Baseerat Online News Portal

بعض درسی کتب پرمفتی محمداشرف صاحب قاسمی کاتبصرہ اورآپ کے دروس ( قسط23)

 

پیشکش:ڈاکٹرمحمد اسرائیل قاسمی

آلوٹ،رتلام،ایم پی

بڑی بچیوں کی نشست اورطریقۂ تدریس

ایک دوسری بچی جوبظاہر عمردرازمعلوم ہوتی ،چہرہ پرنقاب اور اسکارف اور نوز پیس (Nose piece)لگا کرآ تی وہ نورانی قاعدہ،اُردو خوانی میں کا فی کمزور تھی، اس کے ہاتھوں میں ارتعاش ہوتا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ بیمارو معذور ہے ، اس کومہینہ دو مہینے میں خون چڑھونا(Blood Transfuion کرانا) پڑتا ہے۔ حجاب سے اس کو تکلیف ہوتی ہے، صرف میرے احترام میں اس طرح حجاب کا اہتمام کرکے آ تی ہے ۔ میں نے اس کو حجاب اور اس قدر پردے کے اہتما م سے منع کردیا۔ چونکہ پڑھنے میں وہ بہت کمزور تھی ،پھر بھی ثواب اور اللہ کی رحمت کا حقدار بننے کے لیے اس کو اپنے پاس پڑھنے کے لیے آنے کی میں نے اجازت دی ۔اس کا جلوس میرے تپائی سے دور ہی دیگر بڑی بچیوں کی طرح ہوتا تھا۔
درجات عالمیت کی کتابوں کی تدریس کے لیے صبح نو بجے کے بعد بڑی بچیوں کی مجلس ہوتی، مجلس کی صورت یہ ہوتی کہ میں نے ایک جانب پردہ لٹکوا دیا، بچیاں اس کی دوسری جانب بیٹھ کر اپنے اسباق پڑھتیں اور یاد کرتیں ، اُس جانب وہ چہرہ سے پردہ ہٹا سکتی تھیں اور اپنی مجالس کی تبدیلی یا ڈوپٹہ وکپڑا وغیرہ درست کرتے وقت کسی بھی قسم کی جسمانی حرکات سے ان کی بے حجابی کا خدشہ نہیں رہتا۔ ان میں سے جن بچیوں کا درس شروع ہو تاوہ اپنے چہرے پر نوز پیس، جسم پر نقاب اور ہاتھوں و پیروں میں دستانے وموزے پہن کر میرے سامنے کچھ فاصلے پر بیٹھتیں۔ اور پھر اجتماعی طور پر منصوبی طریقہ(Projective teaching method) پر ان کے اسباق ہوتے تھے۔ جس میں خاص طورپر اصول الشاسی، اس کے بعد نورالا نوار، اور شرح وقایہ، قدوری، کا ترجمہ اور اس کی تشریحات پیش کرتا۔ اس کے علاوہ النحوالواضح، القرآۃ الواضحۃ، عربی کا معلم وغیرہ کتابوں میں کہیں کہیں سمجھا تا اورگھروں پر لکھنے کے لیے دیتا اور یہاں ان کی تمرینات کودھیان سے چیک کرتااور پوچھتا بھی۔
*خوش خطی*
ایک گونگے وبہرے بچے کو عربی حروف تہجی لکھنے کے لیے دیتا ،درجات عالمیت کے بعض بچوں کو اردو لکھنے کے لیے دیتا، با باقی اوپری درجات کے طلباء وطالبات کو تمارین وغیرہ لکھنے کے لیے بول دیتا۔ اپنے گھر پراپنے بچوں کو اردو ، ہندی اورانگریزی کی کاپیوں میں صفحات کی اوپرایک سطر لکھ دیتا اور بولتا کہ اس کو پڑھ پڑھ کر نیچے تک لکھیں۔
میری ہندی تحریر بہت خراب تھی ، لیکن چند مہینوں کے بعد کچھ درست ہو گئی ، اس پر میرے بچے مجھ سے تفریح کرتے ہوئے کہتے کہ :’’ ہمیں سکھاتے سکھاتے ابو بھی اچھی ہندی لکھنے لگے‘‘بعد میں انگریزی شکستہ تحریر (Cursive)کی مشق کے لیے بازار سے کاپیاں خریدلایا جس پرمیرے بچوں نے اچھی طرحCursive کی مشق کی ،کرسیو میں میرے بچے اتنی اچھی انگریزی لکھنے پر قادر ہوگئے کہ انھیں دیکھ کرمجھے یقین نہیں آتا کہ وہ میرے بچوں کی تحریر ہے ۔ عزیزم محمد اسجد سلمہ جوکہ انگلش میڈیم میں ہیں،جب اسکول شروع ہواتو اس کی کلاس میں تمام بچوں میں اس کو خوش خطی میں امتیازی نمبرحاصل ہونے کی وجہ سے اسے کوئی چھوٹا ساانعام بھی ملا۔
*مالابدمنہ*
عصر کے بعدکے وقت کو ملاقات وغیرہ کے لیے پہلے فارغ کررکھا تھا، جن بچوں کے اسباق کبھی کبھی متعینہ اوقات میں نہیں ہوپاتے وہ عصربعد گھرپر آجاتے ۔ لیکن بعد میں’’حسامی‘‘،’’سراجی‘‘ کے لیے عصر کے بعد کابھی وقت مصروف ہوگیا، جب باقاعدہ عصر کے بعد درس کے لیے بیٹھنے کا نظام بنا لیا، تو ایک دوسرے طالب علم کو ’’مالا بدمنہ‘‘ کے لیے اپنے مکان پر بلانے لگا۔
اس وقت چونکہ میں
’’ایسے اسلاف سے ملتا ہماراشجرہ‘‘ عنوان کے تحت’’ خانقاہ نعیمیہ بہرائچ یوپی( انڈیا )‘‘ کی تاریخ لکھ رہا تھا،اور مالا بدمنہ کے مصنف حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمہ حضرت مولانا خواجہ نعیم اللہ شاہ بہرائچی نوراللہ مرقدہ(بانی خانقاہ نعیمیہ بہرائچ، یوپی انڈیا) کے رفیقِ غار کی حیثیت رکھتے ہیں ، اس لیے مصنف کتاب سے کا فی انیست ومحبت کی وجہ سے اس کتاب کوبڑی دلچسپی وعقیدت کے ساتھ پڑھا تا، رات میں اس کاترجمہ آ ڈیوریکارڈ کرکے بچے کوبھیج دیتا ،دوسرے دن عصر کے بعد بچہ وہ ترجمہ مجھے سناتا ،میں کچھ تشریح کرتا اور پھر سوالات وغیرہ قائم کرکے سمجھاتا ۔

جاری۔۔۔

Comments are closed.