Baseerat Online News Portal

می لارڈ! یہ کیسا انصاف ہے؟

 

نوراللہ نور 

رکن بصیرت آن لائن

اہانت رسول کے بعد جو حالات کشیدہ ہوئے ، ایک فریق کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے بعد ملزمہ اپنے آقاؤں کے سایہ میں جابیٹھی اور بات جب قتل و قتال تک جا پہنچی تو اب ہماری عدالت کی آنکھ کھلی ہے خیر” دیر آید درست آید”
اس کے بعد عدالت نے دہلی پولیس کو پھٹکار لگائی اور اس ملزمہ کے وکیل کو بھی سخت و سست کہ کر حکم دیا کہ عدالت کا وقار مجروح نہ کریں اور یہاں سے اپنے دستاویز کے ساتھ باہر کا راستہ دیکھیں اور عدالت کا وقت ضائع نہ کریں۔
یہ سب تو ٹھیک ہے اور ہم آپ کے اس اقدام کی ستائش کرتے ہیں کہ کم از کم آپ نے اس کو ملزم تو ثابت کردیا اور مزید یہ کہ اس ملزمہ کی تقریر کے نتیجہ میں جو واقعہ رونما ہوا اس کا الزام ان کے سر دینے میں کوئی پس و پیش نہیں دکھائی، مگر ملزمہ کو صرف ” معافی مانگنے کا مشورہ” کیا انصاف کے تقاضوں کو پورا کر سکے گا؟ کیا اس کے نتیجے میں جو جانیں قربان ہوئی ہیں اس کی تلافی ممکن ہے؟
مائی لارڈ! آپ کا ملزمہ اور اس کے وکیل کے تئیں رویہ اطمینان بخش ہے مگر فیصلے کا معیار عدلیہ عالیہ کے حساب سے نہیں ہوا اور نہ ہی جرم کی نوعیت سے کوئی سزا دی گئی اگر یوں ہی معافی تلافی سے کام چلنے لگے اور ملزم کو سزا دینے کے بجائے اس کو تحفظ فراہم کیا جائے گا تو پھر قانون کی وقعت نہیں رہے گی اور عدلیہ کا کوئی وقار نہیں ہوگا؛ اگر اسی معیار پر کارروائی کی جائے گی تو مجرم بے لگام ہوجائے گا اور ہر کوئی پورے ملک کو آگ میں جھونک کر معافی مانگ کر نکل جائے گا پھر تو پورا ملک جہنم بن جائے گا۔
اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ملک کو اس کا تجربہ ہوچکا ہے آج جو نوبت یہاں تک پہنچی ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ مجرم سے باز پرس کرنے اور غلطی پر اس کی سرزنش کرنے کے بجائے اس کی حمایت میں ریلی نکالی گئی اور اس پر مستزاد اس کو معزز پارٹی کی رکنیت بھی دی گئی جس کا نتیجہ یہ ہیکہ کوئی بھی راہ چلتے کسی کو مار دیتا ہے اور کسی کا بھی قتل کردیتا ہے اور آزاد گھومتا رہتا ہے ، اخلاق پہلو اور جنید کی موت اسی بے حسی کا نتیجہ ہے اور گذشتہ روز ادے پور کا واقعہ اسی مجرمانہ تغافل کے سلسلے کی ایک کڑی ہے محترم جج صاحب! اگر اسی معیار پر فیصلے ہوتے رہے تو ملک کا امن و امان غارت ہو جائے گا کل کوئی ہمارے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائے گا اور آئندہ اس کا رد عمل ہوگا اور اسی نفرت کی چکی میں پورا ملک پستا رہے گا۔
آپ کے فیصلے سے جانبداری کی بو بھی محسوس ہوتی ہے جو اس انصاف کی مندر کے شایان شان نہیں ایک طرف تو آپ” نوپور شرما” جس پر کئی جانوں کا قرض بھی ہے اس کو صرف سخت و سُست کہنے پر اکتفاء کر رہےہیں جب کہ دوسری جانب حقیقت سے پردہ اٹھانے پر ایک صحافی کو چار سالہ پرانے ٹوئٹ کی وجہ سے گرفتار کرواتے ہیں اور اس کو مذہبی جذبات مجروح کرنے کی پاداش میں پولیس کسٹڈی کی خاک چھاننے پر مجبور کر رہے ہیں، جو دفعات زبیر لگائے گئے ہیں وہی دفعات نوپور شرما پر بھی لگنا چاہیے تھا مگر اس کو صرف معافی کو کہا جاتا ہے۔
اگر ملک میں امن کے خواہاں ہیں اور انسانی جانوں کی کوئی وقعت ہے تو اس طرح کے جانبدار فیصلے مت کیجئے! مجرم کو مجرم ہی کی طرح برتاؤ کیجئے ورنہ نفرت کی اس آگ میں اگر آج ہم جلیں ہیں تو ہوسکتاہے کل یہ آگ کل آپ کا بھی آشیانہ خاکستر کردے۔

Comments are closed.