی کلمات سے بندہ کی حوصلہ افزائی فرمائی۔فالحمد للہ علی ذالک۔)
حضرت رسول اللہ ﷺ نے غیروں میں اسلام کی دعوت کے ساتھ مسلمانوں کی اصلاح، تعلیم وتربیت کافریضہ ادا فرمایا ہے۔ ان دونوں کاموں میں کسی کو تقدم وتأخرنہیں ہے، لیکن معارف القرآن میں سورہ عبس کی تفسیر میں حضرت مفتی صاحب مرحوم و
مغفورنے اپنوں میں تعلیم واصلاح کو مقدم قراردیا۔ اپنوں میں تعلیم واصلاح کو مقدم سمجھنے کانتیجہ ہے کہ اپنوں میں اصلاح وتعلیم کے لیے بے شمارجماعتیں، ادارے قائم ہیں جوکہ سالہاسال سے اپنوں میں اصلاح وتعلیم کی خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن میرے علم میں بھارت میں آج تک غیروں کواسلام کی طرف بلانے کے لیے نہ کوئی جماعت قائم ہوسکی اور نہ ہی کوئی ادارہ نظر آتا ہے۔ حتی کہ میرے علم کے مطابق ہزاروں میں سے کسی ایک بھی ادارہ میں دعوتی زبان سنسکرت آمیزہندی وغیرہ سکھانے کا کوئی نظم نہیں ہے۔
آسان ترجمہ وتفسیر میں
بزرگوں کانام لیے بغیر اس قسم کے تسامحات پر بھی کافی توجہ دی گئی۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.