Baseerat Online News Portal

بعض کتب پرمفتی محمداشرف صاحب قاسمی کاتبصرہ اور آپ کے دروس( قسط26)

پیشکش:ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی

آلوٹ،رتلام، ایم پی

فقہ حنفی پراُردو میں’’درسِ ترمذی‘‘ و’’تنظیم الا شتات‘‘

درس نظامی کے ابتدائی سالوں میں مجھے فقہ حنفی پر کم اطمنان تھا، کیوں کہ میر اایک ساتھی مدرسہ سلفیہ بنارس سے متاثر ہوکر آ یا تھا اور وہ مختلف مسائل میں احناف کے موقف کے خلاف احادیث پیش کرتا ، اس وقت میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا تھا، انجام کار میں حنفیت کے سلسلہ میں شکوک وشبہات میں گرفتار ہوگیا۔ لیکن ایک دن میں اس کے حجرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ اپنے کمرے میں چھپ کر حضرت مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہ العالی کی ’’درس ترمذی‘‘ کا مطالعہ کررہا ہے ، مجھے دیکھتے ہی اس نے کتاب چھپانے کی کوشش کی ،میں نے وہ کتاب مانگ کر دیکھی، تو مجھے حیرت ہوئی کہ درجہ سوم کا طالب علم دورۂ حدیث کی شروحات کا مطالعہ کرتا ہے اوراس کو بچہ سمجھ کر اس کے اعتراضات واشکالات کے سرچشمے کو بغیرجانے بعض اساتذہ اس کو سمجھاتے اورجب وہ دوبارہ اعتراض کرتا تو اساتذہ بھی خاموش ہو جا تے ۔ جس موضوع پر وہ گرما گرم مباحثہ کررہا تھا اس موضوع سے متعلق میں نے ’’درس ترمذی ‘‘میں تشریح دیکھنے ودکھانے کے لیے اس کو کہا تو کتاب کھول کراحناف کےخلاف موقف پیش کیا، چونکہ وہ کتاب حضر ت مفتی محمد تقی صاحب عثمانی کےدروس پرمشتمل تھی ، اس لیے مجھے یقین تھا کہ ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ احناف کے موقف پرکوئی حجت قائم کیے بغیرحضرت مفتی صاحب نے اپنے درس کو مکمل کردیاہو، میں نے اس سے کتا ب مانگی اور وہیں احناف کے موقف پراحادیث وغیرہ پیش کرکے اس سے میں نے کہاکہ :
’’ اپنی اور دوسروں کی آ خرت کیوں خراب کرتے ہو؟ غیرمقلدوں کے اعتراضات یا احناف کے موقف کے خلاف کمزور دلائل سے اساتذہ اور طلباء کو پریشان کرتے ہو؟ جب کہ اس کتاب میں غیر مقلدوں کے اعتراضات کا جوابات اور احناف کے مستدلات ،دوسرے طبقہ کے موقف کی کمزوریوں کو اچھی طرح بیان کیا گیا ہے جس پر تمہیں مطمئن ہو جاناچاہئے۔‘‘
اس پر اس نے جواب دیا کہ :

’’ ابھی تک احناف کے سلسلے میں واقعی میں غلط فہمی میں تھا، درس ترمذی کے مطالعہ کے بعد میرے شکوک وشبہات دور ہوگئے ، لیکن مدرسہ میں اپنا بھونکال جمانے ( شہرت وناموری قائم کرنے) اور اساتذہ کو آزمانے کے لیے خفیہ طور پردرس ترمذی کامطالعہ کرتا ہوں اور احناف کے خلاف یہیں سے کچھ باتیں پیش کرتا ہوں ، (پھر وہ ہنس کربولا) سب سمجھتے ہیں کہ میں بہت جانکار ہوں جب کہ احناف ہی کی کتاب سے یہ سب کچھ کرتا ہوں ۔‘‘

میں نےاس سے کہاں کہ :

’’احناف کی ایمانداری ہے کہ فریق مخالف کے دلائل کو نظر انداز نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کے دلائل کی قوت کو بھی سامنے رکھتے ہیں ، اور کتابوں میں دیکھو کہ کتنے مسائل میں امام ابوحنیفہ ؒکے خلاف صاحبینؒ اور صحابینؒ کے خلاف بعد کے علمائے احناف نے دلائل کی قوت کی بنیاد پراختلاف کیا ہے؟‘‘
میرے دل میں اسی وقت سے درس ترمذی کی عظمت وافادیت بیٹھ گئی۔ اور میں عربی سوم ہی میں متعلقہ موضوع پر درس ترمذی کا مطالعہ کرنے لگاتھا۔
پھر موقوف علیہ میں اساتذہ کی تقریروں کے علاوہ ’’ تنظیم الا شتات‘‘
( مصنفہ:مولانامحمد ابوالحسن) کا بڑی عرق ریز ی کے سا تھ کئی بار مطالعہ کیا،(بعد میں تنظیم الاشتات میں اردو کی اصلاح کرکے کسی کشمیری بزرگ نے اس کو بے جان کاغذی شیر بنادیا۔ جب کہ زبان کی کمزوری کے باوجودعلمی لحاظ سے قدیم نسخہ ہی
مفیدہے) ۔ ’’ تنظیم الا شتات‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے خیال آ تا تھاکہ چاروں دبستان فقہ کے بجائے فقہ حنفی ہی احادیث پر
سوفیصد مبنی ہے۔ ہمارے علماء واساتذہ کی وسعت ظرفی رہی ہے کہ ہمیشہ چاروں مسالک کو برحق ہونے کا بر ملااظہار واعلان فرما تے رہے ہیں ۔

*آوارہ دماغ غیر مقلدوں کی وجہ سے حنفیَّت پر وثوق وتصلُّب*

بعد میں جب غیر مقلدین کی شرارتوں کے نتیجے میں بار بار احناف کے بیان کردہ مختلف مسائل کو احادیث نبویہ کی روشنی میں سمجھنے کے لیے مجبورہوا تو میرے اندرحنفیت پر مزید وثوق وتصلُّب پیدا ہو گیا۔نیز احناف اور تقلید کے خلاف محاذ قائم کرنے والی جماعت نااہل حدیث کے بارے میں یقین ہوگیا کہ یہ جماعت اپنے دعوی میں سراسر جھوٹی ہونے کے ساتھ تقلید ِمذموم کی برائی میں مبتلاء ہے۔ اس جماعت کے سامنے کتنی بھی صحیح حدیث پیش کردو، وہ کسی بھی حال میں یہ احادیث کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو تی ہے ، بلکہ احادیثسامنے آ جانے کے بعد اس کے افراد بچھو ڈسے ہوئے شخص کی طرح بھاگتے ہوئے اپنے گروؤں کے پاس جاکراس کی تصدیق کرانا ضروری سمجھتے ہیں ۔اگر اُن کا گرو حدیث کو ضعیف بتا دے تو آ نکھیں بند کرکے حدیث کے خلاف اپنے گرو کی بات کو تسلیم کرلیتے ہیں ۔ ان کے گرو بھی کیسے ہوتے ہیں ؟ اس کا اندازہ مجھے یہاں مہد پور میں بہت اچھی طرح ہو گیا۔ اللہ کی قسم ان کے بعض گروجہالت کے ساتھ بدکاری ، فحش گوئی ،عریان کلامی اور ںسب وشتم میں بھی معروف ومشہور ہیں ، ایسے بداخلاق اور سوقیانہ مزاج کے لوگوں سے احادیث کی تصدیق کے بعد ہی اس جماعت کے لوگ حدیث کو قبول کرتے ہیں ۔ مسلم شریف احادیث 13تا27؍ میں حدیث رسولﷺ قبول کرنے کے لیے حدیث بیان کرنے والے کو دیکھنے کی ہدا یت کی گئی ۔ ان احادیث کے خلاف یہ طبقہ پاکیزہ زندگی گزار نے والے جید الاستعدادعلماء کے بجائے جاہل ،بیوقوف اور آوارہ قسم کے لوگوں کی اندھی تقلید کو دین سمجھتا ہے۔ اس طرح اس طبقہ کی کم عقلی، علم دشمنی، علماء کی ناقدری اور آوارہ مزاجی نے بھی مجھے فقہ حنفی کا گرویدہ و دیوانہ بنا دیا۔
جاری۔۔۔۔

Comments are closed.