Baseerat Online News Portal

قربانی کی مشروعیت:حکمتیں اور مصلحتیں

 

محمد تبریز عالم حلیمی قاسمی
خادم تدریس دارالعلوم حیدرآباد
7207326739

قربانی تسلیم و رضا کا عنوان اور عبدیت و بندگی کا مظہر ہے،ایک مسلمان سے زندگی کے ہر موڑ پر قربانی مطiلوب ہے،مال کی قربانی،وقت کی قربانی،جان کی قربانی،نیند کی قربانی اور اولاد کی قربانی،انسان کی پوری زندگی قربانیوں سے لبریز ہوتی ہے۔جب عقل وفہم معرفت الہی کے سمندر کی گہرائی میں اتر جاتی ہے تو عبد و معبود کے رشتہ میں ایسی مضبوطی پیدا ہو جاتی ہے کہ عبد کی عبدیت ،معبود کی معبودیت کے آگے نہ صرف یہ کہ سرِ تسلیم خم کر دیتی ہے بلکہ وہ اسے آگ میں بخوشی کودنے پر آمادہ کردیتی ہے،جذبہ قربانی وہ نشہ ہے جس کی لذت کی سرمستی اس قدر عمدہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کو اولاد جیسی قیمتی نعمت راہِ خدا میں لُٹا دینے پر برضا تیار کردیتی ہے۔جذبہ قربانی سے ہی عزیمت و استقامت کی لازوال داستان لکھی جاتی ہے اور قربانی ہی حقیقی محبت کی عظیم الشان نشانی ہے،اسی لیے قربانی اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی اور کے نام پر ہرگز نہیں کی جاسکتی۔
اسلام خود سپردگی کا دوسرا نام ہے،اس لیے اس کی تعلیمات اور اس کے احکام میں قربانی کا مفہوم بھی موجود ہے:نماز میں وقت اورراحت کی قربانی موجود ہے،زکات و صدقات میں مال کی قربانی نظر آتی ہے،روزے میں بھوک پیاس کی قربانی دکھائی دیتی ہے،حج وقت،مال اور راحت و آرام کی قربانی سے عبارت ہے جبکہ جہاد راہِ خدا میں جان ومال کی قربانی کا منظر پیش کرتا ہے۔
جان و مال کی قربانی،جان و مال دینے والے رب کے قرب کا ذریعہ ہے،قربانی کا لفظ قُرب سے لیا گیا ہے،جس کے معنی قریب کرنے کے ہیں؛ چونکہ قربانی کا مبارک عمل بندے کو اللہ کے قریب کرتا ہے اس لیے اسے قربانی کہتے ہیں ،ایک مسلمان کے لیے قربِ الہی بہت بڑا سرمایہ ہے اسی لیے اللہ تعالٰی نے اپنے مخصوص بندوں پر ایک مستقل قربانی کو ضروری قرار دیا،تاکہ محسوس طور پر زندگی میں قربانی کا احساس کیا جاسکے۔قربانی ہمیں یہ سبق بھی دیتی ہے کہ اللہ کی رضا اور خوشنودی کے سامنے ہم اپنی خواہشات، اپنے جذبات، اپنا غصہ،اپنی محبت اور اپنے تمام احساسات قربان کردیں۔
یوں تو اللہ کے نام پر جانور کی قربانی کسی وقت بھی کی جا سکتی ہے،لیکن ایام قربانی میں قربانی ایک اہم عبادت ہے اور شعائر اسلام میں سے ہے،زمانہ جاہلیت میں بھی اس کو عبادت سمجھا جاتا تھا مگر بتوں کے نام پر قربانی کی جاتی تھی،اسی طرح دوسرے مذاہب میں قربانی مذہبی رسم کے طور پر ادا کی جاتی ہے سورہ کوثر میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ جس طرح نماز اللہ کے سوا کسی کی نہیں ہو سکتی ،قربانی بھی اسی کے نام پر ہونی چاہیے چنانچہ "فصل لربك وانحر” کا یہی مفہوم ہے۔

*قربانی کی حقیقت*

بارگاہ الہی میں قربانی پیش کرنے کا سلسلہ یوں تو حضرت آدم علیہ السلام سے ہی چلا آرہا ہے،چنانچہ قرآن میں حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں :ہابیل اور قابیل کی قربانی پیش کرنے کا قصہ مذکور ہے،علاوہ ازیں قربانی کا عمل ہر امت میں مقرر کیا گیا ہے،چنانچہ سورہ حج آیت نمبر 34 میں اللہ کا ارشاد ہے:”اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی اس غرض سے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں عطا کیے ہیں،البتہ اس کے طریقے اور صورت میں کچھ فرق ضرور رہا ہے،قربانی کی ایک عظیم الشان صورت وہ ہے جو امت محمدیہ کو عطا کی گئی ہے،یہ قربانی ہر سال صاحب نصاب مسلمانوں پر جانور کی قربانی کی شکل میں واجب ہے،یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے،عید الاضحٰی کی قربانی کے متعلق رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: "قربانی تمھارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور یادگار ہے”اس قربانی کا اصل مقصد جان کا نذرانہ پیش کرنا ہے،چنانچہ اس سے جاں سپاری اور جاں نثاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور یہی بات قربانی کی روح ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی قربانیوں کا مظہر ہے،اللہ تعالٰی نے قوم کی قربانی دلوائی،آپ نے اپنا ملک،گھر،والدین اور دوستوں کوچھوڑ مکہ مکرمہ کی بے آب و گیاہ وادی کی جانب ہجرت کی،بیت اللہ کے پاس بیوی اور شیرخوار بچے کو چھوڑنے کا عزم کیا اور جب وہ بچہ دست وبازو اور بڑھاپے کا سہارا بننے کے قابل ہوا تو اسے ذبح کردینے پر آمادہ ہو گئے:یہ سب رہتی دنیا تک لوگوں کے لیے قابل تقلید عمل ہے، اللہ تعالٰی کے حکم کے سامنے اپنی مرضیات اور اپنی محبتوں کو کس طرح قربان کیا جاتا ہے،یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے بخوبی سیکھا جا سکتا ہے؛اسی لیے اللہ تعالٰی نے امت مسلمہ کو یہ قربانی بطور سنت ابراہیمی عطا فرمائے کا فیصلہ فرمایا؛چنانچہ دس ذی الحجہ سن دو ہجری کو رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز عید ادا فرمائی اور دو مینڈھے ذبح کیے اور مسلمانوں کو قربانی کا حکم دیا۔ترمذی کی روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دس سال مدینہ میں مقیم رہے اور ہر سال قربانی کیا کرتے تھے،اپنے آخری حج میں تو رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹوں کی قربانی پیش فرمائی تھی،استطاعت کے باوجود جو لوگ قربانی نہیں کرتے ہیں اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے،اس سے قربانی کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔

*اولاد اور قربانی کا جانور*

سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پہلے بیٹے کی قربانی پیش کرنے کا اشارہ دیا تھا،پھر یہ حکم بیٹے سے پھیر کر دنبے کی طرف منتقل کردیا گیا۔اللہ تعالٰی چاہتے تو براہِ راست کسی جانور کو ذبح کرنے کا حکم دیتے،لیکن ایسا نہیں ہوا، یہ اس لیے تھا تاکہ قیامت تک آنے والے لوگوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ اگر اللہ تعالٰی کی طرف سے اولاد قربان کرنے کا حکم آجاۓ تو توحید وایمان کی تکمیل کا تقاضا یہی ہے کہ انسان اللہ کے حکم پر اپنی اولاد کو قربان کردے۔حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں:
دراصل قربانی کیا ہے،ایک تصویری زبان میں تعلیم ہے جسے جاہل اور عالم سب پڑھ سکتے ہیں،وہ تعلیم یہ ہے کہ خدا کسی کے خون اور گوشت کا بھوکا نہیں ہے وہ تو وھو یطعم ولا یطعم ہے،ایسا پاک اور عظیم الشان نہ تو کھالوں کا محتاج ہے نہ گوشت کے چڑھاوے کا بلکہ وہ تمھیں سکھانا چاہتا ہے کہ تم بھی خدا کے حضور میں اس طرح قربان ہو جاؤ اور یہ بھی تمھارا ہی قربان ہونا ہے کہ اپنے بدلے اپنا قیمتی جانور قربان کر دو (احکام اسلام عقل کی نظر میں ص:118)
رحمة الله الواسعة میں ہے:
قربانی صرف اونٹ،گاۓ،بھینس اور بھیڑ بکری کی درست ہے،کیونکہ یہ پالتو مویشی ہیں اور سرمایہ ہیں،ان کی قربانی کرنے کا اثر دل پر پڑتا ہے۔جنگلی جانور :ہرن وغیرہ کی قربانی تو مالِ مفت دلِ بے رحم والا معاملہ ہے۔اور کوئی ہرن پال لے تو یہ خاص معاملہ ہے ،احکام عام حالات پر مرتب ہوتے ہیں،اور گھوڑے گدھے اور خچر کی قربانی اس لیے درست نہیں کہ وہ ماکول اللحم نہیں۔(ص:630 ج:3)

قربانی میں عمدہ جانور مطلوب ہے

مفتی سعید احمد پالن پوریؒ لکھتے ہیں:
قربانی کے جانور کو فربہ کرنا اور عمدہ جانور کی قربانی کرنا مستحب ہے اور عیب دار جانور کی قربانی درست نہیں،اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قربانی من وجہٍ مالی عبادت ہے۔سورہ الحج آیت ٣٧ میں ہے: "اللہ کے پاس نہ ان ( ہدیوں) کا گوشت پہنچتا ہے ، اور نہ ان کا خون ۔ بلکہ ان کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے” یعنی قربانی میں اصل مقصود تقوی ہے، جو دل کی ایک کیفیت ہے، مال نہیں ہے۔ مگر اس کا تقوُّم(وجود) قربانی کے جانور کے ذریعہ ہوتا ہے ، پس قربانی ضروری ہے ۔ پھر جانور قربان کرنے کے بعد اس کا گوشت یہیں دنیا میں رہ جاتا ہے ۔ اس کو اللہ کی میزبانی کے طور پر خود قربانی کرنے والا اور دوسرے بندے استعمال کرتے ہیں ۔ اور کچھ حصہ اس کا رائگاں جاتا ہے ۔ خون، ہڈیاں وغیرہ پھینک دی جاتی ہیں ۔ اور جب جانور کی قربانی ضروری ٹھہری تو جانور مال ہے ۔ پس قربانی بھی مالی عبادت ہے اور مالی عبادت کے بارے میں اللہ پاک نے دو باتیں ارشادفرمائی ہیں ۔ سورۂ آل عمران آیت۹۲ میں فرمایا ہے: "تم خیر کامل کو کبھی نہ حاصل کر سکو گے یہاں تک کہ اپنی پیاری چیز کوخرچ نہ کرو” اور مریل اور عیب دار جانور پیارا کب ہوتا ہے ۔ عمدہ فربہ جانور پیارا ہوتا ہے ۔ایسا جانور قربان کرنے سے قربانی کرنے والے کی سچی رغبت ظاہر ہوتی ہے ۔ اور دوسری بات سورۃ البقرہ آیت ٢٦٧ میں ارشاد فرمائی ہے : "اے ایمان والو! خرچ کیا کرو عمدہ چیز اپنی کمائی سے، اور اس سے جو کہ ہم نے تمہارے لئے زمین سے پیدا کی ہے ۔ اور ردی (بیکار) چیز کو خرچ کرنے کا ارادہ نہ کرو” اس حکم خداوندی کے بموجب عیب دار جانور کی قربانی درست نہیں ۔(رحمة الله الواسعة ص:632 ج:3)

*عید الاضحی میں قربانی*

عید الاضحٰی کا دن وہ دن ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جاں نثاری کی یاد دلاتا ہے،یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے ان کے اخلاص اور تسلیم و رضا کو شرفِ قبول عطا فرمایا،ہر سال جانور کی قربانی اسی مصلحت سے مقرر کی گئی کہ اس میں ملت ابراہیمی کے ائمہ کے حالات اور ان کے جان و مال کو راہ خدا میں خرچ کرنے اور ان کی غایت درجہ صبر کرنے کی یاد دہانی کرکے لوگوں کو عبرت دلائی جاۓ،نیز جو مسلمان حج کے لیے مکہ نہیں پہنچ سکے وہ اپنے وطن میں رہتے ہوۓ ان کی مشابہت اختیار کر لیں تاکہ حج کی شان بلند ہو اور لوگوں میں حج کرنے اور منی میں جانور ذبح کرنے کا شوق وولولہ پیدا ہو۔
اس موقع پر جانور کی قربانی میں مصلحت یہ ہے کہ اس سے مخلوق پر شفقت کا اظہار ہوتا ہے؛چنانچہ عید الفطر میں مخلوق خدا پر شفقت کے لیے صدقہ فطر واجب کیا گیا اور عید الاضحٰی میں مساکین اور دوست و رشتہ دار کے لیے گوشت کی مہمانی مقرر کی گئی،گوشت کا مرغوب،مقوی،قیمتی اور عمدہ غذا ہونا سب کو معلوم ہے،اسی لیے ایام قربانی میں جانور ذبح کرنے کے بجاۓ اس کی قیمت صدقہ کرنا درست نہیں ہے،تاکہ گوشت کی مہمانی سے کوئی محروم نہ رہے،صدقہ کے پیسے سے ہر کوئی گوشت خریدے گا ضروری نہیں ہے،اور اسی لیے عید الاضحٰی کے دن نماز سے پہلے کچھ کھانا غیرمناسب بات ہے کیونکہ جب قربانی کرنے والا بھوکا ہوگا تو قربانی کا گوشت خوب رغبت سے کھاۓ گا،ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں اور مصلحتیں جانور کی قربانی سے ہی حاصل ہو سکتی ہیں،اس لیے عید الاضحٰی کے موقع پر جانور کی قربانی عقل و شرع ہر اعتبار سے بہت موزوں ہے۔(تفصیل کے لیے دیکھیے:رحمة الله الواسعة ص:624 ج: 3، احکام اسلام عقل کی نظر میں ص: 126 حصہ دوم)

ذبحِ انسان مصلحت کے خلاف ہے:

بلاشبہ انسان کا اللہ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا بہت عمدہ بات ہے بلکہ یہ تقاضائے بندگی ہے؛یہی وجہ ہے کہ درجہ شہادت کا حصول اعلی کمال مانا گیا ہے اور شہادت کے فضائل بیان کیے گئے ہیں،لیکن ہر سال ہر صاحب نصاب کا ذبح ہونا وجودِ کائنات کی مصلحتوں کے خلاف ہے کیونکہ ہر انسان کے ساتھ دوسروں کے حقوق ہیں:کسی کی پرورش ہے،کسی کے نان و نفقہ کا مسئلہ ہے،کسی کی شادی کرانی ہے اور کسی کے مالی حقوق واپس کرنے ہیں وغیرہ وغیرہ، اگر قربانی کے نام پر انسان ذبح ہوتا رہے تو سارے حقوق ضائع ہو جائیں گے اور حقوق کا ضائع ہونا ذبح انسان سے زیادہ باعثِ مشقت اور تکلیف کا موجِب ہے۔

*قربانی خلافِ رحم نہیں ہے*

اسلام مخالف ماحول میں یہ بات بہت شدت سے بلند کی جاتی ہے کہ عید الاضحٰی میں جانوروں کی قربانی رحم کے خلاف ہے،لوگ اسے ہندی میں "جیو ہتیہ” کہتے ہیں،بعض شدت پسند حکومتیں اس پر پابندی کی نہ صرف باتیں کرتی ہیں بلکہ اس کے لیے قانون سازی پر آمادہ نظر آتی ہیں،میڈیا اور ٹی وی ڈیبیٹ کے ذریعہ خوب پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے،اس کی وجہ سے بعض کم علم مسلمان بھی شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔حالاں کہ قربانی از روئے عقل بھی خلافِ رحم نہیں ہے،اس سلسلے میں حضرت تھانویؒ کی چشم کشا مفصل تحریر درج ذیل ہے،وہ لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کو ماننے والی قومیں ، خواہ وہ کوئی ہوں ، اس بات کی ہرگز قائل نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ظالم ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کو رحمٰن و رحیم مانتے ہیں ۔اب خدا کا فضل دیکھو کہ ہوا میں باز، شکرے، گدھ اور چرغ وغیرہ شکاری جانور موجود ہیں اور وہ غریب پرندوں کا گوشت ہی کھاتے ہیں ۔ گھاس اور عمدہ سے عمدہ میوے اور اس قسم کی کوئی چیز نہیں کھاتے، پھر دیکھو آگ میں پروانے کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، پھر پانی کی طرف خیال کرو کہ اس میں کس قدر خوں خوار جانور موجود ہیں ، گھڑیال اور بڑی بڑی مچھلیاں اور اود بلاؤ وغیرہ۔ یہ چھوٹے چھوٹے آبی جانوروں کو کھا جاتے ہیں بلکہ بعض مچھلیاں قطبِ شمالی سے قطبِ جنوبی تک شکار کیلئے جاتی ہیں ۔ پھر ایک اور قدرتی نظارہ سطحِ زمین پر دیکھو کہ چیونٹی کھانے والا جانور کیسے زبان نکالے پڑا رہتا ہے، بہت سی چیونٹیاں اس کی زبان کی شیرینی کی وجہ سے اس کی زبان پر چڑھ جاتی ہیں تو جھٹ زبان کھینچ کر سب کو نگل جاتا ہے۔ مکڑی مکھیوں کا شکار کرتی ہے، مکھیاں کھانے والا جانور اپنی غذا ان جانوروں کو ہی مار کر بہم پہنچاتے ہیں ، بندروں کو چیتا مار کر کھاتا ہے، جنگل میں شیر بھیڑیے تیندوے کی غذا جو مقرّر ہے، وہ سب کو معلوم ہے، بلّی کس طرح چوہوں کو پکڑ کر ہلاک کرتی ہے۔ اب بتلاؤ کہ اس نظارۂ عالم کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ قانونِ ذبح جو عام طور پر جاری ہے ،یہ کسی ظلم کی بنا پر ہے۔ ہر گز نہیں ، پھر انسان پر حیوان کے ذبح کرنے کے ظلم کا الزام کیا مطلب رکھتا ہے؟ انسان کے جوئیں پڑ جاتی ہیں یا کیڑے پڑ جاتے ہیں ، کیسے بے باکی سے ان کی ہلاکت کی کوشش کی جاتی ہے، کیا اس کا نام ظلم رکھا جاتا ہے؟جب اسے ظلم نہیں کہتے، اشرف(اعلیٰ) کیلئے اخس (ادنیٰ)کا قتل جائز ہے، تو ذبح پر اعتراض کیوں کر ہو سکتا ہے؟ بلکہ غور کرو اور حضرت ملک الموت کو دیکھو کہ کیسے کیسے انبیاء و رسُل، بادشاہ، بچے، غریب، امیر ، سوداگر سب کو مار کر ہلاک کرتے ہیں اور (اس) دنیا سے نکال دیتے ہیں ۔ پھر غور کرو کہ اگر ہم جانوروں کو عید الاضحی (وغیرہ) پر اسلئے ذبح نہ کریں کہ ہمارا ذبح کرنا رحم کے خلاف ہے تو کیا اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ زندہ رکھے گا اور اگر جانوروں کو ذبح کرنا خلافِ رحم ہوتا تو اللہ تعالیٰ شکاری اور گوشت خوار جانوروں کو پیدا نہ کرتا۔ نیز اگر ان کو ذبح نہ کیا جائے تو خود یہ بیمار ہوکر مریں گے۔ پس غور کرو ان کے (ایسے) مرنے میں کس قدر تکلیف لاحق ہوگی۔
قانونِ الٰہی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر چیز بے حد بڑھنا چاہتی ہے۔ اگر ہر ایک برگد کے بیج حفاظت سے رکھے جائیں تو دنیا میں برگد ہی برگد ہوں اور دوسری کوئی چیز نہ ہو مگر دیکھو ہزار جانور اس کا پھل کھاتے ہیں ، اس سے پتا چلتا ہے کہ اس بڑھنے کو روکنا مرضی الٰہی ہے۔اسی طرح اگر سارے جانوروں کی پرورش کریں تو ایک وقت میں دنیا کی ساری زمین بھی ان کے چارے کیلئے کافی نہ ہوگی، آخر بھوک پیاس سے خود ان کو مرنا پڑے گا، جبکہ یہ نظارۂ قدرت موجود ہے تو ذبح کرنا خلافِ مرضی الٰہی کیوں ہے؟اس مسئلے کو تو ان دنوں ہندوستان کے متعصب لوگوں نے بھی خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیا ہے کہ ان جانوروں کے پالنے والے ان کی کفالت سے معذور ہوکر کس طرح انھیں چھوڑنے پر مجبور ہو گئےاور حکومت کی جانب سے ان کے ذبح پر پابندی لگانے سے کسانوں کا کیا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔(احکام اسلام عقل کی نظر میں ص: 120)

*قربانی کی عمومی حکمتیں*

اللہ تعالٰی ہمارا خالق و مالک ہے اور اس کے بندے اور مخلوق ہیں،اللہ تعالٰی کا کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا لیکن بندے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کے فیصلوں کی علت اور حکمت کا مطالبہ کرے،اس کا کام بس اتنا ہے کہ وہ اللہ کے فیصلوں کو دل و جان سے قبول کرے،اور عمل کرتا رہے۔تاہم اللہ کے فیصلوں اور اس احکام کی حکمتوں کا ادراک اور علم ہوجانا کچھ غلط نہیں ہے بلکہ بعض لوگوں کے لیے اطمینان قبلی کا موجِب ہے،اسی پس منظر میں قربانی کے تعلق سے کچھ حکمتیں لکھی گئی ہیں،اخیر میں کچھ عمومی حکمتیں بھی درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے
(1)قربانی در حقیقت جان و مال جیسی قیمتی نعمت کا شکرانہ ہے۔
(2)یہ شعائر اسلام اور اللہ تعالٰی کے ذکر کا ذریعہ ہے۔
(3)قربانی اپنی ذات، اہل خانہ،پڑوسی،دوست احباب،رشتہ دار اور غرباء و مساکین پر وسعت سے کام لینے کا باعث ہے،نیز یہ مہمانوں کی عزت کا موجِب ہے۔
(4)یہ سنتِ ابراہیمی پر عمل درآمد کا اظہار ہے۔
(5)قربانی اس بات پر دال ہے کہ قربانی کرنے والا ان تمام امور اور واقعات کی تصدیق کرتا ہے جس کی اطلاع اللہ اور اس کے رسول نے اسے دی ہے۔
(6)قربانی صبر،استقامت،ایثارِ نفس،تسلیم ورضا اور محبتِ الہی کے اظہار سے عبارت ہے،جو یہ بتاتی ہے کہ جب بندہ ان اوصاف سے آراستہ ہوتا ہے تو مشیَّتِ الہی قدم قدم پر اس کی رہبری کرتی ہے۔

Comments are closed.