Baseerat Online News Portal

*بعض کتب پرمفتی محمداشرف صاحب قاسمی کا تبصرہ اورآپ کے دروس ( قسط25)

پیشکش:ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی

اصول الشاشی اورنورالا نوار

اصول الشاشی میں اصطلاحات کی تعریفات وامثلہ کوسمجھانا توآسان ہے ، لیکن اردو میں ان تعریفات کو یاد کرنا مشکل ہے ، کیوں کہ اردو نہ کوئی جامع زبان ہے اورنہ میرے اندر اتنی صلاحیت ہے کہ اردو میں جامعیت کے سا تھ طلباءکو تعریفات لکھوا کر یاد کراسکوں ،اورنہ میرے پاس پڑھنے والی بچیاں اتنی ذی استعداد تھیں کہ وہ عربی میں تعریفات کو سمجھ کریاد کر سکیں، بعض تعریف کو اردو میں لکھواتا تو عربی جیسی جامعیت اس میں پیداہی نہیں ہوتی اورعبارت بھی طویل ہوجاتی۔ میں نے تلاش کرنا شروع کیا کہ کہیں سے اصول فقہ کی اصلطلاحی تعریفات اردو میں دستیاب ہوجائیں ، آ خر میں مفتی محمد زبیر صاحب ندوی (بہرائچ) سے رابطہ قائم کیا توا نھوں نے بتا یا کہ :
”حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی زید مجدہ کی ـ’آسان اصول فقہ‘ ہے ، اس سے رجو ع کرلو۔“
لیکن ڈاک نظام بند ہونے کی وجہ سے اس کتاب کو حاصل کرنا دشوار تھا۔ نیٹ پر کافی سرچ کرنے کے بعد اس کی پی ڈی ایف مل گئی، دو کاپی پرنٹ نکلوا کربچیوں کو دیا، تعریفات کو اسی سے یاد کرانا شروع کردیا، اس طرح میرا بوجھ ہلکا ہوگیا، اس میں تعریفات کے ساتھ ہی تشریح وتمرین بھی ہے، اس لیے جو میں سمجھاتا اس کی مددسے بچیوں کو اسے سمجھنے میں بھی سہولت ہو تی.

*صاحب اصول الشاشیؒ کا تسامح*

صاحب اصول الشاشی سے ایک قاعدہ بیان کرنے میں تسامح ہوا ہے۔
اصول الشاشی کی عبارت ذیل میں ملاحظہ کریں:
’’ القسم الثانی: من الرواۃ ھم المعروفون بالحفظ والعدالۃ دون الاجتھاد والفتوی کابی ھریرۃ وانس بن مالک فاذا صحت روایۃ مثلھما عندک ، فان وافق الخبر و القیاس فلا خفاء فی لزوم العمل بہ وان خالفہ کان العمل بالقیاس اولی۔ مثالہ ماروی ابوھریرۃ الوضوء ممامستہ النار ، فقال لہ ابن عباس : أرأیت لو توضئتَ بماء سخین اَکنتَ تتوضاء منہ فسکت ، وانما ردہ بالقیاس، اذلو کان عندہ خبر واحد لرواہ۔۔۔الخ
(اصول الشاشی ، ص75؍یاسر ندیم اینڈ کمپنی دیوبند)
ترجمہ:
’’ اور راویوں کی قسم ثانی (یعنی دوسری قسم کے راوی) وہ حضرات ہیں کہ جوحفظ (حافظہ کا اچھا ہونا) اور عدالت میں معروف ہوں، نہ کہ اجتہادوفتوی میں، جیسے حضرت ابو ہریرہ ؓاورحضرت انس بن مالک ؓ۔
پس جب ان دونوں حضرات جیسوں کی روایت تیرے پاس پہنچے تو اگر خبر، قیاس کے موافق ہو تو اس پر عمل کے لازم ہونے میں کوئی خفانہیں ہے (یعنی حدیث پر عمل کرنا واجب ہے)
اوراگر وہ خبر، قیاس کے خلاف ہوتو ،اس صورت میں قیاس پرعمل کرنا اولیٰ ہے ۔
اس خبر کی مثال جو قیاس کے مخالف ہو وہ حدیث ہے جس کو حضرت ابو ہریرہ نے روایت کیا ہے کہ: اس چیز کے استعال کرنے سے وضو (واجب) ہے ،جس کو آنچ لگی ہو (یعنی جوچیز آگ پر پکائی گئی ہو جسے روٹی، چائے وغیرہ) ،توحضرت ابو ہریرہؓ سے حضرت ابن عباس ؓنے کہا کہ آپ یہ بتائیے کہ اگر آپ گرم پانی سے وضوکر یں تو کیا آپ اس گرم پانی کے استعمال کی وجہ سے وضو جدید کریں گے؟ پس حضرت ابو ہریرہؓ خاموش ہو گئے اور حضرت ابن عباس ؓنے حدیث ابو ہریرہؓ کو قیاس سے رد کیا ہے، اس لیے کہ اگر حضرت ابن عباسؓ کے پاس کوئی خبر ہوئی تو حضرت ابن عباسؓ اس خبرکوضرور روایت کرتے وعلی ھذا‘‘
وہیں حاشیہ میں اس قاعدے کی تردید پیش کی گئی ہے۔
وفی حاشیۃ احسن الحواشی، برقم ۱؎ ۔:
’’ ثم اعلم ان ھذا مذھب عیسیٰ ابن ابان واختارہ القاضی الا مام ابو زید وتابعہ اکثر المتاخرین واما عند الشیخ ابی الحسن الکرخی ومن تابعہ فلیس فقہ الراوی شرطا لتقدیم الخبر علی القیاس ، بل یقید خبر کل عدل مطلقا بشرط ان لم یکن مخالفا للکتاب والسنۃ المشھورۃ لان تغیر من الراوی بعد ثبوت عدالتہ وضبطہ موھوم والظاھر انہ یروی بعد کما سمع ولو غیرہ تغیر علی وجہ لا یتغیر المعنی ، ھذا ھوالظاھر من احوال الحفظ الرواۃ العدول خصوصا من الصحابۃ رضی اللہ عنھم ، لمشاھد تھم احوال النصوص وھم من اھل اللسان وھو الصحیح ، بل اختار مذہب عیسی بن ابان کذ فی المعدن وشروح المنار۔
( حاشیۃ ۱؎ احسن الحواشی علی اصول الشاشی ، الاصل الثانی، بحث شر ط العمل بخبر الواحد، ص76؍یاسر ندیم اینڈ کمپنی دیوبند)

صاحب اصول الشاشی نے جو قانون یہاں بیان کیا ہے وہ احناف کا موقف نہیں ہے، بلکہ عیسی ابن ابانؒ اس کے ناقل ہیں ، مصنف اور دیگر کچھ لوگوں نے غلطی سے اپنی کتابوں میں اس کو نقل کردیا ہے ۔ اور پھر اس کے ناقلِ اول عیسی ابن بانؒ کا بھی یہ مسلک نہیں ہے ۔ اتنی صراحت اور وضاحت کے بعدکسی کواس عبارت کی بنیادپر احناف کے خلاف زازخائی کی بیماری لگ جائے تواس کی کج روی ہے۔
اورحضرت ابوہریرہ ؓ کی اس بات کو اس لیے رد فرمایا کہ اس کے خلاف روایات موجود ہیں کہ: وضو کے بعدآ گ پر پکی ہو ئی چیز رسول اللہ ﷺ نے تناول فرمایا لیکن دوبارہ وضو نہیں فرمایا۔جس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابو ہریرہ کی روایت منسوخ ہے، اور پھر حضرت ابوہریرہ ؓ کی اس روایت کواحناف وضو شرعی کے بجائے وضو لغوی یعنی کلی وغیرہ پر محمول کرکے رد کرنے کے بجائے اس کو بھی معمول بہا تسلیم کرتے ہیں ۔اور یہاں ایک صحابی دوسرے صحابی کی رائے سے اختلاف کررہے ہیں، یہاں احناف نے حضرت ابو ہریرہ ؓکی بات کو رد کرنے کے بجائے دوصحابہ کے آ رائے میں قیاس سے ترجیح دے کر ایک صحابی کے قول کو اختیار کیا ۔
اس قاعدہ پر اس کے بعد حدیث مصراۃ کو پیش کیا گیا ہے ، جسے صریح نصوص اور روایات مشہورہ کی وجہ سے ترک کیا گیا ہے ،نہ کہ غیر مجتہد راوی کی روایت کی وجہ سے خبر کو چھوڑکر قیاس کولیا گیا۔
چونکہ کہ نااہل حدیثوں کا مقصد دین کی افہام و تفہیم نہیں بلکہ دین کی تشریح وتوضیح کرنے والے فقہاء کے خلاف محاذ قائم کرنا ہے ۔اس لیے اگر وہ حاشیہ کی بھی عبارت نقل کرکے بات کریں گے تو ان کا مقصد نہیں حاصل ہو گا ،حاشیہ میں اس کی تردید پر نظر ڈالتے ہوئے نا اہل حدیثوں کی آ نکھیں آشوب چشم کا شکار ہوجاتی ہیں ۔ اس لیے سکے کا ایک ہی رُخ پیش کرکے وسوسہ پیدا کرنے کے لیے وہ متن کی عبارت پیش کرتے رہتے ہیں۔
میرے زمانہ طالب علمی میں استاذ مکرم حضرت مفتی محمدعبدا للہ صاحب بستوی دامت برکا،تہم (شیخ الحدیث ریاض العلوم گورینی ، جونپور، یوپی) نے اصول الشاشی کے اس تسامح پر سخت تعاقب فرما یا تھا۔دوران درس میں نے بھی صاحب اصول الشاشی علیہ الرحمہ کے اس تسامح کو واضح کیا۔ اور میں نے اس دوران جتنی بھی شروحات کا مطالعہ کیا،سب میں یہ با وضاحت اس کی قاعدے کی تردید ملتی ہے۔
اصول الشاشی کے اس تسامح پر وضاحت اس وجہ سے بھی ضرورت تھی اور ہے کہ ائمہ متبوعین کے بغاۃ ’’نااہلِ حدیث جماعت‘‘ اصول الشاشی کی اس تقریر کو بنیاد بناکر احناف پر سخت اعتراضات کرتے ہیں ۔اسی عبارت کی بنیاد پر اسلامک انفارمیشن سینٹر اندھیری ممبئی میں اور پھر یہاں (مہدپور، ایم پی) اپنی مسجد میں بندہ کوایک نا اہل حدیث کے ذریعہ پیش کیے گئے ایک لٹریچر میں ان کے سخت اعتراض دیکھنے کی نوبت آئی ۔
جاری۔۔۔۔

Comments are closed.